نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
26ستمبر،2024
قوالی برصغیر کا ایک مقبول عام گائیکی کا فن ہے جو اب زوال پذیر ہے۔قوالی کے فن کے مؤجد عظیم شاعر اور موسیقار امیر خسرو ہیں جنہوں نے یندوستانی اور عرب گائیکی کے امتزاج سے ایک نئے فن کی ایجاد کی۔قوالی لفظ قول سے مشتق ہے۔ قوالی میں صوفیانہ اور مذہبی شاعری پیش کی جاتی تھی اور ابتدا میں صوفیوں کی خانقاہوں میں قوالی پیش کی جاتی تھی۔ اس کی مقبولیت کی وجہ سے یہ فن عوا م میں کافی مقبول ہوا اور اس میں سماجی اور رومانی موضوعات بھی پیش کئے جانے لگے۔ آزادی سے قبل اور اس کے بعد قوالی کوبرصغیر میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی فلمی گیت بھی عوام میں کافی مقبول ہورہے تھے۔ 1950ء سے 1970ء کا دور ہندوستانی فلموں کا سنہرا دور تھا۔ اس دور میں نوشاد ، لکشمی کانت پیارےلال ، مدن موہن ، روی ، اوپی نیر ، خیام اور ایس ڈی برمن ، جیسے قدآور موسیقار اعلی معیار کی موسیقی ہیش کررہے تھے تو دوسری طرف محمد رفیع ، کشور کمار ، مکیش ، لتا منگیشکر ، آشا بھونسلے اور گیتا دت جیسے گلوکار ایک سے بڑھکر ایک گیت پیش کررہے تھے۔ اس کے باوجود قوالی کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ فلموں میں قوالی فلم کی کامیابی کی ضمانت تصور کی جاتی تھی۔ جانی بابو ، عزیز نازاں ، اسمعیل آزاد حبیب پینٹر ، شکیلہ بانو بھوپالی، صابری برادران ، عزیز میاں اور راحت فتح علی خان برصغیر میں قوالی کے روشن مینار ہیں۔ ان کی قوالیاں آج بھی مقبول ہیں اور زباں زد خاص و عام ہیں۔
برصغیر میں فن قوالی کو صوفیہ کے مزارات نے زندہ رکھا ہے۔مزارات میں عرس کے موقع پر قوالوں کی محفل جمتی ہے اور صوفیانہ قوالی سےزائرین محظوظ ہوتے ہیں۔ چونکہ قوالی کا فن مزاروں اور خانقاہوں سے نکل کر فلموں اور تہواروں اورثقافتی تقاریب میں بھی پیش کی جانے لگی اس لئے اس میں خمریات اور سماجی موضوعات بھی ہیش کئے جانے لگے۔ لہذا ، ایک جانب جہاں صابری برادرس کی نعتیہ قوالی بھردو جھولی بے حد مقبول ہوئی تو دوسری طرف عزیزنازاں کی قوالی جھوم برابرجھوم شرابی اور جانی بابو کی قوالی آثار قیامت بھی عوام میں کافی مقبول ہوئی۔
بہر حال ، 1980ء کے بعد سے قوالی کا فن زوال پذیر ہوتا گیا ۔ فلمی گیتوں کی مقبولیت اور جانی بابو ، اسمعیل آزاد ، عزیز نازاں اور شکیلہ بانو بھوپای کے بعد ان کے قد کے قوال پیدا نہیں ہوئے جو اس فن کو برقرار رکھ پاتے۔ ایسے شاعر بھی نہیں ابھرے جو قوالوں کو اچھا کلام دے سکتے ۔ نتیجتة قوالی میں گھٹیا اورفحش شاعری پیش کی جانے لگی جس نےنئی نسل میں قوالی کا ایک منفی تصور پیش کیا جو قوالی کےمزید زوال کا سبب بنا۔
آج قوالی ایک غیر مقبول فن کی حیثیت سے زندہ ہے جبکہ کبھی یہ فلمی گیتوں کو ٹکر دیتی تھی۔ آج جبکہ فلمی گیتوں کا معیار بالکل پست ہے اچھی قوالی کے لئے امکانات زیادہ روشن ہیں۔لیکن اس کے باوجود قوالی کا فن روبہ زوال ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں لوک فنون کے تحفظ کے لئے کوشاں ہیں اور لوک گلوکاروں کی پذیرائی کرتی ہیں لیکن قوالی کے تحفظ اور فروغ کے لئے کچھ نہیں کرتیں۔ضرورت ہے کہ ہندوستان میں قوالی کو لوک فن کے زمرےمیں لایا جائے اور اسے سرکاری سطح پر فروغ دینے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
---------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/qawwali-oblivion/d/133291
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism