اورنگزیب یوسف زئی
کائنات کی حقیقت صرف کوئی ایسی ہستی یا وجود ہی ہوسکتاہے جو خود آگاہ ہو او رایسے او صاف کامالک ہو جس نوعیت کے او صاف خود انسان کے اندر سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ بصورت دیگر، ہم نہ ہی انسان کے اندر موجود ارادے اورعزم کی خصوصیات کی وضاحت و تشریح کرسکتےہیں او رنہ ہی حیات کےباطن میں عمومی طور پر موجو د محبت اور کشش کے عناصر کی وضاحت کرسکتےہیں جو کائنات کے تمام تر تخلیق شدہ مراحل میں آشکار ہے۔
توانائی دراصل کیا چیز ہے۔
اسی بناء پر ہم یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ توانائی دراصل اس جذبہ کشش کی قوت ہے جو زندگی یا شعور کی اندرونی صفات میں سے ایک ہے۔ بالفا ظ دیگر، توانائی شعور سے آزاد کوئی وجود نہیں رکھتی ۔ جہاں کہیں بھی توانائی ہے وہاں شعور بھی موجود ہوتاہے۔ توانائی کی تمام اکائیاں شعور سے رکھنے والی ہیں اپنے اپنے تخلیق مرحلے یا سطح کی حدود میں مقید ہیں ۔ آفاقی مرحلے میں یہ اکائیاں مادی اجسام کی شکل میں زندہ تھیں ۔ حیاتیاتی مراحل میں زندگی کی یہ اکائیاں یا توانائی، نباتات اور حیوانات کے اجسام میں زندہ تھیں ۔ اور انسانی مرحلہ زندگی میں یہ اکائیاں انسانی شعور یا انسانی ذات کی شکل میں نمودار ہوئیں ۔ ہم توانائی کو شعور مطلق کی شعوری یا تخلیقی قوت کا نام بھی دے سکتےہیں ، جو ہر تخلیقی عمل میں اپنی مرضی و ارادہ ظاہر کرتاہے ۔ اس لئے ہر حرکت پذیری یا پیش قدمی دراصل ایک عمل کے قالب میں ڈھالی گئی سوچ، یا شعوری اقدام ہے۔
شعور مطلق اپنی ذات اور اوصاف میں یگانہ ہونے کی حیثیت میں اپنے حسن اور سحر کو ایک مثالی پیکر کو صورت میں تصور کرتا اور اسے حقیقت کا روپ دینے کی خواہش رکھتا ہے ۔ جب تک وہ اسے حقیقت کی شکل نہیں دے دیتا ، وہ مثالیہ جو خالق کےذہن میں پنپتا ہے ، وہ اس کے باطن سےاسے تخلیق کےلئے ابھارتا او رمائل کرتا رہتا ہے۔اس طرح تخلیق کی پشت پر جو حقیقی تقاضہ ہے وہ دراصل آئیڈیل ( ایک قابل ستائش تصوراتی پیکر) کےلیے شدید محبت او رکشش ہے جو اُبھرتی ہے تو حرکت کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ تقاضہ جو ‘‘فطرت’’ کے اندر زندہ ہے ، جب آئیڈیل کی کشش کے ذریعے توانائی پاتاہے تو مادے کی علامت میں حرکت کرنا شروع کردیتا ہے ۔ اس لئے توانائی کچھ او رنہیں بلکہ کشش پر مبنی ایک برقی کرنٹ ہے۔ اس کی ہر حرکت اپنے ساتھ خالق کےمثالی پیکر کے اوصاف لے کر پیدا ہوتی ہے ۔ تحریک ( motion) نہ تو اپنا خود مختار وجود رکھتا ہے او رنہ ہی یہ اپنی نوعیت میں خود کار ہے۔ یہ دراصل شعور کی کاروائی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے اوصاف و خصوصیات کو مشہور کرتاہے۔ اس پہلو سےدیکھا جائے تو ثابت ہوگا کہ تمام عملی کاروائیوں کا سر چشمہ در حقیقت شعور مطلق ہے۔
