New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 09:18 PM

Urdu Section ( 31 Jan 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Quranic Concept of ‘Islam’ and ‘Muslim’ as a Universal Vision - Part Two اسلام' اور 'مسلمان' کا قرآنی تصور ایک آفاقی نقطہ نظر '

 وی۔ اے۔ محمد اشرف، نیو ایج اسلام

 24 جنوری 2025

) حصہ دوئم(

 "اسلام" اور "مسلم" کی آفاقیت پر علمی نقطہ نظر

 ------

 اس دوسرے حصے میں موضوع کے حوالے سے چند بڑے ماہرین علم و فن کا علمی تجزیہ پیش کیا گیا ہے، جس میں ان کے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لفظ "اسلام" اور "مسلم" کس طرح آفاقی اہمیت کا حامل ہے، جو کہ فرقہ وارانہ مذہبی مفہوم سے بالاتر ہیں۔

 ایک عظیم اسلامی اسکالر اور جرمن سفارت کار ڈاکٹر مراد ولفریڈ ہوفمین (2020-1931) لکھتے ہیں:

 "مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ ہر نیک اور خدا کو ماننے والا انسان جنت میں جا سکتا ہے، جیسا کہ قرآن 2:62 میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اسی پیغام کو قرآن کی آیت 2:111 اور 6:52 سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ محمد اسد نے بجا طور پر کہا ہے کہ اس سے مراد کسی بھی مذہب کے لوگ ہو سکتے ہیں (اسد 1980:252، نوٹ نمبر: 41)۔ اللہ اور جسے دوسرے خدا کے طور پر لوگ پوجتے ہیں وہ ایک جیسے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ کہنے کی ہدایت کی گئی ہے: ’’اور کہو ہم ایمان لائے اس پر جو ہماری طرف اترا اور جو تمہاری طرف اترا اور ہمارا تمہارا ایک معبود ہے اور ہم اس کے حضور گردن رکھتے ہیں۔‘‘ (29:46)۔ خدا نے اس وقت تک ایک سے زیادہ مذاہب کے وجود کی ضمانت دی ہے جب تک کہ دنیا باقی ہے۔ اس کا اندازہ آیت 22:17 سے لگایا جا سکتا ہے۔ درحقیقت، خدا بار بار یہ واضح کرتا ہے کہ مذہبی تکثیریت اس کی مرضی سے مطابقت رکھتی ہے (42:8)، اور یہ کہ وہی ہے جس نے ہر امت کو عبادت (2:148) اور اپنے مراسم کی ادائیگی ہدایت دی (22:67)۔ ’’اگر خدا چاہتا تو تمام بنی نوع انسان کو ہدایت پر کر دیتا‘‘ (13:31؛ 16:9؛ 16:93) اور انہیں ایک ہی امت بنا دیتا (11:118؛ 42:8)۔ آیت 5:48 مذہبی تکثیریت کا ایک حقیقی منشور ہے۔ یہ آیت ایک سے زیادہ مذاہب کی بقا کی ضمانت دیتی ہے اور ہر مسلمان کو یہ بات اچھی طرح جان لینا چاہیے۔

تاہم، خدا کی بنائی ہوئی ایک تکثیری کائنات میں، رواداری کی یہ خوبصورتی تب ختم ہو جاتی ہے، جب ہمارے مخالفین اور افسوس کہ کچھ مسلمان بھی، اولاً یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ''صرف اسلام ہی خدا کا دین ہے'' اور دوسرا یہ کہ یہ مذہب باقی سب پر 'غالب'' ہونے والا ہے۔ پہلا نظریہ، مثال کے طور پر،قرآن کی آیت 3:19 میں بیان کیا گیا ہے، جو کہ یہاں اور دوسری جگہوں پر لفظ ’’اسلام‘‘ کی غلط تفہیم پر مبنی ہے۔ جب قرآن کہتا ہے ''ان الدّین عند اللہ الاسلام''، تو ''اسلام'' کو اسی معنی میں لیا جانا چاہیے جیسا کہ یہ نزول قرآن کے آغاز میں لیا گیا تھا، یعنی ''سر تسلیم خم کرنا'' یا ''خود سپردگی''۔ اس طرح کی آیات کو مذاہب عالم کے معنی میں لینا زمانے کے اعتبار سے غلط ہوگا، جو کہ بعد میں ہونے والا تھا۔ چنانچہ آیت 3:19 اور اسی طرح 3:85 کو یوں پڑھا جائے: ’’اللہ کے نزدیک واحد سچا دین اُس کی اطاعت ہے۔‘‘

