صاحب زادہ خورشید احمد گیلانی
مضمون ھٰذا صاحب زادہ خورشید احمد گیلانی صاحب کا ہے۔ جاننے والے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ جب وہ اب اس دنیامیں نہیں رہے تو آپ کیوں ان کے نام کے ساتھ مرحوم نہیں لکھتے ۔ عرض یہ ہےکہ میرا عقیدہ تو اس شعر پر ہے کہ
اُ س کے پیالے میں زہر تھا ہی نہیں
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
جس کی تحریر زندہ ہو وہ بھلا کب مرتا ہے۔
ایک عرصہ ہوا اخبارات میں ایک خبرنمایاں طور پر شائع ہوئی کہ ایک پاکستانی عالم دین نے ڈنمارک میں عیسائیوں سے منوالیا کہ قرآن حکیم سچی کتاب ہے اور بائبل ایک ‘‘ اسٹوری بک’’ ہے اخبار میں اس مناظر کی قدر تفصیل بھی شائع ہوئی تھی ۔
بلاشبہ اس خبر میں ایک پہلو مسرت کا تھا مگر کئی پہلو حیرت اور حسرت کے بھی ہیں، مسرت خوش فہم لوگوں کے لئے اور حیرت و حسرت ان افراد کے لئے جو ظالم اس آپا دھاپی اور گروہ بندی کے دور میں بھی دل درد مند اور ضمیر زندہ رکھتے ہیں فرق صرف زاویہ نظر کا ہے کچھ لوگوں کے نزدیک چودھویں کا چاند نقطہ کمال ہوتا ہے او رکچھ کے نزدیک آغاز زوال بعض لوگ کلی چٹکنے پر خوش ہوتے ہیں اور بعض رو دیتے ہیں کہ بیچاری کا شاخ سے ٹوٹنے کا وقت آپہنچا ہے راقم الحروف ان ‘‘ شوریدہ سروں’’ میں شامل ہے جو بغلیں کم بجاتے اور گریباں میں زیادہ جھانکتے ہیں ، یہ مناظر وں کانہیں خبر پڑھ کر بھی کچھ ایسی ہی کیفیت طاری ہوئی ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ موجودہ دور مناظر وں کانہیں ٹھوس حقائق اور تلخ تجربات کاہے او رزمانہ تھاجب مناظروں سے میدان مارےجاتے تھے اور ذوق نعرہ زنی کی تسکین ہوتی تھی، اب بے رحم زمانہ نئے پیمانے لے کر ہمارے سامنے ہے، او ربا ر بار کہتاہے کہ پیش کر گر کچھ دفتر عمل میں ہے اور اگر کسی کے پاس دفتر عمل سے پیش کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تو زمانہ سلام کہہ کر اگلے سفر پر نکل جاتاہے کسی کے زور بیان کی داد دینے کے لئے سردھنا شروع نہیں کردیتا ، جو قوم لفظوں کی جنگ جیت جائے اور اس پر شادیا نے بجائے وہ خوش فکروں کاایک ہجوم تو ہوسکتی ہے دنیاکی قیادت نہیں کرسکتی، او رجو قوم سر نیہوڑا کرکام میں لگی رہے اور زبان تالو میں دے کر گونگی بن جائے ایک دن وہ دنیا کی اگلی صف میں کھڑی نظر آتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں مار کھانے کے بعد جاپانی قوم کے لبوں پر مہر لگ گئی نہ بیانات نہ تقریریں ، نہ بڑکیں اور نہ نعرے ، ہر شخص اپنے کام میں جٹ گیا، اور آج اس کے ‘‘ دین’’ کے سامنے امریکہ کا ‘‘ ڈالر’’ تھر تھر کانپ رہا ہے اسی جاپان کو دفاع کی چھتری مہیاکرنے والا امریکہ ،جاپان کے مقابلے میں عالمی منڈی کے اندر اپنی بقاء اور تحفظ کےلئے ہاتھ پاؤں مارتا دکھائی دےرہاہے لیکن جاپان ہے کہ کسی کو قدم جمانے کی مہلت نہیں دے رہا ہے۔ خوش گفتار ہونا الگ بات ہے اور ٹھوس کردار رکھنا بالکل دوسری چیز ۔
مناظر ے میں کیا مباحث چھڑے؟ کیسے کیسے نکات اٹھائے گئے؟ دلائل کاکیا عالم تھا؟ کس کے حملے کار گررہے ؟ کس نے خطابت کا جادو جگایا؟ اور کس نے حوالوں کا انبار لگایا؟ یہ خوش کن منظر تو حاضرین نے دیکھا ہوگا اور وہ یقیناً محظوظ ہونگے ، البتہ مقام مسرت ہے کہ مسلمان عالم دین کو برتری حاصل رہی اور وہ ظفریاب ہوئے، قرآن حکیم کی حقانیت کفر کے قلب میں واضح ہوگئی ا س سے بڑھ کر ایک مسلمان کے لئے کیا خوشی ہوسکتی ہے مگر یہ خبر ساتھ ساتھ کئی سوالات جنم دے گئی جن کا جواب ہمارے ذمہ ہے اور ہم بحیثیت قوم شاید ان سوالوں کا بھی جواب نہ دے سکیں، کیونکہ وقت اور تاریخ کے بہت سے قرض ہم پر واجب ہیں ۔ مسلمان عالم دین نے عیسائی پادری کو لاجواب کردیا اور وہ قرآن حکیم کی صداقت اور حقانیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا وہ نہ بھی مانتا تب بھی قرآن حکیم کائنات کی سب سے بڑی سچائی او رمصدقہ حقیقت ہے۔
البتہ ہمیں سوچنا چاہئے کہ قرآن حکیم تو من و عن وہی ہے جو پہلے تھا اس کے الفاظ و حروف بھی وہی ہیں جو نزول کے وقت تھے مگر اثرات وہ کیوں نہیں جو صدر اسلام میں ظاہر ہوئے تھے، ماننا پڑے گا کہ یا تو قرآن وہ نہیں یا پھر مسلمان ویسے نہیں رہے ، اور اس میں ظاہر ہے موخرالذ کر بات یقینی ہے جب ہم کسی عیسائی پادری سے یہ منوا لیتے ہیں کہ قرآن حکیم سچی اور انقلاب انگیز کتاب ہے تو وہ سچائی اور انقلابیت خود ہمارے اندر کیوں دستیاب نہیں؟ جب ہم غیروں کو قرآن کی عظمت کا قائل کرلیتے ہیں تو وہ کردار کی عظمت ہم میں کیوں مفقود ہے؟۔
جب ہم قرآن مجید کو اٹل اور غیر متبدل حقیقت ثابت کرلیتے ہیں تو ہم میں وہ ثبات و استحکام کا جوہر کیوں نظر نہیں آتا ؟ او رہم کیوں صدیوں سے گھڑی کا پنڈولم بنے ہوئے ہیں نہ اس پہلو سکون ہے نہ اُس کروٹ قرار ؟ جب ہم یہ خبریں پڑھ کر خوش ہورہےہوتے ہیں کہ عیسائیوں نے اور انگریزوں نے قرآن حکیم کو اپنی کتاب کے مقابلے میں بر تر تسلیم کرلیا ہے تو ذرا یہ بھی سوچ لیا کریں کہ قرآن کریم کی برتری بجاء مگر میدان عمل میں میں حاملین قرآن کی ابتری بھی ایک نا قابل تردید مشاہدہ بن گئی ہے کچھ اس درد کا مداوا بھی ہونا چاہئے جب ہم خود کو اور دوسری اقوام بالخصوص یورپی او رامریکہ کی قوتوں کو میزان عمل میں تولتے ہیں تو بد قسمتی سے ہمارا پلڑا بہت اوپر اٹھا ہوا دیکھائی دیتا ہے ہم صدر اسلام میں اتنے بے وزن تو نہیں تھے بلکہ ہم تو اقوام عالم کے لئے معیار حق اور تہذیب کا درجہ رکھے تھے ،اگر ہم اپنے آپ سےاستفسار کریں او رکچھ سوالوں کاجواب چاہیں تو نظر اوپر نہیں اٹھتی بلکہ گریبان کی طرف جھکتی ہے کہ ۔
ہم انگریز وں کے مقروض ہیں یا وہ ہمارے قرض دار؟
ہم ان کی ثقافت سے مرعوب ہیں یا وہ ہماری تہذیب کے مقلد؟
ہم ان کی صنعت و حرف میں محتاج ہیں یا وہ ہمارے دست نگر؟
ہم ان کے فیشن کے دلدادہ ہیں یا وہ ہمارے طرز تمدن کے شیدائی؟
ہماری تقدیر ان کے دامن سے وابستہ ہے یا ان کا مقدر ہمارے ہاتھوں میں ہے؟
ہم اپنا بجٹ ان کی امداد کے سہارے ترتیب دیتے ہیں یا ان کے بجٹ کاہم پردار و مدار ہوتا ہے؟
ہم ان کے دیئے ہوئے نظام سیاست کے اسیر ہیں یا وہ ہمارے پابند نظام؟
ہم ان کی شرائط پر ان کے معاملہ کرتے ہیں یا وہ ہماری شرائط پر معاہدے؟
ہمیں ان کی خوشنودی مطلوب رہتی ہے یا انہیں ہماری خوشی کا خیال رہتا ہے؟
غرض ایسے بے شمار سوالات ہیں جو ہم اپنے آپ سے پوچھ کر شرمندہ ہوتے رہتے ہیں کیوں نہ ہم جی کڑا کرکے ایک ہی انقلابی جست میں ان سب تلخ سوالوں کا جواب دے دیں او رپھرکسی سے مناظر ے کی نوبت ہی نہ آئے ، اگر ہم ہی ان کےمقروض ہم ہی ان کے مرعوب ، ہم ہی ان کے محکوم او رہم ہی ان کے محتاج تو ان سے لفظی جنگ جیتی بھی تو کیا جیتی؟ ہم تو اس دن فاتح کہلائیں گے جب نظریہ بھی ہمارا ہوگا اور نظام العمل بھی اپنا، بجٹ بھی اپنا ہوگا اور وسائل بھی اپنے تقدیر بھی اپنی ہوگی اور تقدیر ساز بھی ہم خود ہوں گے ، وہ فتح حقیقی ہوگی۔
جب ہم میدان عمل میں اپنے پاؤں پرکھڑے ہوجائیں گے تو اس وقت مناظروں کے بغیر دنیا ہماری او رہمارے قرآن کی طرف لپکے گی اور وہ خود اپنے اوپر قرآن کی شاہد ہوگی اور پھر اشرِقت الارض بنوِرد بتھا ( اور زمین اللہ کے نور سے بھر جائے گی) کا سماں پیدا ہوگا۔
اکتوبر، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/quran-superiority-its-holders-deterioration/d/100150