خواجہ عبدالمنتقم
6 ستمبر،2023
تعلیم صرف پڑھنے پڑھانے او
رلکھنے لکھانے کا نام نہیں بلکہ اس میں حسن عمل، تہذیب، شائستگی، شرم وحیا، انکساری،
نرم خوئی اور معاشرے کے بنیادی آداب و اخلاق شامل ہیں۔ تعلیم کا مقصد انسانی شخصیت
کی مکمل نشوونما اور انسانوں کو اپنے حقوق اور فرائض سے باور کرانا ہے۔ ہر باسلیقہ
تعلیم یافتہ شخص کو، خواہ مرد ہو یا عورت، ہرجگہ عزت ملتی ہے۔ ترسیل علم کے معاملے
میں ہمارے اساتذہ کاکلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اسی لئے ہر سال کی طرح اس سال بھی کل ہی پورے
ملک میں اساتذہ کئے تئیں اظہار ممنونیت کے لئے یوم اساتذہ منایا گیا ہے۔
انگریز فلسفی ہر برٹ اسپینسر
نے بیسوی صدی کے اوائل میں کہا تھا کہ تعلیم کا اصل مقصد علم نہیں بلکہ عمل ہے۔ یہ
حقیقت بھی ہے کہ اچھا انسان اپنے عمل سے پہچانا جاتاہے نہ کہ محض تشہیر سے۔ اس سے بڑی
بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ فرمان ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نامکمل علم فساد
پیدا کرتاہے۔ وہ علم جو عمل سے بیگانہ ہوبے سود ہے۔ یہ علم کسی بھی نوعیت کا ہوسکتاہے۔
تعلیم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے او ر علم وہ ہے جو کچھ آپ سیکھتے ہیں۔علم حاصل کرنے
کے لیے جذبہ صادق کی ضرورت ہے۔امام غزالی نے کہا تھا کہ جب تک تم اپنا سب کچھ علم کو
نہ دے ڈالو، علم تمہیں اپنا کوئی حصہ نہیں دے گا۔ علم صرف ڈگریاں حاصل کرنے کا نام
نہیں۔یہ مانا کہ ڈگریوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اصل علم وہ ہے جو انسان
کو صحیح راہ دکھاتاہے او رمقصد تک پہنچاتاہے۔ اصل راہ کیاہے؟ اصل راہ ہے را ہ مستقیم
یعنی صحیح راستہ مگر افسوس بقول علامہ اقبال فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی۔
آئیے اس پس منظر میں کسی تعلیمی
ادارے میں پڑھانے والے استاذ یا استانی میں کیا خوبیاں ہونی چاہئیں ان کا جائزہ لیتے
ہیں چونکہ ایک لائق استاذ ہی نونہال ا ن قوم کا ضامن ہوتاہے اور وہ ان کا اخلاقی،تادیبی
و روحانی تربیت کار ہوتاہے۔مگر یاد رہے کہ ضامن کی نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی ذمہ داری
بھی ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو مکمل طور پر نبھائے۔یادرہے کہ معیاری استاتذہ کے
بغیر معیاری قوم کا تصور ممکن نہیں۔ کہا جاتاہے کہ ایک لائق استاذ ہی دماغ کی زنجیروں
کو توڑ سکتاہے مگر ایسا استاذ جس کی اپنی زنجیریں ٹوٹی ہوئی ہوں وہ ان زنجیروں کو کیسے
توڑ سکتا ہے ہمارے بیشتر اساتذہ جہا ں جہاں بھی ہیں اپنی ذمہ داری بخوبی نبھارہے ہیں۔معدودے
چند واقعات کی بنیاد پر کوئی قطعی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔کبھی کبھی ایک مچھلی بھی
پورے تالاب کوگندہ کردیتی ہے لیکن ’جمہوری تالاب‘ میں صرف قصوروار مچھلی ہی مستوجب
سزا ہوتی ہے۔ جہاں تک ہندوستان کی بات ہے ہم تو فلسفہ وسودھیولٹنمکبم یعنی پوری دنیا
ایک خاندان ہے میں یقین رکھتے ہیں اور سب کواپنا مانتے ہیں۔جب ہماری نظر میں محمود
وایاز، رام پرشاد، جوزف، کرتار سنکھ، مالیکر، بون می، نادرہ، سولی سوراب جی، بینجمن
یاہو، غرض یہ کہ ہر مذہب کے ماننے والے برابر ہیں او رہم سب، حسب صورت، بھائی بھائی
و بہن بہن ہیں تو انسان اور انسان میں فرق کیسا؟
اکثر یہ کہا جاتاہے کہ کامیاب
انسان کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے یہ عورت ماں بھی ہوسکتی ہے جیسے جوہر برادران کے لیے
اماں بی اور لائق ودرد مند استانی بھی۔ گھر کے بعد بچے کی تربیت کی پہلی منزل اسکول