 دوسرا نظریہ ایک ہی جیسی آیات پر مبنی ہے، جو کہ 48:28 کی طرح یہ پیشین گوئی کرتی ہے کہ اسلام ہر مذہب پر غالب آجائے گا، ان کی جگہ لینے کے معنی میں - جو کہ قرآن کی دوسری آیت سے متضاد ہے، مثال کے طور پر، 5:48 میں زیر بحث فعل (ظہر علی) کو ’’زیادہ چمکدار‘‘ کے معنی میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں، اس کا مفہوم یہ نکلے گا کہ اسلام کی روشنی، اپنی زیادہ شدت کی بدولت، اتنی مضبوطی سے چمکتی ہے کہ ہر دوسرے مذاہب پر سبقت لے جاتی ہے۔ اس معنی میں، غالب ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ جو مغلوب ہے وہ اب موجود نہیں۔ لہذا آیت 48:28 کو اس طرح پڑھنا چاہئے: ''وہی ہے جس نے اپنے رسولوں کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسکی چمک کو تمام مذہب پر غالب کر دے۔'' اور نہ ہی اسلامی نمونہ میں اس حقیقت سے کوئی نقص پیدا ہوا ہے، کہ قرآن بنیادی طور پر مسلمانوں کے درمیان دوستی کی ترغیب دیتا ہے، نہ کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان (3:118، 2:120)۔ بلکہ یہ ایک فطری بات ہے – جو لوگ اپنے آپ کو بھائی اور بہن سمجھتے ہیں ان کے درمیان تعلق مضبوط ہوتا ہے (49:10؛ 3:103)۔ (ہوفمن، صفحہ 240-238)

 محمد اسد، عظیم مفسر، اپنی کتاب "The Message of the Quran" میں لکھتے ہیں:

 "اس پورے کام کے دوران، میں نے 'مسلم' اور 'اسلام' کی اصطلاحات کا ترجمہ ان کے اصل مفہوم کے مطابق کیا ہے، یعنی "وہ جو خود کو خدا کے سپرد کرتا ہے" اور "انسان کا خود کو خدا کے سپرد کر دینا": اسی طرح قرآن میں موجود فعل 'اسلم' کے تمام صیغوں میں یہی معنی کرنا بہتر ہو گا۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان اصطلاحات کا "منظم" استعمال - یعنی ان کا خصوصی طور پر پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں پر اطلاق - یقینی طور پر مابعد قرآن کی ایجاد ہے، اور اس لیے قرآن کے ترجمے میں اس سے گریز کرنا چاہیے۔ " آیت 23:52 کی تشریح کرتے ہوئے، اسد لکھتے ہیں: "جیسا کہ آیت 21:92 میں ہے، مندرجہ بالا آیت ان تمام لوگوں سے مخاطب ہے جو حقیقی معنوں میں خدا پر ایمان رکھتے ہیں، خواہ تاریخی طور پر ان کا تعلق کسی بھی فرقہ سے ہو۔ ماسبق میں خدا کے تمام رسولوں کا حوالہ پیش کر کے قرآن واضح طور پر یہ پیغام دیتا ہے کہ ان سب کو انہی بنیادی سچائیوں کا الہام ہوا اور انہیں کی تبلیغ کی، باوجود اس کے کہ ان رسموں یا مخصوص قوانین میں تمام تر اختلافات موجود رہے، جو انہوں نے اپنے پیروکاروں کی اس زمانے کی ضروریات اور سماجی حالات کے مطابق پیش کیے تھے۔" (اسد، نوٹ 28، 584) یہی پیغام آیت 2:113 سے بھی اخذ کیا جا سکتا ہے: ''اس طرح، قرآن کے مطابق، نجات کسی خاص ''فرقہ'' کے لیے مختص نہیں ہے، بلکہ ہر اس شخص کے لیے نجات کا دروازہ کھلا ہے جو شعوری طور پر خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے، اپنے آپ کو اس کی مرضی کے سپرد کردیتا ہے اور نیک و صالح زندگی بشر کرتا ہے۔'' (اسد 1980: 2:113 پر نوٹ نمبر 92)۔ (اسد، 2008)

 جیفری لینگ، یونیورسٹی آف کنساس، شمالی امریکہ میں ریاضی کے پروفیسر، لکھتے ہیں: "قرآن تقریباً یکساں طور پر تین فقرے (2:62؛ 5:69؛ 22:17) میں واضح کرتا ہے، جو تین الگ الگ اوقات میں نازل ہوئے ہیں، کہ غیر مسلم خود بخود نجات سے خارج نہیں ہوتے۔ ابتدائی مسلم مفسرین نے یہاں ممکنہ نزاع کو محسوس کیا، اور رائے دی کہ جن یہودیوں اور عیسائیوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ محمد کے زمانے سے پہلے کے ہیں۔ تاہم، نہ تو قرآن اور نہ ہی محمد کے قبول شدہ اقوال سے اس کی تشریح ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ قرآن اس بات پر اصرار کرتا ہے، کہ خدا کے نزدیک اسلام کے سوا کوئی مذہب قابل قبول نہیں (3:19؛ 3:85)، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ، اس کے نزول کے وقت عربی لفظ 'اسلام' قوانین اور اعتقادی اصولوں کے ایک مکمل و مفصل نظام کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا تھا۔ عربوں کے نزدیک ’’اسلام‘‘ کا مطلب مکمل طور پر سر تسلیم خم کرنا یا گردن جھکا دینا ہے، اور قرآنی سیاق و سباق میں اس سے مراد خلوص اور رضامندی سے خدا کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے، جو کہ خدا کی تمام حقیقی عبادت کا نچوڑ ہے۔ (لینگ، صفحہ 229-230)

خلیفہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ابوظہبی میں ہیومینٹیز کے پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ گلادری لکھتے ہیں:

 لفظ اسلام قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ 3:19، 3:85، 5:3، 6:125، 39:22، 61:7]۔ تقریباً ان تمام آیات میں اس اصطلاح کو اس مذہب سے تعبیر کیا گیا ہے جسے آج 'اسلام' کہا جاتا ہے۔ تاہم، قرآن میں ایسی اصطلاحات بھی استعمال کی گئی ہیں جو لفظ اسلام سے ماخوذ ہیں، جیسے کہ (مسلم)، (اسلم)، یا اسی مادے سے دوسرے الفاظ، جب کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ اس کی تشریح آج 'اسلام' کے نام سے جانے والے مذہب سے کی جائے۔ رابسن (1954) جیسے اہل علم، اسلام کی اصطلاح کو وسیع مفہوم میں بیان کرتے ہیں، نہ کہ آج اسلام کے نام سے پہچانے جانے والے مذہب کے معنی میں۔ جس مذہب کو آج اسلام کہا جاتا ہے، اس کے پانچ بنیادی ستون ہیں، اس بات کی گواہی دینا کہ صرف ایک خدا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں، دن میں پانچ وقت مکہ مکرمہ کی سمت چہرہ کر کے نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور اگر استطاعت ہو تو زندگی میں ایک بار حج کرنا۔ یہ مختصر طور پر مذہب اسلام کا خلاصہ ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ قرآن کے مطابق اس سے لفظ (مسلم) کی وضاحت بھی ہو۔ اسلام کی اصطلاح کے مختلف معنی ہیں۔ اس کا مطلب ہے سر تسلیم خم کرنا اور خود سپردگی۔ اس کا مطلب سیڑھیاں اور امن بھی ہے۔ قرآن ابراہیم علیہ السلام کو مسلمان کہتا ہے، اور یہ کہ ابراہیم نے اپنے بچوں اور اپنے بچوں کے بچوں کو یہی تعلیم دی تھی۔ 133-2:127، 4:125، 22:78، 37:103]۔ ابراہیم کو کس چیز نے مسلمان بنایا؟ کیا انہوں نے اسلام کے پانچوں ستونوں کی تکمیل کی جس سے وہ مسلمان ہوئے؟ یہ نہیں ہو سکتا۔ مکہ میں کعبہ کہاں ہے یہ جاننے سے پہلے ہی وہ مسلمان تھے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ وہ معیار، جس نے انہیں مسلمان بنایا وہ اس مذہب کے متوازی طور پر آگے بڑھتا، جسے آج اسلام کہا جاتا ہے۔ (گلادری، 2012)

