New Age Islam
Wed Mar 26 2025, 12:11 AM

Urdu Section ( 1 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why Quran Does Not Prescribe a Particular Form of Government قرآن میں کسی خاص طرزحکومت کا ذکر کیوں نہیں

نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر

1 اگست 2024

تقریباً ستر سال قبل برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ جمہوریت بدترین طرز حکومت ہے ۔اس دورمیں ان کے اس بیان کی تنقید کی گئی ہوگی اور جمہوریت نواز لوگوں نے انہیں آمرانہ ذہن کا انسان سمجھا ہوگا جو جمہوریت کو پسند نہیں کرتا لیکن جب آج ہم عالمی سطح پر سیاسی لیڈروں کے ذریعے جمہوری نظام کو آمریت اور ڈکٹیٹرشپ میں بدلتے دیکھتے ہیں تو چرچل کی اس رائے سے اتفاق کئے بنا نہیں رہ سکتے ۔ اکیسویں صدی میں دنیا کے کئی ممالک کے طاقتور لیڈران نے عوام کی مخالفت کے باوجود لمبے عرصے کے لئے بلکہ تاعمر اقتدار پر قائم رہنے کی کوشش کی ہے اور اس کے لئے انہوں نے ملک کے جمہوری اداروں کویرغمال بنا لیا اور قانون اور دستور میں تبدیلیاں لائیں۔ یہاں ان ڈکٹیٹروں کی بات نہیں ہورہی ہے جنہوں نے اعلانیہ طور پر جمہوریت کو درکنار کرکے اپنی آمریت قائم کی بلکہ ان سیاسی لیڈروں کی بات ہورہی ہے جو جمہوری نظام میں رہتے ہوئے مطلق العنان حکمرانوں کی طرح اقتدار پر قبضہ کرلیتے ہیں اور پھر عوامی مقبولیت کھودینے کے بعد بھی غیر جمہوری طریقے سے اقتدار پر قائم رہتے ہیں۔ تازہ مثال وینزویلا کی ہے جو تین کروڑ کی آبادی والا جنوب امریکی ملک ہے۔ یہاں 2013ء سے مدورو صدر ہیں۔ اتوار کوقومی الکشن میں وہاں کے الکشن بورڈ نے انہیں 51 فی صد ووٹوں کے ساتھ فاتح قرار دے دیا اور وہ تیسری بار ملک کے صدربن گئے جب کہ الکشن سے قبل تمام اکزٹ پول نے اپوزیشن لیڈر ایڈمنڈو گونزالیز کی فتح کی پیشینگوئی کی تھی۔ اپوزیشن اس غیر متوقع نتیجے سے حیران ہوگئی اور عوام اس رزلٹ کے خلاف سڑکوں پرآگئے اور,آزادی، آزادی کے نعرے لگانے لگے۔ وہ اس الکشن کے نتائج کو قبول نہیں کرتے ۔ ابھی تک الکشن بورڈ نےا لکشن کے تمام نتائج کو عام نہیں کیا۔ الکشن ووٹنگ مشینوں سے کرائے گئے اور ووٹنگ مشینوں میں بڑے پیمانے پر گڑبڑی کے الزام لگائے جارہے ییں۔ غیر ملکی مشاہدین نے بھی اس الکشن کو غیر شفاف اور غیر جمہوری بتایا ہے۔

الکشن رزلٹ کے بعد وینزویلا میں بڑے پیمانے پر احتجاج جاری ہیں اور اب تک پولیس کی کارروائی میں درجنوں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور 700 سے زائد افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ یہ سب مدورو کےتاعمر اقتدار پر قابض رہنے کے خبط کا نتیجہ ہے۔ مدورو سے قبل ان کے سیاسی پیرومرشدچاویز بھی چودہ سال اپنی موت تک اقتدار پر قابض رہے۔ اس دوران انہوں نے ملک کے دستور میں ترمیم کرکے تاعمر صدر رہنے کا راستہ صاف کردیا۔ اسی ترمیم کا فائدہ اٹھا کر مدورو نے بھی تیسری بار صدر بننے کا اپنا خواب پورا کرلیا۔

