New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 09:08 PM

Urdu Section ( 29 Apr 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Quran And Scientific Consciousness قرآن میں سائنس کی تلاش

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

29 اپریل 2024

قرآن ساتویں صدی میں عرب میں نازل ہوا۔ یہ دور عہد وسطی کا ابتدائی مرحلہ تھا جب زرعی معاشرہ ترقی پذیر تھا۔ عیسائیت اس دور میں ایک مستحکم مقام حاصل۔کرچکی تھی اور انجیل کی تعلیمات کے نتیجے میں انسانی شعور ترقی یافتہ ہوچکا تھا۔ ایسے دور میں قرآن کی تعلیمات نے انسانی معاشرے میں مزید ترقی پسندانہ افکار کی تبلیغ و اشاعت کی۔ قرآن نے اس دور کی چند نمایاں سماجی برائیوں کے خلاف تحریک چلائی جن میں دختر کشی اور غلامی اہم تھیں۔۔ ان برائیوں کے سدباب کے ساتھ ساتھ قرآن نے انسانوں میں سائنسی طرز فکر کو بھی فروغ دیا ۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ متاخر عہد وسطی میں دنیا میں جو سائنسی پیش رفت ہوئی اس کا محرک قرآن کا ترقی پسندانہ اور سائنسی طرز فکر ہی تھا۔ اگرچہ پچھلی مذہبی کتابوں انجیل اور ویدوں میں بھی سائنسی موضوعات سے بحث ملتی ہے لیکن قرآن میں سائنسی موضوعات پر زیادہ تفصیل سے بحث ملتی ہے۔مثال کے طور پر ویدوں میں فلکیات اور علم الادویہ کا ذکر بھی ہوا ہے لیکن ویدوں کے پیروکاروں میں سائنسی طرز فکر پیدا نہ ہوسکا کیونکہ انہوں نے ویدوں کے سائنسی پہلو کو نظرانداز کیا۔ اسی طرز فکر سے متاثر ہو کر کچھ مسلم دانشوروں نے بھی یہ مؤقف اختیار کیا کہ قرآن میں سائنس نہیں تلاش کرناچاہئے۔ یہ ایک۔مذہبی صحیفہ ہے اور اسے اسی نقطہء نگاہ سے دیکھنا اور پڑھنا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے اور اس میں اصول طبیعیات ، اصول ریاضیات ، جغرافیائی حقائق یا خلائی تکنالوجی وغیرہ پر تفصیلی ابواب نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے موضوعات اور مظاہر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ساتویں صدی کے انسانوں کے لئے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے تھے پھر بھی قرآن ان عام قدرتی مظاہر کی طرف مسلمانوں کی توجہ مبذول کرتا ہے اور انہیں ان پر غور کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اگر قرآن میں سائنس کی تلاش نہیں کرنی چاہئے تو پھر ان عام قسم کے مظاہر پر قرآن جیسی آسمانی کتاب میں غور کرنے کی تلقین کیوں کی گئی ہے۔۔ مثال کے طورپر مندرجہ ذیل آیتوں پر غور فرمائیں۔

۔۔"دیکھ ہر ایک درخت کے پھل کو جب وہ پھل لاتا یے اور اس کے پکنے کو ۔ان چیزوں میں نشانیاں ہیں واسطے ایمان والوں کے۔"۔۔(الانعام: 99)

قرآن انسان سے کہہ رہا ہے کہ ایک پھل دار درخت کو دیکھو۔ اس میں نشانیاں ہیں۔ساتویں صدی کے زرعی معاشرے کا انسان صبح سے شام تک پھل دار درختوں خصوصاً کھجور کے درختوں کو ہی دیکھتا تھا۔ پھر اس میں انسانوں کو کونسی نئی بات خدا دکھانا چاہتا ہے۔ دراصل خدا مسلمانوں کو اب ترغیب دینا چاہتا ہے کہ وہ اب چیزوں کو ایک نئے زاوئیے سے دیکھیں۔ یعنی سائنسی نقطہء نظر سے دیکھیں۔اب تک وہ پھلدار درختوں کو سطحی نقطہء نظر سے دیکھتے آئے تھے۔ اب وہ انہیں سائنسی نقطہء نظر سے دیکھیں تو ان پر نئے حقائق منکشف ہو نگے۔ اسی طرح وہ چاند ، سورج اور ستاروں کو سطحی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔اب وہ انہیں نئے زاؤئیے سے دیکھیں:

۔"اور تمہارے لئے لگا دیا رات اور دن اور سورج اور چاند کو اور ستارے کام۔میں لگا دئے ، اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے یی۔۔" (النحل: 12)۔

اسی طرح زمین میں جو رنگ برنگ کی چیزیں پھیلی نظرآتی ہیں اور معمولی نظرآتی ہیں ان کو بھی سائنسی نقطہء نظر سے دیکھیں۔ انہیں حکمت اور دانش کے موتی ملینگے۔