 پروفیسر عبداللہ سعید، سلطان آف عمان پروفیسر آف عرب اینڈ اسلامک اسٹڈیز، نے بجا طور پر کہا:

 "تھولوجیکل انکلوسیوسٹ اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ ان قرآنی آیات میں جسے اسلام کہا گیا ہے، اس کے حوالے سے ان کی تفہیم کو قرآن کے چند کلیدی کلاسیکی مفسرین کی تائید حاصل ہے۔ اگرچہ تمام مفسرین لفظ اسلام کی تشریح اس طرح نہیں کرتے، جیسا کہ ان آیات میں عام معنوں میں استعمال کیا گیا ہے، ہاں بعض بڑے مفسرین نے ایسا کیا ہے۔ الطبری (متوفی 923) آیت 5:3 میں اسلام کی تشریح 'میرے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور میری اطاعت' سے کرتے ہیں۔ الزمخشری (متوفی 1144) کے نزدیک قرآن کی آیت 3:85 میں اسلام 'خدا کی وحدانیت کے اقرار اور اپنے آپ کو اللہ تعالی کے سپرد کرنے' کا نام ہے۔ القرطبی (متوفی 1273) نے آیت 3:19 میں اسلام کی تشریح 'ایمان اور عمل صالح' سے کی ہے۔ لفظ اسلام کی اس طرح کی تشریحات تھولوجیکل انکلوسیوسٹ کو ایک جواز فراہم کرتی ہیں، جس سے وہ آج لفظ اسلام کو مزید عمومی معنوں میں پیش کرتے ہیں، اور اس سے مراد محض 'خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا' لیتے۔ (سعید، 2020)۔

 انڈونیشیا کے قرآنی علوم کے اسکالر اور نوٹر ڈیم یونیورسٹی میں علم الٰہیات کے پروفیسر منعم احمد سری، اس کا خلاصہ اس طرح کرتے ہیں:

 "کم از کم تین قرآنی آیات ایسی ہیں، جنہیں عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ ان سے ایک قسم کے خصوصی اور عدم رواداری پر مبنی مذہبی رجحان کی حمایت ہوتی ہے۔ وہ آیات درج ذیل ہیں:

 3:19: بیشک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے اور پھوٹ میں نہ پڑے کتابی مگر اس کے کہ انہیں علم آچکا اپنے دلوں کی جلن سے اور جو اللہ کی آیتوں کا منکر ہو تو بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔

  3:85: اور جو اسلام کے سوا کوئی دین چاہے گا وہ ہرگز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں سے ہے۔

5:3: آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ۔

 صرف ان تین آیات میں اسلام کا حوالہ دین کے تناظر میں دیا گیا ہے، جسے عام طور پر مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ آیات اسلام کو ہی واحد قابل قبول مذہب قرار دیتی ہیں، جس کی بدولت عام طور پر دوسرے مذاہب پر اسلام کی برتری کا دعویٰ کیا جاتا ہے، اور یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی عقیدہ اور اسلامی اعمال ہی نجات کا واحد راستہ ہیں۔

