قانتا احمد
8 ستمبر، 2013
" مساجد ہماری کوٹھیاں ہیں، مینار ہمارے چہرے ہیں ۔ گنبد ہمارے مسند ہیں۔ مومن ہمارے فوجی ہیں۔ "
یہ اسلامی نظم تھی جسے دسمبر 1997 میں سیرت، ترکی، کے میئر نے کہا تھا ۔ جسے اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں برخاست کر دیا گیا تھا اور انقرہ ہائی کورٹ کے ذریعہ اسے جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔
آج وہ ترکی کے صدر ہیں۔ دفتر میں ایک دہائی کے دوران آہستہ آہستہ لیکن ستم ظریفی کے ساتھ انہوں نے نیٹو کے ایک رکن سیکولر ترکی کو ایک اسلامی مستقبل کی طرف ڈھکیل دیا ۔
ایک مسلمان کی حیثیت سے میں اسلام کو اسلام پسندوں پر چھوڑنے سے انکار کرتی ہوں ۔ اور نہ ہی ان لوگوں کو ایسا کرنا چاہئے جو ایک انتہائی تکثیریت پسند اسلام پر یقین رکھتے ہیں ۔ اسلام کے اندر اور دیگر مذاہب کے ساتھ ناگزیر مذہبی اختلافات کے پرامن حل کا واحد راستہ یہی ہے ۔
اس کے باوجود آج اسلام کے تکثیریت پر مبنی مظاہر کم ہو رہے ہیں ۔ اس سے پہلے ایسا وقت کبھی نہیں آیا جب اسلام کو داخلی طور پر اتنے خطرات لاحق ہوں ۔ اس لئے کہ آج اسے دوگنا خطرہ درپیش ہے اور وہ خطرات نظریاتی اور فرقہ وارانہ ہیں ۔
یہ بے نظیر تنازعات کے ایک دور کو جنم دے رہا ہے، جسے اسلام پسندوں کے ذریعہ اسلام کے نام پر بھڑکایا جا رہا ہے جنہوں نے ایمان کے حقیقی معنوں کو خراب کر دیا ہے ۔
شام میں علوی شیعہ کو سنی اور سلفی شدت پسندوں کے خلاف ایک ایسی جنگ پر ابھارا جا رہا ہے جس میں ایک لاکھ لوگ مارے گئے ۔ مصر میں اسلام پسند اقتدار سے ہٹا دئے گئے لیکن اب بھی قوی ہیں اور انہیں سیکولر اور مرکزی دھارے کے مسلمانوں اور " کافروں " کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے ۔ تنازعہ کے بعد کے عراق میں انتہائی منشر شیعہ اکثریتی حکومت نے سنی اقلیت پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے ہیں ۔
جوہری ہتھیاروں سے مسلح پاکستان میں سنی اسلامی پالیسیوں نے ایسے معاشرہ کی تخلیق کرتے ہوئے آئین کو آلودہ کر دیا ہے جو اقلیتوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتا ہے ۔ وہاں اور ہمسایہ ملک افغانستان میں جہادی پہلے سے کہیں زیادہ بچوں کو طالبان کی خدمت پر مامور کرتے ہیں ۔ شمال مغربی سرحدی علاقوں میں اور دوسری جگہوں پر پاکستانی طالبان جدرین کاری کے کارکنوں کو پھانسی دیتے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ: پولیو ایک بار پھر بچوں کو معذور کر رہا ہے۔
یہ کون لوگ ہیں ؟ تمام اسلام پسند مسلمان ہیں ، لیکن زیادہ تر مسلمان اسلام پسند نہیں ہیں۔
اسلام پسند اپنے جابر اور مطلق العنان نظریات کو ایمان کے پردہ میں چھپاتے ہوئے ایک سرکاری اسلام پیش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ وہ مغرب مخالف مورچہ بند طریقے سے جنگ بھڑکا رہے ہیں ۔ وہ الوہی حق کے ذریعہ عوامی مقامات کی ملکیت کا دعوی کرتے ہیں جس سے ہر کسی کا دم گھٹ رہا ہے ۔ آج ، مصر، عراق یا پاکستان میں وہ اپنے درمیان کچھ عیسائیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرے مسلمانوں کے برعکس، اسلام پسند عوام کے ساتھ سازباز کرنے ، اسلام سے نا واقفوں کا شکار کرنے اور مغرب مخالف، اینٹی سامی ، سیکولر مخالف جیسے زہریلے پروپیگنڈے پھیلانے میں ماہر ہیں جو غیر تعلیم یافتہ اور سادہ لوح لوگوں کو بھڑکانے کے لئے کافی ہیں۔
مغرب میں انہیں نادانستہ طور پر سیاسی بائیں بازو کے ذریعہ مدد کی جاتی ہے ۔ اسلام فوبیا کی درآمد سے خوفزدہ ہو کر یہ اسلام میں بنیاد پرستی کو بڑھاوا دینے والی قوتوں کے بارے میں گفتگو کو متاثر کرنےکی کوشش کرتے ہیں ۔
اس نے اسلام کے اندر فرقہ ورانہ افواج کے بارے میں علم کے ایک خلا میں امریکہ کی طرف سے شروع کی گئی جنگ میں ایک دہائی تک اہم کردار ادا کیا ہے۔
امکانات المناک نتائج کے ہیں۔ عرب بیداری ایک انتہائی اہم حمایت ہے اس لئے کہ اسلام پسندوں نے ایک مختصر جمہوری خلا پر قبصہ کر لیا ہے جسے ان اداروں سے پہلے ہی بنا دیا ہے جو تکثیریت اور اقلیتوں کے اور تحفظ کی ضمانت کے لئے بنایا جا سکتا تھا ۔ وہ اپنے علامات کو تبدیل نہیں کریں گے ، لہٰذا جب تک اسلام پسندوں کو ختم نہیں کیا جاتا جمہوریت ناکام ہی رہے گی ۔
اس رجحان کو ختم کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ اعتدال پسند مسلمانوں کو ایمانداری کے ساتھ دوبارہ بات چیت کا آغاز کرنا ہوگا : اسلام پسندصرف ایک علاقائی اور مہلک خطرہ نہیں ہے۔ یہ ایک آفاقی خطرہ ہے اور اسے برداشت کرنا نہیں بلکہ اس کا سامنا کرنا ضروری ہے۔ اسے مذہب کے اندر غیر مسلح کرنا ضروری ہے۔ اگر اسلام پسند مخالف مسلمان اس ضروری چیلنج کے لئے بیدار نہیں ہوتے ہیں تو نہ صرف اقلیتوں کو نیست و نابود ہونے کا خطرہ ہے بلکہ خود اسلام کے لئے بھی یہی خطرہ ہے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
قانتااحمد “In the Land of Invisible Women: A Female Doctor’s Journey in the Saudi Kingdom.” کی مصنفہ ہیں
ماخذ: http://webcache.googleusercontent.com/search?q=cache:http://www.montgomeryadvertiser.com/article/20130909/OPINION/309090003/Pluralistic-Islam-must-prevail
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-pluralism/pluralistic-islam-prevail/d/13465
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/pluralistic-islam-prevail-/d/13739