مدورو نے اقتدار پر قابض رہنے کے لئے ہر وہ ہتھکنڈہ اپنایا جو آج کل نام نہاد جمہوری ملکوں میں اپنایا جاتا ہے۔ انہوں نے الکشن سے پہلے کہا تھا کہ اگر وہ ہار گئے تو ملک میں خون کی ندیاں بہییں گی۔گویا انہوں نے یہ اشارہ کردیا تھا کہ وہ اقتدار میں رہنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔انہوں نے اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈلوایا۔ طاقتور امیدواروں کو الکشن لڑنے سے روکا۔ الکشن بورڈ اور حکومت کی چالوں کی وجہ سے اپوزیشن لیڈر مچادو الکشن نہیں لڑ پائیں۔ اس لئے انہوں نے گونزالیز کی حمایت کی۔ایکزٹ پول کے مطابق اپوزیشن کو 80 فی صد ووٹ ملے تھے لیکن الکشن بورڈ کے نتائج میں انہیں صرف 44 فی صد ووٹ ملے جو اپوزیشن اور عوام کے نزدیک بے ایمانی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ مدورو کے دس سالہ دور حکومت میں وینزویلا نے ترقی کی ہو ۔ گزشتہ دس سالوں میں غریبی اوربے روزگاری کی وجہ سے 70 لاکھ لوگ ملک سے ہجرت کر چکے ہیں۔ بدعنوانی عروج پر ہے, مہنگائی آسمان پر ہے اور جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ملک دیوالیہ ہونے کے کگار پر ہے۔ لہذا، عوام مدورو سے نجات چاہتے تھے ۔اس لئے انہوں نے اپوزیشن کے لیڈر ایڈمنڈو گونزالیز کو ووٹ دیا لیکن مدورو نے الکشن بورڈ کی مدد سے نتائج میں گڑبڑی کی اور اپنی جیت کا اعلان کردیا۔اس الکشن میں بھی ووٹنگ مشینوں کو نتائج کو توڑنے مروڑنے کے لئے استعمال کیاگیا۔

یہ کہانی صرف وینزویلا کی نہیں ہے۔پاکستان ، بنگلہ دیش اور روس میں بھی جمہوریت کی کم و بیش یہی حالت ہے۔ روس کے صدر نے بھی طویل مدت تک صدر بنے رہنے کو یقینی بنا لیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے جمہوریت کی کی پامالی ہورہی ہے۔ وہاں تو نہ کوئی عدلیہ رہ گئی ہے نہ ہی الکشن کمیشن۔ اپوزیشن عمران خان کو ایک سال سے جیل میں رکھا گیا ہے ۔ ان پر سو سے زیادہ کیس ہیں۔ ایک میں ضمانت ملتی ہے تو دوسری میں دھر لئے جاتے ہیں۔ سیاسی اور حقوق انسانی کارکن سال بھر سے جیلوں میں بند ہیں۔ ان میں خواتین بھی ہیں۔ الکشن میں ہارنے والی پارٹی نے حکومت بنا لی ہے اور ہارنے والی پارٹی کے ہارے ہوئے لیڈران وزیراعظم اور وزیراعلی بنے ہوئے ہیں اور جیتنے والی پارٹی کے سربراہ کو جیل میں ڈال کر اس پر عدت میں شادی کا مضحکہ خیز مقدمہ چلایا جارہاہے۔بنگلہ دیش میں بھی شیخ حسینہ نے طویل مدت سے اقتدار پر قبضہ کررکھا ہے۔ وہاں بھی اہوزیشن کے لیڈروں اور کیڈروں کو جیلوں میں ڈالنے کے بعد انتخابات کرائے گئے اوربغیر اپوزیشن کے شیخ حسینہ الکشن جیت گئیں۔

سیاسی لیڈران تاعمر اقتدار میں اس لئے رہنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے دور اقتدار میں اپوزیشن لیڈروں پر حد سے زیادہ ظلم وستم کرتے ہیں۔ انہیں جھوٹے مقدموں میں پھنسا کر برسوں جیلوں میں بند رکھتے ہیں۔اس لئے انہیں خوف ہوتا ہے کہ اگر اپوزیشن حکومت میں آگئی تو انہیں بھی دس بارہ برسوں تک جیل میں ڈالینگے اور ان کا جینا حرام کردینگے۔ اکثر اپوزیشن لیڈران کو قتل بھی کردیا جاتا ہے یا پھر ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ پاکستان اور کرغزستان ایسے ممالک ہیں جہاں الکشن ہارنے والے لیڈر کو ملک سے بھاگ جانا پڑتا ہے۔

جمہوری ممالک کے برعکس کئی ممالک جہاں جمہوریت نہیں بلکہ شخصی حکومت ہے وہ پرامن ہیں اور وہاں عوامی خلفشار نہیں ہے۔ حقوق انسانی کی پامالی اگر شخصی حکومتوں میں ہے تو جمہوری حکومتوں میں انسانی حقوق کی پامالی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اقلیتوں کے قتل عام، ان کی بستیوں کو اجتماعی طور پرجلا دینے اورخواتین کو ہجوم کے بیچ برہنہ گھمانے اور کھیت میں اجتماعی آبروریزی کرنے کے واقعات انہی جمہوری حکومتوں میں زیادہ ہوتے ہیں۔

اب تک یہ خیال تھا کہ جمہوریت دوسرے تمام طرز حکومت سے کم بری ہے لیکن جس تیزی سے جمہوری نظام ناکام۔ہورہا ہے اس سے آنے والے وقتوں۔میں لوگ جمہوریت سے بیزار ہوکر کسی نئے طرز حکومت کی جستجو کریں گے۔ یو سکتا ہے کہ وہ شخصی حکومت یا بادشاہت کو کم۔نقصان دہ خیال کریں۔

قرآن نے اسی لئے کسی خاص طرز حکومت کی وکالت نہیں کی۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ خدا نے سلیمان علیہ السلام کوبادشاہت عطا کی اور داؤد علیہ السلام کو خلافت سے نوازا۔جبکہ دونوں ہی خدا کے محبوب بندے اور پیغمبر تھے۔ قرآن میں کسی خاص طرز حکومت کی وکالت نہیں کی کیونکہ حکومت حکمراں کے کردار اور سوچ پرمنحصر ہوتی ہے۔ حکمراں اگر خود,غرض ، ظالم و جابر ہو تو جمہوریت اور ابو بکر البغدادی کی خلافت دونوں تباہ کن ثابت ہوتی ہیں اور اگر بادشاہ حضرت سلیمان علیہ السلام جیسا ہو تو رعایا خوش حال اور ملک ترقی یافتہ اور پرامن ہوتا ہے۔ اس لے کوئی بھی طرز,حکومت بذات خود اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس طرز,حکومت کے تحت حکمرانی کرنے والے لوگکسی طرز,حکومت کو اچھا یا برا بناتے ہیں۔ جدید دور میں جمہوریت کو ہی ایک معیاری اور قابل قبول نظام حکومت سمجھ لیا گیا یے۔ لیکن اکیسویں صدی۔میں اس نظام کی خرابیاں زیادہ واضح ہورہی ہیں

جمہوری قدروں کے زوال اور سیاسی لیڈروں کے اقتدار میں لمبے عرصے تک برقرار رہنے کے خبط کی وجہ سے جمہوری ممالک میں عوام کی زندگی عذابوں میں گھر گئی ہے۔ برسراقتدار لیڈران نے ، بلیک میلنگ ، لالچ اور خوف کی مدد سے تمام جمہوری اداروں پر قبضہ کرلیا ہے اور عوام کو اس طرح اپنے چنگل میں لے لیا ہے کہ ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں رہ گئی ہے۔وہ اس گھٹن بھرے جمہوری نظام۔سے آزادی چاہتے ہیں۔ آنے والے برسوں میں جمہوری ممالک میں حالات اور ببھی ابتر ہونگے اور دنیا میں ناعاقبت اندیش ، بدعنوان اور بے ضمیر سیاسی لیڈران جمہوریت کونام کے لئے باقی رکھینگے اور جمہوریت کے پردے میں ڈکٹیٹرشپ قائم کریں گے۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں انتشار ، بدامنی اور خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوگی۔

--------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/quran-prescribe-particular-government/d/132842

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..