 ایرانی اسکالر محمد حسین طباطبائی (متوفی 1981) آیت 3:83 میں مذکور لفظ اسلام کو اس کے نئے معنوں میں نہیں، بلکہ اس کے عام معنی میں لیتے ہیں: اور وہ تسلیم و رضا ہے۔ یہ وہ دین ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو تمام زمانوں میں عطا کیا۔ وہ انبیاء کی شریعتوں میں کچھ اختلافات کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ سب کا مقصد ایک ہی ہے، یعنی خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری، اس انداز میں جس طرح تمام انبیاء نے اس کی تبلیغ کی۔ وہ کہتے ہیں کہ "ان شریعتوں کے درمیان کمال اور کمی میں فرق کا مطلب تضاد یا تخصیص یا کسی ایک کی دوسرے پر برتری نہیں ہے، یہ سب ایک ہیں کہ یہ ہر اس چیز میں خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری کا مظہر ہیں، جس کا اس نے اپنے بندوں سے مطالبہ کیا ہے، نبیوں کی تبلیغ کے مطابق۔" طباطبائی اس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں: "ماسبق دلائل سے یہ واضح ہے کہ جو چیز مقصود ہے وہ حقیقی ایمان ہے جو خدا کے ساتھ اور اس کی موجودگی میں ہے، وہ ایک مقدس قانون (شریعت) ہے جو صرف درجے [جامعیت اور کمال] میں مختلف ہے، مختلف برادریوں کی مختلف صلاحیتوں کے مطابق، تاہم، یہ ایک ہے، جس شکل میں خدا نے اسے انسانوں میں ودیعت کیا ہے، خالص ایمان کی اس کی اصل حالت (فطرہ) کے ساتھ۔ اس تفہیم کے ساتھ، طباطبائی آیت 2:62 اور 3:85 کے درمیان کوئی تضاد نہیں پاتے، لہذا نسخ کے نظریہ کی بھی یہاں کوئی ضرورت نہیں، آیت 2:62 کی اپنی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں، "نعمت کے معاملے میں ناموں اور القابات کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی، مثلاً خواہ کسی گروہ کو مومن کہا جائے یا کسی گروہ کو یہودی کہا جائے یا کسی جماعت کو صابی کہا جائے یا کسی کو عیسائی کہا جائے، اہمیت صرف ایک شئی کو حاصل ہے، اور وہ خدا اور یوم آخرت پر ایمان اور اعمال صالحہ ہیں۔ (محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، (بیروت: موسوعہ علمیہ مطبوعہ، 1970، 6:67) (سری، صفحہ 296-297)

 پروفیسر ڈاکٹر طارق مسعود قادر، میلانا یونیورسٹی، قونیہ، ترکی، لکھتے ہیں:

مستشرقین آیت 2:106 کا حوالہ دے کر ایسی آیات کے منسوخ ہونے کے امکان کی طرف اشارہ کرتے ہیں: جب کوئی آیت منسوخ فرمائیں یا بھلا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آئیں گے۔ تاہم، قرآن کے بعض بڑے مفسرین، جن میں سنی اور شیعہ دونوں شامل ہیں، بشمول ایک عظیم سنی مفسر طبری (متوفی 310/923) کے، اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ طبری کا ماننا ہے کہ نسخ کا اصول 2:62 یا 5:69 جیسی آیات پر منطبق نہیں ہو سکتا، جن میں اللہ نے یہودیوں، عیسائیوں، صابیوں اور خدا، یومِ جزا پر ایمان رکھنے والے اور نیک اعمال کرنے والوں سے انعامات کا وعدہ کیا ہے۔ طبری کی دلیل ہے کہ نسخ کا اطلاق صرف قانونی احکام پر ہی ہوتا ہے، خبروں پر نہیں (شاہ کاظمی، آر. (2006)، دی دیگر ان دی لائٹ آف دی ون: دی یونیورسلٹی آف دی قرآن اینڈ انٹرفیتھ ڈائیلاگ، کیمبرج، یو کے: دی اسلامک ٹیکسٹس سوسائٹی ، صفحہ 168)۔