ہی ہے جہاں اسے بنیادی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کی شخصیت اور کردار کی تعمیر کا سلسلہ
شروع ہوتا ہے۔ہمیں ضرورت ہے پہلی ہندوستانی مسلم استانی فاطمہ شیخ اور مادرنسوانیت
کہلائی جانے والی ساوتری بائی پھولے جیسی خواتین استانیوں کی جنہوں نے ناسازگارحالات
میں بھی انیسوی صدی میں دلجمعی کے ساتھ کچلے اورغیر مراعاتی طبقات بشمول دلت و مسلم
طلبا کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا نہ کہ تنگ ذہن اساتذہ کی۔
اچھا استاذ نصیب ہونا ایک
ایسی نعمت ہے جس کا نعم البدل ہوہی نہیں سکتا۔بچہ اپنے اساتذہ سے جو کچھ سیکھتاہے اس
کی چھاپ اس پر تازندگی رہتی ہے۔ ایک مشفق اور لائق استاذ یا استانی بچوں کے مستقبل
کی تعمیر میں اس قدر اہم کردار ادا کرتی ہے مگر ایک اچھا استاذ وہی مانا جائے گا جو
ایسی صفا ت کا حامل ہوکہ جن سے متاثر ہو کر اس کے شاگرد اس کاتہہ دل سے احترام کریں
او راس کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ ایک اچھے استاد میں مثالی قوت برداشت ہونی چاہئے اور وہ
ایک باظرف ونرم دل انسان بھی ہونا چاہئے۔ استاذ کا نرم مزاج ہونا اس لیے بھی ضروری
ہے کہ اگر کسی بچے کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اور وہ اپنے استاذ سے اسے بار بار سمجھنے
کی کوشش کرے تو وہ بچے پر غصہ نہ کرے بلکہ اس کی اصلاح کے لئے ضروری تدابیر اختیار
کرے نہ کہ خود یا دوسروں سے اس کو سزا دلائے۔ انہیں طلبا کی جانب سے کسی قسم کے اشتعال
کی صورت میں بھی صبر سے کام لینا چاہئے۔ بچوں کے ساتھ استاذ کا رویہ ہمیشہ ہمدردانہ
ہوناچاہئے۔ ہمارے قوانین جیسے حق تعلیم قانون، کمسن افراد کے ساتھ انصاف اوربچو ں کی
دیکھ بھال سے متعلق قانون اور ریاستی ایجوکیشن کوڈ وغیرہ بچوں کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی
کی اجازت نہیں دیتے۔ بچوں کے والدین کی جانب سے کوئی ایسی شکایت نہیں آنی چاہئے کہ
ان کے بچوں کے ساتھ کوئی سختی برتی جارہی ہے۔ ایک معیاری، مہذب اور صحیح معنوں میں
لائق وپیشہ ور استاذ کو کسی شاگرد کے ساتھ نازیبا حرکت کرسکتاہے او رنہ دوسروں سے کراسکتاہے۔
تدریسی علوم میں علم نفسیات
بھی شامل ہے۔زیر تعلیم وزیر تربیت افرادکو یہ بتایا جاتاہے کہ وہ بچوں کو کس طرح پڑھائیں
گے۔ اس کے علاوہ انہیں بچوں کی تعلیم سے متعلق نفسیاتی امور کی جانکاری بھی دی جاتی
ہے۔ اس نفسیاتی علم کو عملی شکل دینے کے لیے استاذ کا بچوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف
ہونا ضروری ہے ورنہ وہ اس کی صحیح رہنمائی نہیں کرسکتا۔علاوہ ازیں حقیقتاً ایک اچھا
استاذ اسی کی مانا جائے گا جو اپنے شاگردوں کو حب الوطنی، اچھے اوصاف، اچھے اخلاق و
شائستگی،جیسی خوبیوں سے آراستہ کرے نہ کہ امتیازی تشدد کامظاہرہ کرے۔ ہر استاذ جب بھی
وہ پہلی مرتبہ کلاس میں آئے تو طلبا کو یہ بتائے کہ ملک سے محبت یعنی حب الوطنی کے
بغیر ان کے اچھے شہری ہونے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے ساتھی برابر ہیں، سب
مل جل کر رہیں۔ اساتذہ کو طلبا کو تمام مذاہب کا احترام کرنے کی نصیحت کرنی چاہئے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمارے سرکاری
ونجی تعلیمی اداروں او راساتذہ کی غیر جانبداری کے بارے میں کسی طرح کاشک ظاہر کرنا
تعلیمی فضا کو مکدر کرنا ہوگا۔ بچے ان سبھی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آج بھی
بڑے بڑے عہدو ں پر فائز ہیں۔ تعلیمی اداروں میں کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا
جاتا البتہ کبھی کبھی تکنیکی نوعیت کے اعتراضات ضرورہوتے رہے ہیں۔
6 ستمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism