نصیر احمد، نیو ایج اسلام
5 مئی 2025
ایڈیٹر نوٹ
اس فکر انگیز مضمون، قرآن بطور وسیلہ: اللہ تک پہونچانے والا خود کفیل رہنما، میں نصیر احمد نے روحانی زندگی میں وسیلہ کے کردار کے حوالے سے، ایک طویل عرصے سے جاری مفروضوں کو چیلنج کیا ہے۔ قرآنی آیات اور اسلامی اصولوں پر روشنی ڈالتے ہوئے، وہ قرآن کے ساتھ براہِ راست تعلق استوار کرنے کے حق میں، ایک زبردست دلیل پیش کرتے ہیں — اولیاء، علماء، یا روحانی مشائخ کی مدد کے بغیر — جو کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا حقیقی ذریعہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب بہت سے مسلمان دین میں ذاتی احتساب اور فکری دیانت داری کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں، یہ مضمون ایک بروقت یاد دہانی ہے: کہ اسلام کی بنیادی طاقت درجہ بندی یا موروثی عہدے داری میں نہیں ہے، بلکہ اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ، اللہ تک پہنچنے والے تمام لوگوں تک الہی رہنمائی کی رسائی میں ہے۔
یہ مضمون یقینی طور پر غور و فکر اور صحت مند بحث کو جنم دے گا، اور ہم قارئین کو دعوت دیتے ہیں، کہ وہ اس مضمون میں پیش کیے گئے افکار و خیالات کے ساتھ کھلے تجسس کے اسی جذبے کے ساتھ مشغول ہوں، جس کا خود قرآن حکم دیتا ہے۔
خلاصہ
اس مضمون میں یہ دلیل پیش کی گئی ہے، کہ اللہ تک پہنچنے کا بہترین طریقہ براہ راست قرآن سے تعلق ہے۔ کسی دوسرے وسیلے کا استعمال کرنا، قرآن کو کسی ناقص شئی کے حق میں رد کرنا ہے۔ ایسا کرنا ہمیں قرآن کی اس قابلیت سے فیض یاب ہونے محروم کرتا ہے، کہ وہ ہمارے ذہنوں اور دلوں سے براہ راست بات کر سکتا ہے، اور اپنے رازوں کو ظاہر کرتا ہے۔ قرآن ہمارے لیے اسی صورت میں ایک تازہ وحی بن سکتا ہے، جب ہم اس کے پاس کشادہ دلی اور تقویٰ کے ساتھ رجوع کریں۔ اس کے پاس ہمارے تمام سوالات کے جوابات فراہم کرنے کی طاقت ہے، بشرطیکہ ہم اس پر بھروسہ کریں، اور اس کے ساتھ اس احترام کے ساتھ پیش آئیں جس کا وہ مستحق ہے۔ بنیادی تعلیم سے ہٹ کر، اس تعلق میں وسیلوں کو شامل کرنا، اس اعتماد کو ختم کر دیتا ہے جس کا قرآن مطالبہ کرتا ہے اور جس کا وہ مستحق ہے۔
1. قرآن اللہ تک براہ راست رسائی کا وسیلہ
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ جو لوگ وسیلہ پر یقین نہیں رکھتے - جنہیں روحانی وسیلے پر انحصار سمجھا جاتا ہے - مغرور یا فریب میں ہیں۔ لیکن میرا یقین قرآن کی اپنی ہدایت پر مبنی ہے: قرآن ہی وسیلہ ہے - اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ یہ تجویز کرنا کہ کتاب مبین کو کسی خارجی وسیلہ کی ضرورت ہے، اس کے دعووں کے ساتھ ایک تضاد ہے اور اس کی تردید ہے۔ تعجب کی بات نہیں کہ قرآن ایسے لوگوں کے لیے مغلق اور غیر واضح ہے۔
اسلام میں، اللہ کا قرب صرف اور صرف تقویٰ پر مبنی ہے، نہ کہ کسی روحانی شخصیت کی شفاعت پر۔ اسلام نے کہانت، تصوف اور درجہ بندی کی زنجیریں توڑ دیں۔ اب کسی پادری، کسی ساکرامینٹس، اور کسی وسیلہ کی ضرورت نہیں رہی۔ تمام انسان اللہ کے سامنے برابر ہیں۔ وسیلہ کے نام پر ثالثوں کو لانا، اس نظام کی طرف رجوع کرنا ہے جسے اسلام ختم کرنے آیا تھا۔
2. قرآنی شواہد کی بنا پر وسیلہ کی تردید
روایتی اور صوفی طریقہ کار میں، سب سے بڑی خامی اس بات میں پنہاں ہے، کہ تصوف کے مطابق مذہبی علم اور قرب الٰہی کے لیے روحانی رہنما یا مرشد کا وسیلہ ضروری ہے۔ یہ عقیدہ کی ایک ایسی خامی ہے، جس کی بدولت غلطیاں درست ہونے کے بجائے برقرار رہتی ہیں، بغیر کسی جانچ پرکھ کے نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ قرآن سے براہ راست تفہیم حاصل کرنے کے بجائے، اس کا پیغام وراثت میں ملنے والی، غیر جانچی پرکھی تشریحات کی تہوں میں چھپا ہوا ہے۔ روحانیت سے مالا مال ہونے کے باوجود، صوفی اسکالرشپ نے اکثر اسلامی تھیولوجی کو، ایسے افسانوی عناصر کے ساتھ دھندلا کرنے میں کردار ادا کیا ہے، جو براہ راست قرآن میں نہیں ہیں۔
درج ذیل آیات پر غور کریں:
• (40:15): "بلند درجے دینے والا عرش کامالک ایمان کی جان وحی ڈالتا ہے اپنے حکم سے اپنے بندوں میں جس پر چاہے کہ وہ ملنے کے دن سے ڈرائے۔"
• (16:2): "ملائکہ کو ایمان کی جان یعنی وحی لے کر اپنے جن بندوں پر چاہے اتارتا ہے۔"
یہ الہام براہ راست ہے - یہاں کسی روحانی رہنما کا کوئی وسیلہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں عام طور پر نقل کی جانے والی آیت حسب ذیل ہے:
• (5:35): "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔"
یہاں، وسیلہ سے واضح طور پر اطاعت اور نیک اعمال مراد ہیں - یعنی تقویٰ، اللہ کی راہ میں کوشش کرنا - کسی شخص کا وسیلہ نہیں۔ اس تشریح کی تصدیق اس سے ہوتی ہے:
• (17:56-57): "تم فرماؤ پکارو انہیں جن کو اللہ کے سوا گمان کرتے ہو تو وہ اختیار نہیں رکھتے تم سے تکلیف دو کرنے اور نہ پھیر دینے کا وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے ہیں وہ آپ ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں۔۔۔۔۔۔"
یہاں تک کہ اللہ کے قریب ترین لوگ بھی براہِ راست اسی سے وسیلہ چاہتے ہیں، نہ کہ ثالثوں کے ذریعے۔ اس طرح کسی بھی انسانی ثالث کے ذریعے اللہ تک پہنچنے کا تصور نہ صرف غیر اسلامی ہے، بلکہ یہ خلاف قرآن بھی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ قرآن کے تصور وسیلہ سے صوفیاء واقف نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سورہ 67 الملک کی تلاوت قبر میں عذاب سے بچائے گی۔ تو پھر قیامت کے دن قرآن شفاعت کرنے والا کیوں نہیں؟ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم اپنی کوششوں کے ذریعے، اپنی سمجھ کو مستقل طور پر بہتر کرتے ہوئے، خلوص نیت سے اس پر عمل کریں۔
تقلید اور روحانی درجہ بندی کے نقصانات
وسیلہ، تقلید (اندھی تقلید) اور اجازت کے درمیان تعلق سے پتہ چلتا ہے، کہ یہ تصورات تازہ بصیرت اور انسان کی روحانی ترقی کو دبانے میں کس طرح کارفرما ہوتے ہیں۔ ایک مرید صرف اسی حد تک جا سکتا ہے، جہاں تک اس کے روحانی رہنما (مرشد) اجازت دیں۔ مشرقی روایات میں گرو کو بڑی اہمیت حاصل ہے، جس سے موروثی علم کو چیلنج کرنے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، مغربی تعلیمی روایت میں طالب علموں کو اپنے اساتذہ سے سوال کرنے اور ان میں بہتری پیدا کرنے کی اجازت ہے، جس سے مسلسل ترقی کو فروغ ملتا ہے۔