۔۔"اور جو چیزیں پھیلائیں تمہارے واسطے زمین۔میں رنگ برنگ کی اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو سوچتے ہیں۔۔"النحل: 13)۔

حتی کی قرآن کہتا ہے کہ جن چوپایوں کو تم صرف سطحی نگاہ سے دیکھتے ہو اور انہیں حقیر سمجھتے ہو دراصل وہ قدرت کا سائنسی شاہکار ہیں۔ان پر گہرائی سے نگاہ ڈالو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ان کے جسم میں ایک بہت ہی اعلی اور پیچیدہ نظام کام کررہا ہے۔

۔"اور تمہارے لئے چوپایوں میں سوچنے کی جگہ ہے پلاتے ہیں تم کو اس کے پیٹ کی چیزوں میں سے گوبر اور لہو کے بیچ میں سے دودھ ستھرا خوش گوار پینے والوں کے لئے۔اور میوؤں سے کھجور کے انگور کے بناتے ہو اس سے نشیہ اور روزی خاصی۔ اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے واسطے جو سمجھتے ہیں۔۔"(النحل: 67)۔

زرعی معاشرے میں اونٹوں اور شہد کی مکھیوں سے ہر شخص واقف تھا اور اکثر انکی نظر ان پر پڑتی تھی۔وہ ان کی اہمیت اور افادیت سے بہت اچھی طرح واقف تھا۔ پھر کیوں قرآن کہتا ہے کہ ان پر غور کرو۔

۔"اور حکم دیا تیرے رب نے شہد کی مکھی کو کہ بنالے پہاڑوں میں گھر اور درختوں میں اور جہاں ٹٹیاں باندھتے ہیں پھر کھا ہر طرح کے میوؤں سے پھر چل راہوں میں اپنے رب کی صاف پڑے ہیں۔۔ نکلتی ہے ان کے پیٹ میں سے پینے کی چیز جس کےمختلف رنگ ہیں۔اس میں مرض اچھے ہوتے ہیں لوگوں کے اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو فکر کرتے ہیں۔۔"(النحل: 69)۔

۔"بھلا کیا نظر نہیں کرتے اونٹوں پر کہ کیسے بنائے ہیں اور آسمان پر کہ کیسا اس کو بلند کیا ہے اور پہاڑوں پر کی کیسے کھڑے کردئیے ہیں اور زمین پر کہ کیسی صاف بچھائی ہے۔۔"(الغاشیہ: 21)۔

خدا ساتویں صدی کے انسانوں سے کہتا ہے کہ زمین پر غور کرو ، آسمان پر غور کرو، پہاڑوں پر غور کرو۔ جبکہ ان کے لئے یہ چیزیں عام تھیں اور ان میں انہیں کوئی خاص بات نظر نییں آتی تھی۔ دراصل خدا چاہتا تھا کہ انسان ان میں چھپے ہوئے سائنسی حقائق کا پتہ لگائے۔ کیونکہ جب وہ زمین ، آسمان ، پہاڑوں ، درختوں ، اونٹوں ، شہد کی مکھیوں وغیرہ پر غور و فکر یعنی ریسرچ کرے گا تو وہ خدا کی ذات کا عرفان حاصل کرے گا اور اور اپنی اور اپنے سماج کی زندگی میں مزید بہتری لائے گا۔ بظاہر معمولی نظرآنے والی چیزوں میں خدا کی شان اور عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بظاہر معمولی نظرآنے والی چیزوں کی قسم کھاتا ہے ۔جیسے وہ قسم۔کھاتا ہے انجیر کی ، زیتون کی ، کوہ طور کی ، چاند اور سورج کی وغیرہ۔

۔"سو قسم کھاتاہوں شفق کی ، اور رات کی اور جو چیزیں اس میں سمٹ آتی ہیں۔اور چاند کی جب وہ پورا بھر جائے۔۔"(۔الانشقاق : 16 -18)۔

ان میں سے ہر چیز اور ہر قدرتی مظہر بظاہر معمولی اور عام ہے لیکن ہر ایک خدا کی قدرت اور کرشمہ سازی کا شاہ کار ہے۔ اس غیر ترقی یافتہ اور ابتدائی زرعی معاشرے میں خدا انسانوں کو اسی کے آس پاس موجود اشیاء اور مظاہر کی مدد سے ہی اس کی تعلیم وتربیت کرتا ہے۔ یہ اشیاء ہی انسانوں کے لئے تعلیمی اور تربیتی آلے تھے انہی کی مدد سے خدا انسانوں کو سائنسی تحقیق کے لئے تیار کرتا ہے اور اس کو سائنسی اشارے مہیا کرتا ہے جن کی بنیاد پر انسان مستقبل کے سائنسی کارناموں کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن انسانوں کے لئے مذہبی صحیفہ ہوتے ہوئے بھی انسانوں کے سائنسی شعور کی تربیت کرتا ہے۔

-----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/quran-scientific-consciousness/d/132218

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..