New Age Islam
Sun Apr 20 2025, 06:21 PM

Urdu Section ( 14 Apr 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Al-Qaida Leader Aiman Al-Zawahiri's Latest Mischief Over Hijab controversy: Why are Indian ulema silent? Muslims must promptly condemn ISIS and Al-Qaeda's interference in our internal matters حجاب تنازع پر القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی تازہ ترین شرارت: ہندوستانی علمائے کرام خاموش کیوں ہیں؟ ہم مسلمانوں کو اپنے داخلی معاملات میں داعش اور القاعدہ کی مداخلت کی بلاتاخیر مذمت کرنی چاہیے

ایمن الظواہری ہندوستانی معاشرے میں درار پیدا کرنا چاہتا ہے

اہم نکات:

1.     ہندوستانی مسلمانوں کو الظواہری کے بیان کی سختی کے ساتھ تردید کرنی چاہیے

2.     القاعدہ اور داعش مسلمانوں کے لیے آستین کے سانپ ہیں

3.     ہندوستانی علما کو الظواہری کے بیان کی مذمت کھل کر کرنی چاہیے

------

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

9 اپریل 2022

-----

Ayman al-Zawahiri, Video grab

-----

مسکان خان کی بہادری کی تعریف پر مشتمل القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کا تازہ ترین بیان، جس میں اس نے حجاب کے حوالے سے مسکان کو مجاہدہ (جہاد کرنے والی خاتون) کہا ہےاس ویڈیوکو  ہندوستانی مسلمانوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ اس کا یہ بیان مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں سرگرم عمل دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے مخصوص تھا۔

مسلمان لڑکیوں کا اپنے مذہبی حقوق یعنی لباس پہننے کے حق اور اپنے ضروری مذہبی معمولات پر عمل کرنے کے حق کے لیے لڑنا قانونی اور جمہوری تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں نے ہمیشہ قانونی دائرہ کار میں  ہی رہ کر پرامن اور جمہوری طریقے سے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے اور عدالتوں کے فیصلے کو باوقار طریقے سے قبول کیا ہے، خواہ  وہ بابری مسجد کا فیصلہ ہو، تین طلاق کا فیصلہ ہو خواہ حجاب کا تازہ ترین فیصلہ۔

مسلم لڑکیوں نے اس معاملے کو سپریم کورٹ لے جانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ حق انہیں آئین نے دیا ہے۔ کسی بھی موڑ پر، ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے تشدد یا عسکریت پسندی کا سہارا نہیں لیا ہے۔ ان کا ہندوستان کی جمہوریت اور عدلیہ پر مضبوط اعتماد ہے۔

لہٰذا، القاعدہ کے رہنما کا بیان ہندوستانی مسلمانوں ، متعلقہ لڑکیوں اور ان اہل خانہ کو بھی اچھا نہیں لگا۔ مسکان کے والد محمد حسین خان نے فوراً ہی الظواہری کے اس بیان کو ناپسندیدہ اور  غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور اسے ہندوستانی معاشرے میں درار ڈالنے  کی کوشش قرار دیا۔ انہیں ظواہری کا بیان ناگوار گزرا کیونکہ اس سے لڑکیوں کی اس قانونی اور جمہوری لڑائی کے پس پشت 'خفیہ عناصر' کے نظریے کی تصدیق ہو جائے گی۔ اس سے ان کی منصفانہ اور جمہوری جدوجہد کو نقصان پہونچے گا اور لڑکیاں بھی شک کے دائرے میں آ جائیں گی۔

اس سے قبل، طالبان بھی مسکان کی 'بہادری' کی تعریف کر چکا ہے حالانکہ انہوں نے کبھی لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور نہ ہی محرم کے بغیر خواتین کو اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت دی۔

ظواہری کے بیان سے خوش ہونے کے بجائے ہندوستانی مسلمانوں کو اسے خطرے کی گھنٹی سمجھنا  چاہیے کیونکہ یہ القاعدہ اور داعش کی پالیسی کا ایک حصہ ہے۔ وہ کسی بھی پرامن اور جمہوری تحریک میں دراندازی کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اپنی سازشوں سے اسے ایک پرتشدد بغاوت میں بدل دیتے ہیں جس سے اس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ  بغاوت خانہ جنگی میں بدل جاتی ہے، اصل فریقین برطرف کر دیے جاتے ہیں اور پھر دہشت گرد تنظیموں کا راج قائم ہو جاتا ہے۔ اور جب تک لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

ہمارے علمائے اب تک اس مسئلے پر چپی سادھے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے اس وقت بھی علمائے خاموش رہے جب کرناٹک میں حجاب تنازعہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے ان ہندوؤں کو ذبح کرنے کی دھمکی دی جو مسلم خواتین کی بے عزتی کرتے ہیں۔ دی پرنٹ کے مطابق، اس دہشت گرد تنظیم نے اپنے پروپیگنڈہ میگزین وائس آف ہند کے مارچ کے ایڈیشن میں کہا ہے، "ہماری بہنوں کی عزت پر آنکھ ڈالنے والے ہر بزدل ہندو کو بے رحمی سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا۔" میگزین نے دعویٰ کیا ہے کہ کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی بی جے پی کا کام ہے جس کا مقصد  "مسلم خواتین کو سرعام برہنہ کرنا اور ان کی تذلیل کرنا" ہے اور اس تنازعہ کو نوجوان مسلم خواتین کو بے اختیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس کے باوجود ہندوستانی علمائے خاموش رہے۔ حقائق سے چشم پوشی کرنا، دہشت گرد تنظیموں کے ایسے مہلک پیغامات کو نظر انداز کرنا، ہمارے داخلی مسائل میں ان کی مداخلت، ان تمام باتوں سے مسلمانوں کو کچھ بھی فائدہ نہیں ہونے والا۔ مسلمانوں کو اور بالخصوص ہمارے علمائے کو باہر نکلنا چاہیے اور انہیں یک زبان ہوکر ایسی مداخلت کی مذمت کرنی چاہیے۔ بدقسمتی سے ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ ہم نیو ایج اسلام میں امید کرتے ہیں کہ ایسی مشترکہ مذمت اب سامنے آئے گی کیوں کہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے پھر ایسی مداخلت کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے نوجوان بنیاد پرستی کا شکار بنیں  تو ہمیں بلاتاخیر اس کے خلاف قدم اٹھانا ضروری ہے۔ گورکھپور کا وہ واقعہ ہمارے لیے تنبیہ ہونی چاہیے جس میں ایک آئی آئی ٹی کے طالبعلم نے مندر کے دروازے پر پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا تھا۔ لیکن ہم اب بھی مسلم کمیونٹی کو ہوش کے ناخون لیتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کیونکہ اگر ہم نے بروقت احتیاطی تدابیر اختیار نہ کیں تو ہمیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔

عرب ممالک میں پھیلی ہوئی خانہ جنگی کی آگ ان کے طریقہ کار کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ عرب بہار کا آغاز تبدیلی کی ایک پرامن تحریک کے طور پر ہوا تھا لیکن القاعدہ اور داعش نے جلد ہی اس تحریک کو ہائی جیک کر کے اسے خانہ جنگی میں بدل  دیا۔ نتیجۃً خانہ جنگی سیاسی جنگ کا روپ اختیار کر گئی اور پورا خطہ تباہ و برباد ہو گیا۔ بہتر حکومت کے متلاشی اپنا ملک چھوڑ کر یورپ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ وہ وہاں کے پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یقیناً، وہ یہ دن دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن القاعدہ، داعش، النصرہ اور دیگر چھوٹی بڑی دہشت گرد تنظیموں نے انہیں اس حال میں مبتلا کر دیا۔

مشرق وسطیٰ میں پسپائی کا منہ دیکھنے کے بعد القاعدہ اور داعش برصغیر پاک و ہند میں قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے داخلی مسائل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ مسئلہ کشمیر سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے این آر سی مخالف تحریکوں میں بھی دراندازی کی کوششیں کیں لیکن ناکام رہے۔ الظواہری کا حجاب تحریک کی حمایت میں بیان ہندوستانی مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی ایک اور چال ہے۔

القاعدہ اور داعش ایسی دہشت گرد تنظیمیں ہیں جنہوں نے امریکہ اور نیٹو ممالک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے خوشحال مسلم ممالک پر حملہ کرنے اور انہیں تباہ و برباد کرنے کے لیے بنیاد فراہم کی ہے۔

الظواہری کے اس اقدام کی پوری شدومد کے ساتھ تردید کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے حجاب کی تحریک کمزور پڑ جائے گی اور اقلیتوں کے حقوق کا دفاع کرنے والی تمام غیر مسلم سیکولر تنظیمیں اور سیکولر افراد القاعدہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے نظر آئیں گے جوکہ انہیں کبھی گوارہ نہیں ہوگا لہٰذا اس سے بچنے کے لیے وہ اس تحریک کو اخلاقی طور پر حمایت پیش کرنے سے بھی کترائیں گے۔ یہی وہ صورت حال تھی جب طالبان نے مسکان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔

Muskan's Allah o Akbar moment

-----

القاعدہ اور داعش مسلمانوں کے لیے آستین کے سانپ  ہیں۔ مشرق وسطیٰ کو تباہ و برباد کرنے کے بعد انہوں نے فرانس اور دیگر مغربی ممالک میں پناہ گزیں تارکین وطن مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ انہوں نے فلپین، مالی اور افریقی ممالک کے مسلمانوں کے لیے بھی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں کو ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی بنا پر شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ مساجد اور مذہبی تنظیمیں حکومت کی نظروں میں ہیں۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ حجاب اور مسکان پر الظواہری کا حالیہ بیان نہ صرف اپنے مذہبی حقوق کے لیے لڑنے والوں کے لیے بلکہ پوری مسلم کمیونٹی کے لیے حالات خراب کر دیگا۔ اس لیے جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں، مسلم کمیونٹی کو اجتماعی طور پر الظواہری جیسے بھگوڑوں اور دہشت گردوں کے بیانات کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے، لیکن بدقسمتی سے اب تک ہندوستان کے کسی بھی بڑے عالم اور کسی بھی نمایاں مذہبی تنظیم نے اس کی مذمت نہیں کی ہے۔ شاید انہوں نے اسے نظر انداز کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ حکمت و دانشمندی  کے خلاف ہے کیونکہ ان کی خاموشی سے ان لوگوں  کو تقویت ملے گی جو حجاب کی تحریک کے پیچھے 'خفیہ تعاون' کی تھیوری پیش کر رہے ہیں۔

English Article: Al-Qaida Leader Aiman Al-Zawahiri's Latest Mischief Over Hijab controversy: Why are Indian ulema silent? Muslims must promptly condemn ISIS and Al-Qaeda's interference in our internal matters

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/qaida-zawahiri-hijab-muskan-ulema/d/126792

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..