قیوم نظامی
25 مارچ 2013
ریزو لیوشن کمیٹی نے پانچ گھنٹے کے غور و خوض کے بعد 1946ءکی جس قرارداد پر اتفاق کیا اس کے متن کا خلاصہ یہ ہے:۔
”برصغیر کے مسلمان ایک ایسے عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں جو ہر شعبہ زندگی خصوصاََ تعلیمی ، سماجی، معاشی اور سیاسی شعبوں کا احاطہ کرتا ہے اور جو محض رُسومات، روحانیت اور رواجوں پر مبنی نہیں ہے اور ہندو دھرم فلسفہ کے بالکل متضاد ہے۔ ہندوﺅں کے ذات پات پر مبنی فلسفہ نے بھارت کے 6 کروڑ انسانوں کو اُچھوت بنا کر رکھ دیا ہے۔ مسلمان، عیسائی اور دوسری اقلیتیں سماجی اور معاشی طور پر انتہائی پس ماندہ ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہندو ذات پات کا نظام قومیت، مساوات، جمہوریت اور اسلام کے سنہری اُصولوں کے منافی ہے۔ مسلمان اکثریتی صوبوں میں بھی اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکیں گے کیونکہ مرکز میں ہندوﺅں کی بالادستی ہو گی۔ اس لیے مسلمانوں کا مطالبہ یہ ہے کہ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان زونز پر مشتمل پاکستان کی آزاد اور خودمختار ریاست بنائی جائے۔ ہندوستان اور پاکستان کی اقلیتوں کے حقوق کا 1940ءکی قرارداد لاہور کی روشنی میں تحفظ کیا جائے“۔
نواب زادہ لیاقت علی خان نے سہروردی کو قرارداد اجلاس میں پیش کرنے کے لیے کہا۔ سہروردی نے کہا کہ ”ہمیں ایسی سر زمین کی ضرورت ہے جہاں پر ہم امن سے رہ سکیں۔ پاکستان دبے ہوئے مفلوک الحال مسلمانوں کے لیے جنت ثابت ہو گا۔ بنگال کا ہر مسلمان پاکستان کے لیے اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہے“۔ چودھری خلیق الزمان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ” ہندو ازم اور اسلام میں اس قدر خلیج حائل ہے کہ دونوں کا یک قوم بن کر رہنا ممکن نہیں ہے“۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سر غلام حسین ہدایت اللہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ”انتخابات سے ظاہر ہو گیا ہے کہ نوے فیصد مسلمان مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور پاکستان حاصل کرنے کے لیے تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ ہم پاکستان سے کم کوئی چیز قبول نہیں کریں گے۔ سندھ کا ہر شہری ایسی سکیم کی ہر ممکن مزاحمت کرے گا جس میں پاکستان شامل نہ ہو“۔ نواب آف ممدوٹ نے کہا کہ”وہ پاکستان کی خاطر ہزاروں وزارتیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں“۔ مسٹر چندریگر نے کہا ”اگر چالیس لاکھ آئرش برطانیہ کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایسی پارلیمنٹ میں شامل نہیں ہوں گے جہاں پر وہ مستقل طور پر ایک اقلیت بن کر رہیں تو بھارت کے دس کروڑ مسلمان بھی علیحدہ وطن کا مطالبہ کر سکتے ہیں“۔ خان عبدالقیوم خان نے کہا کہ ” ہمارا پرچم ایک ہے، قائد ایک ہے اور منزل پاکستان ایک ہے۔ ہم حکم کا انتظار کر رہے ہیں اور مقصد کے حصول کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔ اگر برطانیہ نے اکھنڈ بھارت بنانے کی کوشش کی تو ہم تلواریں لے کر باہر نکل آئیں گے“۔ مدارس مسلم لیگ پارٹی کے راہنما مسٹر محمد اسماعیل نے کہا کہ ”وہ پاکستان کے لیے سب سے پہلے گولی کھائیں گے“۔ یو پی کی بیگم اعزاز رسول نے خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر خون کی قربانی دینی پڑی تو خواتین پیچھے نہیں رہیں گی“۔ فیروز خان نون نے کہا کہ ”ہندوﺅں اور انگریزوں کو اندازہ نہیں کہ مسلمان پاکستان کے حصول کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں“۔ بیگم شاہنواز نے کہا کہ ”مسلم خواتین ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اور بے چینی سے ثبوت دینے کے لیے انتظار کر رہی ہیں “۔ راجہ غضنفر علی خاں نے کہا کہ ”مسلم لیگ نے پاکستان کے نام پر انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی“۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ قرارداد کی منظوری کے بعد کنوینشن کے تمام شرکاءنے حلف اُٹھایا جس میں کہا گیا کہ ”ہمارا یہ پختہ عزم ہے کہ مسلمانوں کی سلامتی، تحفظ اور مقدر پاکستان سے وابستہ ہے۔ ہم پاکستان کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کا عہد کرتے ہیں“۔
قائد اعظم نے صدارتی خطبے میں فرمایا:۔ ”ہم کس لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ہم کیا چاہتے ہیں، ہم تھیو کریسی یا تھیو کرٹیک ریاست نہیں چاہتے۔ جب ہم مذہب کی بات کرتے ہیں تو ہمارے نزدیک دنیاوی چیزوں کی کچھ حیثیت نہیں ہوتی۔ مگر کچھ چیزیں ہیں جو بڑی اہم ہیں۔ ہماری سماجی اور معاشی زندگی اہم ہے۔ سیاسی طاقت کے بغیر ہم اپنے عقیدے اور معاشی حقوق کا دفاع نہیں کر سکتے۔ پاکستان ہی ہندوستان کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کر سکتا ہے۔ مسلمانو ں کے پاس دماغ، ذہانت اور اہلیت موجود ہے اور تمام ایسی خوبیاں موجود ہیں جو ایک قوم میں ہونی چاہئیں۔ ہمیں اپنے کردار سنوارنے کی ضرورت ہے۔ عزت، دیانت ، یقین اور قوم کے لیے قربانی ایسی خوبیاں ہیں جو مسلمانوں میں ہونی چاہیں۔ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک عورتیں مردوں کے ساتھ مل کر کام نہ کریں یہاں تک کہ جنگ بھی عورتوں کے تعاون کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی“۔
1946ءکی قرارداد کا متن اور اس کی تائید میں ہونے والی تقریریں کسی تبصرے کی محتاج نہیں ہیں۔ قرارداد واضح، شفاف، مکمل ، متفقہ اور حتمی ہے جس میں واضح طور ر ایک پاکستان کی بات کی گئی ہے۔ ان تحفظات اور خدشات کا برملا اظہار کیا گیا ہے۔ جن کا مسلمانوں کو متحدہ بھارت میں سامنا کرنا پڑتا نیز پاکستان کے نظریے کی کھل کر وضاحت کی گئی ہے۔ بھارت کے نوے فیصد مسلمانوں کے منتخب نمائندوں نے جن کا تعلق اقلیت اور اکثریتی صوبوں سے تھا اس تاریخی کنونشن میں ایک ریاست پاکستان کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کا عہد کیا۔قرارداد لاہور کی تکمیل قرارداد دہلی میں ہوئی۔ دونوں تاریخی قراردادوں کو ملا کر ہی ہم تحریک پاکستان کی روح کا احاطہ کرسکتے ہیں۔ 1940ءکی قرارداد میں طے پایا تھا کہ پاکستان میں شامل صوبے بااختیار اور خودمختار ہوں گے۔ قائداعظم نے سنگین حالات کے باوجود اس قرارداد پر عمل کیا اور صوبائی معاملات میں مداخلت نہ کی۔ ان کی رحلت کے بعد حکمران طبقوں نے زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے ”مضبوط مرکز“ کا نعرہ لگایا اور صوبوں کو صوبائی خودمختاری دینے سے انکار کیا۔ طویل عرصے اور خرابی¿ بسیار کے بعد اٹھارہویں آئینی ترمیم میں صوبائی خودمختاری میں قابل ذکر اضافہ کیا گیا ہے۔
قارئین ہم نے 1940ءکی قرارداد لاہور اور 1946ءکی قرارداد دہلی کا تفصیلی مطالعہ کرلیا۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ کیا ہمارا پاکستان ان قراردادوں کی روح کے مطابق چل رہا ہے۔ اگر ہم اس نتیجے پر پہنچیں کہ موجودہ پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام میں تحریک پاکستان کی روح ہی غائب ہے تو پھر ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان کا قبلہ درست کرنے کے لیے فعال اور متحرک کردار ادا کریں تاکہ ہمارے قومی مسائل حل ہوسکیں۔ کوئی ملک اپنے اساسی نظریات اور اصولوں سے ہٹ کر ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ میں ایک شعر اپنے پیارے پاکستان کی نذر کرتا ہوں....
ہم پر گزریں قیامتیں لیکن
تو سلامت رہے قیامت تک
25 مارچ 2013 بشکریہ: نوائے وقت ، پاکستان
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/from-lahore-resolution-delhi-resolution/d/11001