 قرآن کہتا ہے کہ انسانوں اور مخلوقات میں تنوع خدا کی مرضی سے ہے (3:22) اور یہ کہ تنوع کا مقصد ایک دوسرے کو پہچاننا ہے (49:13)۔ یہ سمجھنا زیادہ مشکل ہے کہ ان الہی پیغامات میں ایک لازمی وحدت کا پیغام ہے (41:43؛ 65-4:163؛ 42:13)۔ اتحاد ہر مذہب کا حتمی مقصد ہے - خدا: اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہ بھیجا مگر یہ کہ ہم اس کی طرف وحی فرماتے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھی کو پوجو۔ (21:25)۔ آیت 2:111 میں قرآن اہل کتاب کی شاونزم کے خلاف تنبیہ کرتا ہے: اور اہل کتاب بولے، ہرگز جنت میں نہ جائے گا مگر وہ جو یہودی یا نصرانی ہو یہ ان کی خیال بندیاں ہیں تم فرماؤ لا ؤ اپنی دلیل اگر سچے ہو۔ آیت 4:122 میں قرآن خدا کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ مومنوں کو جنت عطا کرے گا، اور اس میں صرف پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کی کوئی تخصیص نہیں، اور پھر مندرجہ ذیل آیت میں قرآن متنبہ کرتا ہے کہ یہ تمہاری خواہشات، یا اہل کتاب کی خواہشات کے مطابق نہیں ہوگا (4:123)۔ مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں ہمیں آیت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، حقیقت میں خدا کے نزدیک دین اسلام ہے (3:19)۔ علیحدگی پسند مسلمان اکثر اس بات کا حوالہ دیتے ہیں کہ اسلام، جو اپنے مخصوص عقائد، قوانین اور رسومات کے ساتھ ایک باضابطہ دین ہے، یہی دین خدا کا پسندیدہ ہے۔ تاہم، ایسا لگتا ہے کہ قرآن لفظ 'اسلام' اور اس کے مشتقات کو 'خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے' یا 'خدا کے سامنے گردن جھکانے' کے معنی میں استعمال کرتا ہے، جو کہ اس دین اسلام کا مرکزی مھحور بھی ہے، جس کی تعلیم و تبلیغ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔ لہٰذا، ابراہیم اور عیسیٰ کے ماننے والے اپنے آپ کو مسلمان یا خدا کے تابع ہونے والوں کے طور پر دیکھتے ہیں (3:52؛ 6:163؛ 5:3)۔ (قدیر، ص 130-127)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

Asad, Muhammad, The Message of the Quran, Bristol: The Book Foundation, 2008

Galadari, Abdulla, Diversity in Heaven: Quranic Perspective Beyond Pluralism, The International Journal of Diversity in Organizations, Communities and Nations Volume 11, Issue 3, 2012

Hofmann, Murad Wilfried, Religious Pluralism and Islam in a Polarized World, in “Islam and Global Dialogue” Edited by Roger Boase, Burlington, VT: Ashgate Publishing Company, 2005

Lang, Jeffrey, Struggling to Surrender, Beltsville, Md.: Amana Publications, 1995

Quadir, Tarik, Multiculturalism in Britain on the Basis of the Quran, Rumi or the Traditionalist Vision, In Workshop Proceedings: Debating Multiculturalism 1, Editors: Max Farrar, Simon Robinson, Omer Sener, Loncon: Dialogue Society, 2012

Saeed, Abdullah, Inclusivism and Exclusivism among Muslims Today between Theological and Social Dimensions, RSIS-Singapore, November-December 2020

Sirry, Munim, Reinterpreting the Quranic Criticism of Other Religions, In Quranic Studies Today, Edited by Angelika Neuwirth and Michael A. Sells, New York: Routledge, 2016

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

English Article: The Quranic Concept of ‘Islam’ and ‘Muslim’ as a Universal Vision - Part Two

URL: https://newageislam.com/urdu-section/quranic-concept-muslim-universal-vision-part-two/d/134487

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..