اسلام سچائی کو کسی فرد سے نہیں باندھتا۔ قرآن ہر ایک کو غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ کی ہدایت سب کے لیے ہے۔ میرا اپنا طریقہ کار - "محکمات آیات کے لیے ایک صرف قرآنی طریقہ کار، اور متشابہات کے لیے سائنسی" - یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم تقلید کے طوق کے بغیر، یا کسی گرو یا اجازت پر انحصار کیے بغیر، براہ راست قرآن سے رجوع کرتے ہیں، تو نئی نئی بصیرتیں پیدا ہوتی ہیں۔
آج امت مسلمہ کے معاملات کو حل کرنے کے لیے ہمیں موجودہ دور کے روشن خیالوں کے اجماع (اتفاق رائے) کی ضرورت ہے، نہ کہ ماضی کے علماء کے اجماع کی، جن کے حالات، چیلنجز اور علم کی بنیاد مختلف تھی۔ حقیقی اجماع متحرک ہے، منجمد نہیں۔ اسلام جمود کا مذہب نہیں ہے بلکہ اجتہاد کے ذریعے مستقل تجدید کا مذہب ہے - تازہ استدلال کا مذہب ہے، جس کی جڑیں قرآن میں ہیں، اور جسے تقویٰ کی پشت پناہی حاصل ہے۔
4. اندھی تقلید: ایک قرآنی تنقید
جو لوگ اندھی تقلید کرتے ہیں، اپنے پیشروؤں کی رائے پر عمل کرتے ہیں، وہ ان کافروں سے مختلف نہیں ہیں جن کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے:
• (26:74): "بولے بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا۔"
• (31:21): "اور جب ان سے کہا جائے اس کی پیروی کرو جو اللہ نے اتارا تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کوپایا کیا اگرچہ شیطان ان کو عذاب دوزخ کی طرف بلاتا ہو".
• (43:22): "بلکہ بولے ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک دین پر پایا اور ہم ان کی لکیر پر چل رہے ہیں۔"
ان تمام آیات میں قرآن کا خطاب ان لوگوں سے ہے جو اپنی عقل کو استعمال نہیں کرتے، اور جانوروں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں - اور بہرے، گونگے اور اندھے ہیں:
• (41:44): "وہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے اور وہ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں ٹینٹ (روئی) ہے اور وہ ان پر اندھا پن ہے گویا وہ دور جگہ سے پکارے جاتے ہیں"۔
• (8:22): "بیشک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو بہرے گونگے ہیں جن کو عقل نہیں۔"
یہ باتیں ان مومنین پر یکساں طور پر نافظ ہوتی ہیں، جو اپنے آپ کو نئی بصیرت سے دور رکھتے ہیں، اور ماضی کے ائمہ کی غلطیوں کی پیروی کرتے ہیں۔
5. نتیجہ: قرآن ہمارا وسیلہ
آئیے ہم قرآن کو اپنا واحد اور حقیقی وسیلہ قرار دیں، جیسا کہ اللہ کی مرضی ہے - ایک ایسا رہنما جو ہمارے ذہنوں اور دلوں سے براہ راست بات کرتا ہے۔ ایسا کر کے، ہم اسلام کی روح کو زندہ کرتے ہیں: براہ راست، غیر ثالثی، اور زندہ۔ صرف قرآن پر بھروسہ کر کے، ہم اللہ کے ساتھ ایک ایسا تعلق بحال کرتے ہیں، جس کی جڑیں ذاتی ذمہ داری، غوروفکر اور اخلاص پر مبنی ہیں۔ یہ وہ اسلام ہے جو آزاد کرتا ہے، روشن خیال کرتا ہے اور متحد کرتا ہے۔
----
English Article: The Quran as Waseela: A Self-Sufficient Guide to Allah
URL: https://newageislam.com/urdu-section/quran-waseela-sufficient-guide-allah/d/135474
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism