New Age Islam
Fri Mar 24 2023, 07:42 PM

Urdu Section ( 24 Jan 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Prophet’s Legacy نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی اور اخلاقی اور تاریخی ورثہ

 

قاسم اے معینی

14 جنوری2014

تمام مکاتب و مسالک سے قطع نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات تمام مسلمانوں کے لیے نقطہ اتحاد و اتفاق ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والا قرآن تمام مسلمانوں کے لیے مرکز توجہ ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اسلام میں آئینی حیثیت یہ ہے کہ تمام مسلمان ان کی اتباع کرتے ہیں۔ در حقیقت قرآن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو اسوہ حسنہ (ایک شاندار مثال) قرار دیا گیا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے لیے ضروری ہے کہ مسلمان یہ جانیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے ابتدائی ادوار میں اور ہجرت کے بعد مدنی دور میں اپنے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے اس روئے زمین پر اپنی زندگی کے شب و روز کس طرح گزارے ہیں اور مسلمانوں کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی اور روحانی مسائل کا سامنا کس طرح کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اسلام میں مسلمانوں سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ہر ممکنہ حد تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں تاکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گزار سکیں۔

اور یہ سب کچھ کرنے کے لیے حدیث، سیرت اور تاریخ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہےاور ساتھ ہی ساتھ اس تعلق سے مشہور علماء کی باتوں اور ان کے خیالات کو بھی سنا جا سکتا ہے۔

دراصل اگر ہر قسم کی بد گمانیاں، فرقہ وارانہ اور اصولیاتی اور نظریاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ اس سے مسلمانوں کے اندر اتحاد و اتفاق کا جذبہ بیدار ہو جائے اور مسلمان خود اپنوں اور دوسروں کے ساتھ ایک پر امن ماحول میں زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔

اور اس کے بر خلاف،اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ نہ کیا جائے تو اس سے اسلامی ممالک میں صرف اختلافات کا ہی اضافہ ہوگا، جیسا کہ ایسی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ‘مستند’ سنت کا تعین صرف ان کے نظریات سے ہی ہوتا ہے۔

اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی، ان کی تعلیمات اور تبلیغ و ارشاد پر تحقیق کی جائے اور اس پر مباحثہ اور مکالمہ کیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں اسلامی نظریات کے مختلف پہلو ابھر کر سامنے آئیں۔ کوئی بھی شخص یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان شخصیت کا نہ تو مطالعہ کیا ہے اور نہ ہی اسے سمجھنے کی کوشش کی ہےیہی وجہ ہے کہ بھاری تعداد میں لوگ اس بات کے دعویدار ہیں کہ صحیح اسلام کیا ہے؟

نفرتوں سے بھرے ہوئے جنگجو یہ کہتے ہیں کہ ان کی تمام تر سرگرمیاں اسلام کے نام پر ہیں اور یہی دعویٰ منکسر المزاج اور امن پسند صوفی حضرات بھی کرتے ہیں، جب کہ بڑے بڑے اسلامی اسکالرز اور سرگرم عمل مشنریوں کا بھی یہ دعوی ہے کہ ان کی سرگرمیوں کا محرک  اسلام ہی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف مستند اور معتمد مصادر و مأخذ کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اسلامی اور غیر اسلامی کیا ہے۔

اب جب کہ مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے متعلق مختلف کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے سکونت سے متعلق زندہ تاریخی مقامات کو  مٹا دیا گیا ہے۔

سعودی حکام کی جانب سے دہائیوں تک جاری مکہ اور مدینہ کی تعمیر و ترقی کا نتیجہ در اصل یہ ظاہر ہوا کہ مسلمانوں کا رشتہ ان مقامات سے منقطع ہو گیا جن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے بہت گہرا رشتہ رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان اس قدر منتشر اور متذبذب ہیں۔ ہمیں ہماری تاریخ اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ سے الگ کر دیا گیا ہے۔

سعودی عرب کے ماہر فن تعمیرات اور حجاز کے اسلامی املاک اور ورثہ کی حفاظت کے لیے مہم چھیڑنے والے مشہور و معروف سمیع انغوی نے ایک تخمینہ یہ پیش کیا ہے کہ تقریبا آدھی صدی میں مکہ اور مدینہ کے تین سو سے زائد تاریخی مقامات کو مسمار کر دیا گیا ہے۔

اور اسی طرح سے دوسری بڑی شخصیات نے یہ اندازہ پیش کیا ہے کہ مکہ کی صدیوں پرانی عمارتوں میں سے تقریبا 95 فیصد کو تباہ و برباد کیا جا چکا ہے۔ آج اسلام کے مقدس ترین شہر کو یکسر تبدیل کیا جا چکا ہے سرمایہ دارانہ لالچ اور بنیاد پرست سرگرمی کے ایک شاندار امتزاج کا شکریہ۔

آج جو مسلمان وہاں کا سفر کرتے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے منسلک تاریخی باقیات کے بجائے چمک دھمک سے بھرے پرتعیش ہوٹلوں، شاپنگ مال اور فاسٹ فوڈ کی عمارتوں سے گھرے ہوتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تاریخ اسلام سے متعلق انمول اور بیش بہا خزانے ہمیشہ کے لیے برباد ہو چکے ہیں۔ جن میں مکہ میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا گھر، مدینہ میں جنگ خندق سے متعلق مختلف مساجد، جنت البقیع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت، صحابہ اور بعد کے تابعین  کے مزارات بھی شامل ہیں۔ یہ تو سعودیوں کی کارستانیوں کا صرف ایک مختصر سا خاکہ ہے۔

اسلام میں  ہر مکتبہ فکر کو اس بات کی تبلیغ کرنے کا حق ہے کہ ان کے معتقدات حقیقتاً اسلامی ہیں۔ لیکن اس روایت شکنی نے مسلمانوں کو ان کی ایک اہم تاریخی ربط سے جدا اور بیگانہ کر دیا ہے۔ خبروں کے مطابق اب سعودی حکام بیت المولد (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدا ئش) پر بھی نظر ٹکائے ہوئے ہیں۔

کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ آج جب کہ پوری دنیا میں مسلمان جشن عید میلاد النبی منانے میں لگے ہوئے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی جائے پیدائش پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں؟

امید کی جاتی ہے کہ لوگوں میں ایک اچھا شعور بیدار ہوگا اور مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی جائے گی۔ پہلے ہی بہت بربادی ہو چکی اور خود ہماری تاریخ کی تخریب کےنتائج خطرناک اور تباہ کن ہیں۔ آج کا منظر نامہ بالکل ایسا ہے کہ مسلمان ایک موجیں مارتے ہوئے سمندرکے پیچ میں کھڑے ہیں اور ان کے پاس ہدایت و رہنمائی کا کو ئی اٰلہ نہیں ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہیں ان کی تاریخ سے محروم اور منقطع کر دیا گیا ہے۔ اور یہ تمام پر آشوب کارستانیان یہ تو نوآبادیاتی ظالموں کی ہیں اور نہ ہی غیر مسلموں کی بلکہ ان کے ذمہ دار چند مسلمان ہی ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم تاریخی ورثہ  کا تعلق پوری دنیا کے اربوں لوگوں سے ہے۔ تو آئیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بچی ہوئی زندہ تاریخی وراثت کی حفاظت کے لیے جد و جہد کا آغاز کریں۔

(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)

قاسم اے معینی ایک اسٹاف ممبر ہیں۔

ماخذ: http://www.dawn.com/news/1080323/the-prophets-legacy

URL for English article:

https://newageislam.com/islamic-personalities/the-prophet’s-legacy/d/35282

URL for article:

https://newageislam.com/urdu-section/the-prophet’s-legacy-/d/35433

 

Loading..

Loading..