فرہاد صاحب ! میں دارالعلوم میں طالب علم ہوں ا س سے قبل بھی ایک خط آپ کولکھا تھا جو آپ نے رسالے میں دیا شکریہ ۔قدم قدم پر مشکلات سامنے آرہی ہے اس وقت تو میں حیران ہوں معاملہ زید بن حارث رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ انکا ربھی نہیں کرسکتے کہ قصہ قرآن کریم میں موجود ہے اور اگر اس کو تسلیم کریں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ کردار وہ تصویر جو قرآن کریم میں رب نے دی ہے وہ دھند لاجاتی ہے ۔ میں نے جب سورۃ احزاب آیت 37۔36 پڑھیں تو اپنے اساتذہ سے دریافت کیا تو انہوں نے بھی تصدیق کی کہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے آپ نےپڑھا اور جیسے قرآن میں درج ہے ۔ یہ قصہ تو کسی طور ہضم ہی نہیں ہورہا ہے۔
عظیم اللہ خان ۔ ملتان
عظیم اللہ بھائی قصہ بڑا آسان ہے اگر کوئی سمجھنا چاہے ۔ القرآن الکریم مع ترجمہ فتح الحمید از مولانا محمد خاں جالندھر ی ۔ موصوف آیت نمبر 36 کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ اور ان پر کیا منحصر ہے تقریباً ایک قرآن کریم کے حاشیے میں یہ کہانی درج ہوتی ہے ۔ جالندھر ی صاحب لکھتے ہیں۔
اس آیت میں میاں بیوی کا ذکر ہے وہ زید رضی اللہ عنہ اور زینب ہیں چنانچہ زید کا نام اگلی آیت میں صریحاً مذکور ہے ۔ دونوں آیات میں جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ وہ اس طرح ہے کہ زینب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپی کی بیٹی تھیں اور ظاہر ہے کہ ایک اعلیٰ خاندان کی لڑکی تھیں، زید بھی ایک شریف عرب تھے جو بچپن میں پکڑے گئے تھے اور جوانی کےقریب آکر مکہ میں فروخت ہوئے ۔ آنحضرت نےانہیں خرید لیا اور آزاد کرکے اپنے ہاں رکھا ، زید بجز ا س کے کہ ان پر آزاد غلام کو لفظ بولا جاتا ہو او رکوئی برائی نہ تھی ۔ او روہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں بہت عزت رکھتے تھے یہاں تک کہ آپ نے انہیں اپنا متبنےٰ کرلیا اس لئے کہ آپ جانتے تھے کہ غلام ہوکر اصلی شرافت میں فرق نہیں آسکتا ۔
ہزار بار جو یوسف بکے تو غلام نہیں ہوئے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ اس کا زینب رضی اللہ عنہ سے نکاح کردیا جائے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں ان کی وقعت زیادہ ہو نیز آپ کایہ بھی مقصد تھا کہ غلام آزاد مذہب اسلام میں حقیر نہ سمجھے جائیں ۔ اور ان کی عزت بھی احرار کی طرح کی جائے ۔ یعنی آزاد اور غلام میں عرب جو امتیاز کرتےہیں وہ مسلمانوں میں نہ ہو۔ چنانچہ انہی امور کو مد نظر رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہ کا عقد زید رضی اللہ عنہ سے کردیا ۔ زینب رضی اللہ عنہ عورت تھی اور خیالات قدیم ان کے دل میں جاگزیں تھے ۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے تئیں اپنے آپ کو زید سے افضل سمجھا اور ان کو کمتر خیال کیا یہ باتیں ایسی تھیں کہ میاں بیوی میں موافقت نہیں پیدا ہونے دیتی تھیں ۔ آخر زید اس بات پر مجبور ہوگئے کہ زینب رضی اللہ عنہ کو طلاق دے دیں یہ دیکھ کر آنحضرت کو بہت تر دوہوا ۔ آپ دل سے تو یہی چاہتے تھے کہ زینب رضی اللہ عنہ زید رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں رہے اور جس رشتے سے ایک بڑی اصلاح مقصود تھی وہ بدستور قائم رہے اسی واسطے آپ زید کو سمجھاتے رہے کہ میاں خدا کا خوف کرو اور رشتے کو قائم رکھو زینب کو طلاق دینے سے باز رہو ۔ لیکن آپ کو یہ بھی اندیشہ تھا کہ لوگ کہیں گے کہ کیسا بے جوڑ رشتہ تھا جو قائم نہ رہ سکا ۔ خدا نے فرمایا کہ اس معاملے میں لوگوں سے ڈرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اگر ان میں طلاق ہوئی تو اس معاملے میں بڑی مشکل پیش آئے گی ۔کہ زید کی زوجیت میں رہ چکنے کے بعد لوگ زینب کے اعزاز و احترام میں کمی کریں گے ۔ اور یہ بات آپ کو منظور نہ تھی اور ہوبھی نہیں سکتی تھی ۔ جب آپ زید کی توقیر کرتے او رلوگوں سے کرانا چاہتے تھے تو زینب کی تحقیر کیونکر گوارا کرسکتے تھے ۔ آخر الا مر زینب اور زید کاتعلق منقطع ہوکر رہا ۔ اس موقع پر خدا کو تین اور اصل اصلاحیں مد نظر ہوئیں ۔ ایک یہ کہ متبنےٰ پراسلام میں وہ حق نہ سمجھا جائے جو صلبی بیٹوں کا ہے ۔ اور وہ دونوں قسم کے تعلقات میں جو فرق ہے وہ ظاہر کردیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ منہ بولے لڑکوں کو صلبی بیٹوں کی عورتوں کی طرح حرام نہ سمجھا جائے ۔ چونکہ خدا کے حکم سے آنحضرت نے خود زینب سے نکاح کرلیا اور خدانے فرمایا ۔ متبنےٰ بنانا ایک رسم قدیم ہے۔
یہ تو تھی جالندھر ی صاحب کی کہانی ۔ جس میں بہت غلط بیانی ہے اللہ نے جو فرمایا ہے ۔ وہ اور اُس کا ترجمہ بھی ملاحظہ فرمائیے ۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ، وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا (33:37) ( 33:36)
کسی مومن مرد او رمومن عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اللہ اور رسول کسی معاملے کافیصلہ کردے تو پھر اس معاملے میں خود انہیں فیصلہ کرنے کا اختیار رہے ۔ اور جو کوئی اللہ اور رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریحاً گمراہی میں پڑ گیا ۔
اے نبی یاد کرو وہ موقعہ جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے او رتم نے احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑ او راللہ سے ڈرو۔ اس وقت تو تم اس سے ڈرو ۔ پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کرچکا تو ہم نے اس کا تم سےنکاح کردیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹو ں کی بیویوں کے معاملے میں تنگی نہ رہے ۔ وہ اس سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہئے تھا ۔
یہ ہے وہ ترجمہ جو ہر ایک قرآن کے حاشیہ میں آیت 37۔36 میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ درج ہوتا ہے ۔ جالندھر ی صاحب کا بیان اور آیات کا ترجمہ دونوں غلط ہیں پہلی بات جالندھر ی صاحب کی کہ ( اس آیت میں میاں بیوی کا ذکر ہے وہ زید رضی اللہ عنہ اور زینب ہیں چنانچہ زید کا نام اگلی آیت میں صریحاً مذکورہے) لیکن قرآن کریم میں تو زینب کا ذکر موجود نہیں ہے؟
دوسری بات زید کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں خریدا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فروغ دینے تشریف نہیں لائے تھے وہ تو يَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ( 7:157)ان کے گلوں سے غلامی کے وہ طوق اتارنے آئے تھے جس میں وہ جکڑے ہوئے تھے ۔ زید کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے خریدا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بعد وہ بھی ساتھ ہی آئے تھے ۔ تیسری غلط بات کہ آپ نے انہیں اپنا متبنےٰ کرلیا ۔ منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اللہ کے رسول سے قبل از نبوت بھی ایساکوئی کا م نہیں کیا جو منع تھا یا آگے جاکر منع ہونے والا تھا ۔حالانکہ آپ تجارتی قافلوں کے ساتھ جاتے تھے قافلے والے عبادت گاہوں میں حاضری دیتے تھے مگر آپ کبھی نہیں گئے ۔ آپ کیسے منہ بولابیٹا بناسکتے تھے جو من جانب اللہ درست نہیں تھا ۔
چوتھا اعتراض یہ کہ زینب آخر عورت تھی اور خیالات قدیم ان کے دل میں جاگزیں تھے ۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے تئیں اپنے آپ کو زید سے افضل سمجھا ۔ یہ بھی جالندھر ی صاحب کا خاندان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرالزام ہے ان کی تربیت دامن رسول میں ہوئی تھی وہ قرآن کے اس حکم کو جانتے تھے کہ ۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ( 49:13) اے لوگو! میں نے تمہیں (مردو او ر عورتوں ) سے پیدا کیا اور قبیلوں اور قوموں میں بانٹا صرف پہچان کے لئے ۔ ویسے عزت دار تو تم میں وہی جو متقی ہے ( Cautin,Carful,Weary) ہے ۔ اگر تقویٰ کے ترازو پر پورا نہیں اترتا تو پھر نوح علیہ السلام کی طرف وارننگ ملتی ہے ۔ نوح علیہ السلام بیٹے کے لئے شفارش کررہے تھے فرمایا رب نے ۔
قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ( 11:46) اے نوح وہ تیرے خاندان کا فرد نہیں ہے کیونکہ اس کے اعمال غیر صلاحیت بخش تھے ۔تو اس بات کو مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت سے تونا واقف ہے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اپنے آپ کو جاہلوں میں سے نہ بنا۔
تو دین میں سب مساوی ہیں اگر فوقیت حاصل ہے تو وہ صرف تقویٰ پر اگر خدانی و جاہت وجہ تفخر ہوتی تو ابو جہل بھی قابل احترام ہوتے کیونکہ وہ بھی خاندان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فر د تھے ۔ لہٰذا یہ بہتان ہے زینب پر کہ وہ اپنے آپ کو زید سے افضل سمجھتی تھی۔
اب پیش خدمت ہے قرآن کریم کے ترجمہ پر اعتراضات :۔
اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ اعداء دین اس واقعے میں کیا رنگ آمیزی کریں گے لہٰذا یہ دروازہ پہلے ہی بند کردیا یہ فرماکر کہ ۔ کہ کسی مومن مرد او رمومن عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اللہ اور رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار رہے ۔ اور جو کوئی اللہ اور رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریحاً گمراہی میں پڑ گیا ۔ ( 36۔33) اب اگر یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے ترجمہ ہے تو ظاہر ہے حضرت زینب رضی اللہ عنہ اور زید کی شادی کا فیصلہ رسول علیہ السلام نے کیا تھا جو ان میاں بیوی کو پسند نہیں تھا اور خود فیصلہ کیا علیحدہ ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بمطابق آیا ت سمجھا یا بھی کہ ( اَمْسِکْ عَلَیْکَ روْجَک ) مت چھوڑ پکڑے رکھ بیوی کو ۔ مگر زید نے طلاق دے دی ۔ اللہ کے رسول کے حکم کو پامال کیا۔ تو بقول ترجمان کے یہ دونوں ( صریحاً گمراہی میں پڑ گئے ) یہ دونوں تو وفات تک قابل احترام رہے ۔ او ران کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کیوں لکھا اور بولا جاتا ہے ؟
دوسرا عتراض :
اور اللہ سے ڈرو۔ اس وقت تووہ بات تم چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنے والا تھا ۔ تم لوگوں سے ڈررہے تھے حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔
یہاں اس آیت میں اللہ کے رسول پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ان کے دل میں کچھ تھا اور زبان سے کچھ او ربول رہے تھے ۔قرآن میں ایسے شخص کو کس نام سے مخاطب کیا گیا ہے اسے بچہ بچہ جانتا ہے ۔ نبی کی شان سے یہ دونوں باتیں بعید ہیں ماسوائے اللہ کے کسی سے ڈرنا اورنہ ہی نبی کے ظاہر باطن میں فرق ہوتاہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈرپوک کا لبادہ بھی اُڑھایا گیا ہے ۔ کہ تم ڈرتے تھے ۔ حالانکہ ڈرنے کا حق تو صرف اللہ سے ہے۔ مگر اللہ فرماتے ہیں ۔ لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ ( 27:10) میرے رسول ڈرا نہیں کرتے ۔
تیسرا اعتراض ترجمے پر یہ ہے کہ رب نے یہ سب اس لئے کیا ( تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولےبیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں تنگی نہ رہے)یہ تو ایسا معاملہ ہوا کہ کوئی دو ا ساز کسی کو زخم ا س لئے لگائے کہ اس نے آیوڈین ایجاد کرلی ہے اس کا تجربہ کرنا چاہتا ہے ۔ جتنے بھی ممنوعہ افعال ہیں جنہیں جائز بنانا مقصود تھا کیا اس کے لئے اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تختہ مشق بنایا ہے؟ ۔ بہت ساری ممنوعات ، مکر وہات حرام چیزیں اور بھی ہیں ان کے عملی مظاہرے ( Demonstration) کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں منتخب نہیں کیا، مثلاً دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھا ہو اور پھر حکم آیا ہو۔ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ( 4:23) اور دو بہنوں کو ایک ساتھ رکھ سکتے جو پہلے ایسا کرچکے ہیں اللہ غفور و رحیم ہے۔
یا طلاق کا کوئی معاملہ ان پر آزما یا گیا ۔ یا مختلف جرائم کے ارتکاب پر ان کی سزائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر آزمائی گئی ہوں ۔ میں نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل از رسالت اور بعد از رسالت ایسا کوئی کام کیا ہی نہیں جس پر بعد میں ان کو یا ان کی امت کو طعنے سننے پڑتے ۔
اور یہ بھی مد نظر رہے کہ اللہ کا فرمان ہے ۔النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ( 33:6) بلاشبہ نبی کی ذات تو اہل ایمان کے لئے اپنی ذات پر مقدم ہے اور ان کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں ۔ جو زید کی بیوی رہ چکی ہے اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نکاح کرلیا کیا وہ زید کی بھی ماں لگتی ہے؟ زید اسے ماں کہہ سکتا ہے ؟ ۔ اگر نہیں تو اللہ فرماتا کہ از دواج نبی مومنین کی مائیں ہیں صرف زید کی نہیں ہے۔
تمام داغ دُھل سکتے ہیں یہ نازیبا الزامات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوسکتے ہیں اگر آیت کا ترجمہ یا مفہوم کو درست سمجھا جائے ۔ صحیح قصہ یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمارہےہیں کہ جب تم اس شخص سےکہہ رہے تھے ( نام نہیں مذکور) جس پر اللہ نے اور تم نے یعنی ( اس شخص نے ) احسان کیا تھا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑ او راللہ سے ڈرو۔ یہ ایک شخص سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں جو اپنے منہ بولے بیٹے سے کہہ رہے ہیں کہ بیوی کو مت چھوڑ۔ اس وقت تو وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنے والا تھا ۔ یعنی وہ شخص دل سے تو چاہتا تھا کہ اس کا منہ بولا بیٹا طلاق دے دے مگر و ڈرتا تھا کہ لو گ کہیں گے اس نے اپنی بہو سے شادی کرلی تم لوگوں سےڈررہے تھے حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کرچکا تو ہم نے ( اللہ کے رسول نے ) اس کا تم سے نکاح کردیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں تنگی نہ رہے ۔ جب کہ وہ اس سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں ( طلاق دے چکے ہوں)اور اللہ کا حکم تو عمل میں آناہی چاہیے تھا ۔یعنی یہ اللہ کا حکم تھا کہ لے پالک صلبی بیٹا نہیں ہوتا اس کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے۔ عرب تو کہتے ہیں زید کا نام نقرہ میں ہے ۔ جیسے ہم کہتے ہیں زیدو بکر و عمر وغیرہ ۔ اگر تاریخ طبری میں یہ واقعہ پڑھوگے تو پیروں تلے سے زمین نکل جائے گی۔
وہ کہتےہیں وہ رضی اللہ عنہ نہا کر نکلی تھی بال کھلے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام سے زید کے گھر گئے تھے انہیں دیکھا تو نظر وں میں کھب گئی ۔ جب زید کو پتہ چلا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے کہا اگر آپ کو پسند ہے تو میں طلاق دے دیتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا مگر دل سے چاہتے تھے کہ زید طلاق دے دے ایسا ہی ہوا پھر اللہ نے ان کا نکاح پرھایا ۔ اللہ کسی کا نکاح نہیں پڑھاتا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا نکاح پڑھایا ۔
جون، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/question-regarding-hadhrat-zaid-(r.a.)/d/98253