ہم تحرک ( motion) او رمادے ( matter) کو دیکھ سکتے ہیں لیکن توانائی کو نہیں ۔ کیونکہ توانائی غیر مادی ہے اور حسیات اس کو محسوس نہیں کرسکتیں ۔ ہم تحرک اور توانائی کی خصوصیات کو کائنات کے طبیعی اور حیاتیاتی ( biological) مراحل میں ان کے طریق کار کا مطالعہ کرکے سمجھ سکتے ہیں ۔ لیکن بد قسمتی سے توانائی اور تحرک کے جدید نظر یے مبہم اور گمراہ کن ہیں ۔ یہ قیاسات اور ابہام پرمبنی ہیں ۔ طبیعیات دان توانائی کی تعریف .... ‘‘ ایک ایسی چیز جو کام کرتی ہے’’ ،، کہہ کر کرتےہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک قطعی مبہم تعریف ہے جو ادراک حقیقت تک نہ پہنچ پانے پر اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے ۔ کیونکہ کام صرف اس کا م کو کہا جاسکتا ہے جو کسی پسند یدہ اور متعین شدہ مقصد کے حصول کے لیے کیا جائے ۔ بالفاظ دیگر ، کسی بھی حرکت کے پس منظر میں کوئی مقصد یا محرک ضرور ہونا چاہئے ۔
کائنات کی تخلیق کے مراحل۔
ہمارے نظریے کی سیر حاصل تعریف کرنے کےلئے ہمیں کائنات کی تخلیق کے مختلف مراحل کو، اور ہر مرحلے میں توانائی کی شکل اور اس کی حرکت پذیر کو متعلقہ مرحلے کی شعوری سطح کو مدّ نظر رکھتے ہوئے زیر تحقیق لانا ہوگا۔ اگر چہ کہ کائنات ایک واحد اکائی کی صورت میں زندہ ہے پھر بھی جب اس کے بہت سے طریق کار سنجیدگی کے ساتھ زیر غور لائے جاتے ہیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی مختلف ، خودکار، کردگاہوں کی شکل میں تخَلیق کیا گیا ہے وہ زندگی کی یا شعور ہی ہے ۔ یہ خود کا ر سسٹم یا مراحل ہیں : ۔ 1) فلکیاتی مرحلہ ۔2) زمینی مرحلہ ۔3) نباتاتی مرحلہ ۔4) حیوانی مرحلہ اور 5) آخر کار انسانی شعور ذات کا مرحلہ ،،،،، جو کہ کائنات کا اب تک معلوم سب سے اہم او ربلند ترین شعوری مرحلہ ہے ۔ چھٹا اور آئندہ مرحلہ کیونکہ خالص مادی، شعوری مرحلہ ہے او رموجودہ مرحلہ حیات سے بلند تر درجہ کا حامل ہے، او رحیات آخرت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ، اس لئے ہم اپنی موجودہ سطح پر رہتے ہوئے ، تخلیقی مراحل کےمکمل سیاق و سباق میں، اس مرحلے کے بارے میں صرف حتی المقدور تحقیق ہی کرسکتے ہیں ۔ اس کی مکمل آگہی اس مرحلہ میں رہتے ہوئے ممکن نہیں ۔
آئیے یہاں ہم سب سے قبل انسانی خود آگاہ یا شعور ذات کے مرحلے کو زیر بحث لاتےہیں جو کائنات کا سب سےاہم او ربلند ترین شعوری مرحلہ ہے۔ اس مقصد کےلئے ہم ان مادی اشکال یا اجسام پر سر سری نظر ڈالیں گے جو انسان نے دنیا میں ہر جگہ انسانی مرحلے پر اپنے نمودار ہونے کے بعد تعمیر کی ہیں ۔ ہم بڑی بڑی عمارتیں دیکھتے ہیں، سڑکوں کے جال، فیکٹریاں ، موٹر گاڑیاں ، فرنیچر ، کپڑے او رسازو سامان کی نا تمام اقسام دیکھتے ہیں ۔ یہ تمام اشیاء حرکت کے نتیجے میں بنائی گئی ہیں ۔ حرکت کا وسیلہ یعنی آلات ( tools) جو انسان نے استعمال کئے بہت سے ہیں او رمختلف نوعیت رکھتے ہیں ۔ ان آلات کو ہم تفہیم کی آسانی کےلیے تین گروپوں یا درجوں میں تقسیم کرسکتےہیں ۔ پہلی قسم میں طبعی طور پر ماقبل سے وضع شدہ وہ آلات ہیں جو انسانی جسم اپنے ساتھ لاتا ہے ، جیسے کہ ٹانگیں ، ہاتھ پیر وغیرہ ۔ دوسری قسم میں وہ آلات ہیں جو زندگی کے حیوانی مرحلے سے تعلق رکھتے ہیں جیسے کہ پالتو حیوانات ۔ تیسری قسم میں وہ آلات ہیں جو انسانی ذہانت نے مادے کی بے شمار زندہ اشکال سے تخلیق کیے ہیں جیسے کہ پودے، معدنیات اور عناصر بشمول پانی، گیس وغیرہ۔ ان آلات کے گروپ کو ہم میکینکل آلات کہہ سکتےہیں جیسے کہ ہتھوڑا ، درانتی ،کرینیں ، موٹرگاڑیاں ، بُل ڈوزر رز، جنریٹرز اور مختلف قسم کی مشینیں ۔ یہ تمام آلات انسانی ذہانت یا انسان کی شعوری ذات استعمال او رکنٹرول کرتی ہے تاکہ متعین مقاصد حاصل کرسکے ۔
ایک چیز جو مشترک طور پر ان تمام آلات میں پائی جاتی ہے اور جس نے ان آلات و اوزار کے استعمال کو ممکن بنایا ہے وہ حرکت ( motion) ہے۔ حرکت خواہ میکا نیکی ہو یا طبیعی ، یہ سست ہو یا سریع، تمام اشکال جو انسان نے زمین پر وضع کی ہیں حرکت ہی کا نتیجہ ہیں۔ تاہم حرکت ان آلات کےبغیر نا ممکن ہے ۔ اور ان آلات کی حرکت، خواہ وہ ہاتھوں کی حرکت ہو یا مشینوں کی، اُس خاص مقصد کے بنا کوئی وجود نہیں رکھتی جو انسانی ذہن نےیا انسان کی شعوری ذات نے حاصل کرنے کی خواہش یا تقاضہ کیا ہو ۔
مشینوں کی تیاری میں بھی یہ انسانی شعور ہی جو مشینوں کی شکل میں عمل پذیر ہوتا ہے ۔حرکت کے وسیلے یا آلات کی حیثیت میں مشین اس انسانی شعور کی سوچ کے بغیر وجود میں ہی نہیں آسکتی تھی جس نے اسے تخلیق کیا ہے۔ اب ، جیسا کہ ہمارے سامنے عیاں ہے،بنیادی طور پر حرکت کی خصوصیت وہی ہے، لیکن حرکت کا ذریعہ یعنی آلات ، بہت سی شکلیں رکھتے ہیں۔ ان آلات میں سے ہر ایک کی حرکت کے اندر انسانی شعوری ذات کا مقصد کار فرما ہوتا ہے جو اپنا عمل جاری رکھتا ہے ۔ بالفاظ دیگر، یہ آلات انسانی ہاتھ اور پیر کے اضافی اعضاء ہیں جن کے ذریعے انسانی ذہن اور شعور مخصوص مقاصد کے حصول کےلئے عمل پیرا ہے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے پین یا پنسل جیسے آلات ،ہاتھ جیسے آلات کی حرکت کا اتباع یا پیروی کرتے ہیں، او ریہ دونوں نوعیت کے آلات انسانی شعور کے ذریعے کنٹرول اور استعمال ہوتےہیں جو انہیں متعین مقاصد کے لئے استعمال کرتاہے ۔ اسی طرح آلات کی تمام دوسری اشکال بھی دراصل انسانی جسم کے ہاتھوں کے اضافی اعضاء ہیں جن کے ذریعے انسانی شعور اپنا کام کرتاہے ۔ اگر ہم انسانی عقل یا شعوری ذات کو اس سے الگ کردیں، تو ہم دیکھیں گے کہ دنیا میں موجود تمام انسانی بنائی اشکال بھی غائب ہوجائیں گی ۔ او ران کے ساتھ ہی وہ آلات بھی جو انسانی ذات نے تخلیق کئے ہیں ۔
پس ثابت ہوا کہ یہ دراصل انسانی شعور ہی ہے جو حرکت کو پیداکرتا ہے او رلہٰذا ان آلات کو انسانی شعور ہی توانائی فراہم کرتا ہے جب او رجہاں تک یہ زندہ او رباشعور ہیں ۔بصورت دیگر آلات اور توانائی کی یہ شکلیں اپنا وجود ہی قائم نہیں رکھ سکتیں ۔
توانائی اور حرکت کے بارے میں ابہام اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سائنس دان اور ماہر طبیعیات اشیاء کو جزوی طور پر علیحدہ علیحدہ دیکھنے کے عادی ہیں، یعنی مجموعی مقصد پر غور کیے بغیر۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم کائنات کو ایک سالمہ کی حیثیت سےلیتےہوئے حرکت کی اصل کو ان آلات کے تناظر میں ، جن کے ذریعے یہ کام کرتی ہے ، بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں ۔ جیسے کہ اوپر وضاحت کی گئی، حرکت یا اس ضمن میں اس کا کوئی بھی آلہ کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک کہ ایک خاص طریق کار کی پیروی نہ کرتا ہو جو اس عظیم تر مقصد یا شعور نے متعین کیا ہو جو کائنات کو تدریجی مراحل میں تخلیق کررہا ہے۔ کائنات کے ہر تخلیقی مرحلہ میں آلات حرکت کی ایسی لاتعداد اشکال ہوسکتی ہیں جنہیں مجموعی مقصد نے زندگی دی یا توانائی بخشی ہو ۔ اور اسی طرح حرکت کے بھی ایسے لاتعداد انداز ہوسکتے ہیں جوہر مرحلہ تخلیق پر حاصل کی گئی شعور ی اقدار کی استعداد یا سطح کے مطابق ہوں ۔ یالفاظ دیگر ان آلات کی تمام انواع کے باوجود کائنات میں سرایت کی ہوئی بنیادی توانائی صرف ایک ہی ہے اور وہ توانائی میکینکل نہیں ، جیسے کہ فزکس کے ماہرین عموماً دعویٰ کرتےہیں ۔ یہ ایک زندہ او رباشعور توانائی ہے جو اپنی ذات سےآگاہ بھی ہے او راپنے مقصد سےبھی ۔
مثال کے طورپر آئیے ہم کائنات کے پہلے تنظیمی مرحلے کو سامنے رکھتے ہیں ۔ یہاں آلہ حرکت ‘‘فوٹون’’ کا ذرہ ہے اور اس کی حرکت روشنی کی رفتار ہے۔ فوٹون کو شعور مطلق نےاپنے آئیڈیل کے ظہور و نمود کے لئے تخلیق فرمایا ۔ فوٹون جب تک شعور مطلق یا خالق کے ارادے کی تکمیل کرتاہے، یہ زندہ ہے۔ مادے کی تمام مختلف النوع اشکال اور ان کے درجات نے ، جوکاسمک ( cosmic)مرحلے میں تخلیق کئے گئے اورجنہیں فزکس دان توانائی کی مختلف صورتوں کا نام دیتےہیں ، اس حرکت کا اتباع کیا جس کا تقرر خالق نے کاسمک مرحلے کے متعین مقصد کے حصول کےلئے کیا تھا ۔ لہٰذا حرکت اور اس کے آلات جیسے کہ ذیلی ایٹمی ذرات، ایٹم، وغیرہ جن کے ذریعے حرکت نے خود کو جزوی طور پر ذرات کے ٹکراؤ کے ذریعے اور جزوی طور پر ذرات کے مابین واقع تعلق او رکیفیات او رباہمی کشش کے ذریعے، جاری رکھا ان کا تعین زندگی کے کاسمک پلان کی مجموعی شعور یا اقدار نے کیا تھا ۔ جب تک کاسمک مرحلہ اپنی تکمیل کے نکتے پر پہنچا تو حرکت کے تمام انداز او راس کے آلات یعنی ذرات، مختلف عناصر کے ایٹم، اور ان کے عظیم کائناتی اجسام کی شکل میں ،منظّم و مربوط ڈھانچے بن کر، مستقل طور پر اپنی ہیئت پر قائم ہوگئے ۔ کاسمک مرحلے کا تمام تر مقصد عناصر کو مختلف عناصر کی مختلف اشکال کی تخلیق تھا ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہر عنصر کاسمک مرحلے میں خالق کے تخلیقی عمل یا طریق کار سے تشکیل پایا گیا ایک فن پارہ تھا ۔ یہ عناصر دراصل کاسمک مرحلے کا نچوڑ یا ماحصل ہیں جو حرکت کی ان تمام خصوصیات کے حامل ہیں ایک عظیم منصوبے نے متعین کی تھیں ۔ (جاری ہے)
جون، 2016 بشکریہ : صوت الحق، کراچی
URL: