اورنگزیب یوسف زئی
انسان نے کبھی اتنا عذاب نہیں جھیلا ہوگا جیسا وہ ایسے جعلسازوں کےہاتھوں جھیل رہاہے جو یہ دھوکا دیتے ہیں کہ وہ زندگی کامقصد یا ماخذ متعین کرسکتے ہیں ۔ تاہم انسان اپنے موروثی تقاضے کے خلاف نہیں جاسکتا ۔ اسے الہامی راہنمائی کی طرف پلٹنا ہی ہے جو کہ انسان کے لیے صحیح آئیڈیل فراہم کرتی ہے تاکہ انسانی ذات کو روحانی تسکین اور خوشیوں کی معراج تک پہنچادے۔
تمام خود ساختہ نظریات مادے کو ایک خود مختار وجود کا درجہ دیتے ہیں ۔ مادہ ایک خود مختار وجود کی حیثیت میں موجود نہیں ہے۔ وہ زندگی کے بالکل ابتدائی مرحلے کی شکل میں موجود ہے جیسے کہ وہ دیگر تخلیق شدہ مراحل زندگی، مثلاً نباتاتی اور حیوانی مراحل ۔ زندگی بہت سے تخلیقی مراحل سے گذر چکنے کے بعد موجودہ انسانی مرحلہ میں نمودار ہوئی ، جہاں وہ خود آگہی یا شعور ذات سے ہمکنار ہوگئی ۔ اس کا مطلب سیدھا سیدھا یہی ہے کہ اس مرحلہ پر زندگی نے اپنے باطن میں اپنے خالق کا عکس دیکھنا شروع کردیا ۔ یہ صرف خود آگہی با شعور ذات ہی کی وجہ سے ہے کہ انسان خود کو مادی مراحل زندگی سے آزاد کرنے کے قابل ہوا ہے۔انسانی مرحلہ سےقبل زندگی ایک مادی حالت میں متحرک تھی اور اس حالت میں اسے خالق کی راست آگہی نہیں تھی ۔ ان مراحل میں زندگی قیاس ، اندازے ( inference) اور علامتوں (Symbols) کے ذریعے پیش قدمی کرتی رہی ۔ آسان الفاظ میں، مادی حالت حیات، حیوانی مرحلے تک ، یوں سمجھی جاسکتی ہے جیسے کہ مختلف ادوار میں اس کی پال پوس اور پرورش تک جنین کی شکل میں رحم مادر میں کی جارہی ہو۔ اس قسم کی حالتوں میں زندگی علامتی تفریق ( symbolic differentiation) کے ذریعے قائم رہتی اور ترقی کرتی ہے او رکبھی اپنی ماں کے وجود اور خارجی دنیا سے آگاہ نہیں ہو پاتی ۔
اسی کے مانند ،حیوانی مرحلے کی تکمیل کے بعد، انسان کی اس کے خواہ آگاہ مرحلے پر نمود ، اس کے خالق کی روحانی دنیا میں اس کی پیدائش کے مماثل تھی جہاں وہ اپنے خالق کی براہِ راست پہچان کی تلاش میں منہمک رہا ہے ۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے ایک نومولود اپنی پیدائش کے فوراً بعد اپنی ماں کی تلاش اور پہچان کرنے کی سعی کرتا ہے۔
ان حقائق کے ادراک کے بعد ہم کیسے یہ تصور کرسکتے ہیں کہ اتنے طویل سفر اور گوناگوں کیفیات و مراحل سے گذر کر حیات جس ترقی یافتہ مرحلے میں داخل ہوئی ہے ، وہ صرف اس لیے کہ فنا کے گھاٹ اتر جائے ۔ کسی عطائی سے مستعار لیا ہوا فلسفہ اس فنا کا جواز پیش نہیں کرسکتا ۔ اصل حیات شعور ہے اور شعور ایک غیر مادی حقیقت رکھتا ہے ، خواہ وہ شعور مطلق ہو یا انسانی زندگی ۔ انسانی زندگی کو مادے سے نجات پاکر خالص شعور کے مرحلے میں داخل ہونا ہے جہاں ارتقاء کے لامحدود امکانات اس کے منتظر ہیں ۔ یہی وہ آخری مرحلہ ہے جہاں زندگی کی حقیقت اور مقصد بارز ہوکر سامنے آنا ہے۔
جدید تصور حیات جو دہریت ( atheism) اور تشکیک ( agnosticism) پر مبنی ہے،انسانیت کو ابتری اور مایوسی کی دہلیز پر لے آیا ہے۔ خود ساختہ نظریات او ربہت سی سائنسز نےجو انسان نے دریافت کیں اور ترقی دی ہیں، انسانیت کو مزید تقسیم کر دیا ہے۔ یہ سوچ کہ مادہ یا توانائی نہ ہی تخلیق کردہ ہیں او رنہ ہی تباہ ہوتےہیں، سائنسدانوں کا پیش کردہ سب سے زیادہ گمراہ کن نظریہ ہے۔ یہ نظریہ جو کہ آج علمی سطح پر تسلیم کردہ ہے، کائنات کے تخلیقی طریق کار سے نا بلد ہونے کے باعث گھڑا گیا ہے ۔ اگر ہم یہ نظریہ قبول کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ خدا کی ہستی نہیں جو دائمی حیثیت کی مالک ہے ، بلکہ یہ مادہ یا توانائی ہے جو دائمی وجود رکھتی ہے اور حقیقت مطلق ہے۔ یہ بے شک ان لوگوں کےلیے ایک بڑا چیلنج ہے جو نسل انسانی کی روحانی اقدار پر یقین رکھتے ہیں ۔ اُن لوگوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس تھیوری کو دھوکا بازی اور مبنی بر جہالت ثابت کریں۔
ایک دیگر خطرناک ترین تھیوری جس نےانسانی سوچ کو مقید کردیا ہے وہ اتقاء ( evolution) کی تھیوری ہے۔ یہاں بھی اگر ہم اسے حقیقت کے طور پر قبول کرلیں تو ہم دراصل خدا کے وجود کی نفی کررہے ہوں گے۔ جدید انسان کی تیار کردہ یہ تھیوری بھی آج عالمی طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔ بالفاظِ دگر، فزکس کے ماہرین اور ارتقائی دانش ور یہ چاہتےہیں کہ ہم یقین کرلیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں جو لافانی ہے اور کائنات کی خالق ، بلکہ یہ مادہ یا توانائی ہے جو کہ حقیقت ہے او رکائنات کو ارتقاء دے رہی ہے۔
اس جائز ے کےآخر میں علامہ اقبال کے ‘‘اسلام میں مذہبی فکر کی تعمیر نو’’ کے عنوان سے دئے گئے لیکچروں سےایک اقتباس پیش کرنا غیر متعلق نہ ہوگا:۔
‘‘کلاسیکل فزکس نے خود اپنی بنیادوں پر نکتہ چینی کرنا سیکھ لیا ہے ۔ اس نکتہ چینی کے نتیجے میں وہ خاص نوعیت رکھنے والی مادیت پرستی جو اس نےاصلاً ضروری سمجھی تھی ، تیزی سےغائب ہورہی ہے۔ او روہ دن دور نہیں جب مذہب اور سائنس آج تک شک وشبہ سے بالا، ہم آہنگی کےمیدان دریافت کرلیں ۔ تاہم یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ فلسفیانہ سوچ میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے حتمی یا آخری کہا جائے۔ جوں جو ں علم بڑھتا جاتا ہے اور سوچ کے تازے در وا ہوتے جاتےہیں ، دوسرے تصورات ، ممکنہ طور پربہتر تصورات ، بمقابلہ ان کے جو ان لیکچرز میں سامنے لائے جارہے ہیں ، سامنے آنے ممکن ہیں ۔ ہمارا فرض ہے کہ انسانی سوچ کی ترقی کو محتاط نظر سے دیکھتے رہیں او راس کی طرف ایک بے لاگ ،خود مختار تنقید رویہ قائم رکھیں ۔
انسانیت کو صرف تین چیزوں کی ضرورت ہے ۔ کائنات کی ایک روحانی تشریح و توضیح ، فر د کی روحانی آزادی او رکائناتی اہمیت رکھنے والے وہ بنیادی اصول جو انسانی معاشرے کی روحانی بنیاد پر ارتقاء کی طرف راہنمائی کریں۔’’
کائنات اور شعور (خالق)
خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات خودی کیا ہے ، بیداری ءِ کائنات
ازل اس کےپیچھے، ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے ،نہ حد سامنے
آئیے اب چند سطور میں یہ ثابت کر دیا جائے کہ مادے (matter) ،، نیچرل سلیکشن (natural selection) ،، اور خود کار ارتقاء (automatic evolution) کے نظریات کیسے باطل ٹھہرتے ہیں ۔ اور ایک خالق کا وجود ثابت ہوجانے پر ‘‘حیات آخرت’’ کا نظریہ کیسے از خود و ثاقت حاصل کر لیتا ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل ، سائنس کے حوالے سے ایک خالق کے وجود کا انکار کرنے والوں کی خدمت میں چند عظیم اور متفقہ طور پر مستند مانے جانے والے سائنسدانوں کےاقوال :
آئن سٹائن : سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی ہے، اور مذہب سائنس کے بغیر اندھا ۔
نیوٹن : وہ خدا لافانی، قادرِ مطلق ، ہمہ مقتدر اور علیم و خبیر ہے ، یعنی وہ ازل سےابد تک رہے گا۔
لوئی پاسچر: میرا علم جتنا ہے، میرا ایمان اتناہی زیادہ پختہ ہو جاتا ہے ۔ سائنسی تعلیم کی کمی انسان کو خدا سے دور لے جاتی ہے جب کہ اس میں وسعت اور گہرائی اس کے قریب تر پہنچا دیتی ہے۔
لارڈ کیلون: اگر تمہاری سوچ میں قوت ہے تو سائنس تمہیں خدا پر ایمان لانے پر مجبور کر دے گی ۔(عمر بھر کی سائنسی تحقیقات کے بعد اخذ شدہ نتیجہ)
طبعی قوانین کی کائناتی ہمہ گیریت جس کی بنیاد ایک مربوط او رمتحد نظام پر رکھی ہوئی ہے، تخلیق کائنات کے پسِ پردہ ایک مثبت مقصدیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس لئے جہاں بھی قوانین بانظام ہوگا، وہاں ان کی پُشت پر کوئی مقصد ضرور پایا جائے گا۔ اب آئیے مقصد کی طرف ۔ تو مقصد کوایک باشعور دات یا باشعور وجود سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی مقصد پایا جائے گا ، اس کے پیچھے ہمیشہ ایک باشعور ذات ہوگی جس نے وہ مقصد سوچا اور متعین کیا ہوگا ۔ یہ حقیقت کہ کائنات قوانین پر چلتی ہے اس لئے ایک مقصد بھی رکھتی ہے ، اس امر کو واضح کرتی ہے کہ کائنات کی حقیقت خواہ کچھ بھی ہو،یہ لازمی ہے کہ یہ ایک شعوری ذات یا شعوری وجود کے وصف کی مالک ہے۔ لہٰذا یہ مفروضہ یا دھوکا کہ کائنات کی حقیقت مادہ ہے، اب ختم ہوجانا چاہئے کیونکہ اگرمادے کو کائنات کی حقیقت گردانا جائے تو یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ مادہ نہ صرف خود کا شعور رکھتا ہے ، بلکہ خود کےمقصد او رنصب العین سےبھی آگاہ ہے۔ تاہم ایسا سوچنا حقیقت کےبرعکس ہوگا کیونکہ مادے کی ارتقا ئی کار گزاری یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ مسلسل کمتر شعوری سطحوں سے بر تر شعوری مراحل کی طرف اٹھتا ہے۔ اور یہ ہم جانتے ہیں کہ کسی جانب سے پیشگی منصوبہ بندی کیے بغیر ، مادہ خود بخود و بلند تر شعوری درجے کی طرف نہیں بڑھ سکتا ۔ اگر یہ بڑھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ کمتر سطح کے مرحلے پر رہتے ہوئے بلند تر اقدار کا شعور رکھتا ہے۔ جو کہ ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا کسی ایسے وجود کا ہونا ضروری ہے جو کہ نہ صرف شعور ذات رکھتا ہے بلکہ کائنات کی تخلیق کےمجموعی مقصد کا شعور بھی رکھتا ہے۔ اور زندگی کےاس طویل کا رواں کی قدم بہ قدم راہنمائی کرر ہا ہے ۔
صرف استدلال کی غرض سے اگر یہ سوچا جائے کہ، کیونکہ مادہ بھی شعور کی صفت سےمتصف ہے اور اس وجہ سے مادہ اور شعور دو متوازی حقیقتیں ہیں، تو پھر بھی ہمیں اس قیاس آرائی کو براہِ راست کالعدم قرار دینا ہوگا ، اس لئے کہ دو حقیقتیں پہلو بہ پہلو زندہ نہیں رہ سکتیں ، کیونکہ طبیعی قوانین کی آفاقیت (universality) جو ایک واحد مقصد کی سمت اشارہ کرتی ہے، کسی ثنویت یا اجتماعیت کو تسلیم یا قبول نہیں کرسکتی ۔
ان صاحبان کے موقف کے حق میں ، جو مادے کو کائنات کی اصل حقیقت مانتےہیں، ہمارے پاس ایک اور مفروضہ باقی بچتا ہے۔ وہ یہ کہ مادہ ایک بیج کی صفت رکھتا ہے جو خود کو ایک ارتقا ئی عمل کےتحت نشو و نما دیتا ہے۔ لیکن مادے کو ایک بیج کی حیثیت دینے میں ہمیں اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ کون ہے جو اس بیج کی نشو و نما کررہا ہے۔ یہ اس لئے کہ ایک بیج تو دراصل مٹی ، ہوا اور پانی کے ذریعہ نشو و نما پاتا ہے۔اور اسی کے مانند ایک جنین (foetus) بھی ہے جو آنول نال (umbilical cord) کے ذریعے سامان نشو و نما پاتا ہے ۔ لہٰذا، جب تک ‘‘مادے’’ کا بیج ‘‘ شعور مطلق’’ یا ایک ‘‘ذات کامل’’ کے توسط سے نشو ونما نہ پا رہا ہو، مادہ کبھی بھی خود کو اپنے تئیں ارتقاء دےکر کسی بھی متعین منزل مقصود کی طرف رواں دواں نہیں ہوسکتا ، جیسا کہ ہم اسے کرتے ہوئے پاتے ہیں ۔
یہ تھیوری بھی محل نظر ہے کہ زندگی نے اپنے تئیں ، خود کا رانداز میں ،طبعی انتخاب (natural selection) کے طریق کار کے ذریعے تشکیل پائی ہے۔ یہ نظریہ صرف اُس صورت میں میں با معنی کہلا سکتا تھا اگر طبعی انتخاب ایک شعوری عمل کی حیثیت رکھتا اور یہ انتخاب ایک مخصوص و متعین مقصد کے اتباع میں کیا جاتا۔ کسی مقصد کو پیش نظر رکھے بغیر طبعی انتخاب فقط ایک اندھا قدم اٹھانے کے مترادف ٹھہرتا ہے ۔ اور اس نوع کے اندھے اقدام کا انجام ماسوائے تباہی اور کچھ نہیں ہوسکتا ۔
یہ حقیقت کہ یہ کائنات کامیابی سے ابتدائی شعور مراحل سےگذرتے ،ترقی کرتے، بلند تر مراحل میں داخل ہوچکی ہے، اس امر کو ثابت کرتی ہے کہ یہ ایک متعین منزل کی سمت میں پیش قدمی کررہی ہے۔ پس ہم اس نیتجے پر پہنچتے ہیں کہ کائنات نہ صرف خود میں ایک وجود رکھتی ہے بلکہ ایک تخلیق ہے اور متعین اور یقینی اصولوں اور قوانین کے تحت تخلیقی عمل سے گزررہی ہے۔ نیز یہ کہ ان اصولوں اور قوانین کی پشت پر ایک ایسی ہستی موجود ہے جو اپنے مقصد سےبھی آگاہ ہے اور ایک طاقتور ، نادر الوجود اور قطعی منفرد حیثیت میں خود اپنے وجود سے بھی ۔ ایسا وجود جب تک خود آگاہ نہ ہو، او راپنی صفات وممکنات کامکمل ادراک نہ رکھتا ہو، تخلیق نہیں کر سکتا ۔ ہم ایسے وجود کو شعورِ مطلق یا ذات مطلق کہہ سکتے ہیں ۔ (جاری)
اپریل ، 2016 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
URL: