گریس مبشر، نیو ایج اسلام
21 ستمبر 2024
ابو محمد المقدسی جہادی-سلفی تحریک میں ایک منفرد مقام کے حامل ہیں، جو خالص پسند سلفیت اور عسکریت پسند سلفیت کے درمیان کی خلیج کو ختم کرتے ہیں۔ الولاء والبراء، کفر اور جہاد کے تصورات پر مبنی، ان کا نظریہ، مذہبی خالص پسندی سے ان کی گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ، یہ غیر اسلامی حکمرانوں کے خلاف تشدد کے استعمال کا جواز بھی پیش کرتے ییں۔
اہم نکات:
1. المقدسی، بدنام زمانہ اردنی عسکریت پسند ابو مصعب الزرقاوی کی رہنمائی کے لیے سب سے زیادہ جانے جاتے ہیں، جس نے عراق میں وحشیانہ جہادی شورش کی قیادت کی تھی۔
2. سلفیت کوئی یک سنگی نظریہ نہیں ہے، بلکہ اسے تین بڑے دھاروں میں تقسیم کیا گیا ہے: خالص پسند، سیاسی اور جہادی۔
3. المقدسی کے نظریہ کا مرکزی محور الولاء والبراء کا تصور ہے، جس سے مراد وہ وفاداری ہے، جس کا اظہار ہر مسلمان کو خدا، اسلام، اور مسلمانوں کے ساتھ کرنا چاہیے، اور ہر غیر اسلامی چیز سے بیزاری اور دستبرداری کا اظہار کرنا ہے۔ یہ نظریہ دنیا کو ثنائی اصطلاحات کے تابع کرتا ہے — ایک وہ جو خالص اسلام کو مانتے ہیں، اور دوسرے جو خالص اسلام کو نہیں مانتے۔
-----
تعارف
بنیاد پرست اسلامی نظریات کے ظہور کو، بالخصوص 9/11 کے حملوں کے بعد، علمی توجہ حاصل ہوئی ہے۔ اسلام کی ایک خالص پسند شاخ، سلفیت، ان علمی مباحثوں کے مرکز میں رہی ہے، خاص طور پر القاعدہ جیسی تشدد پسند شاخوں کے عروج کے بعد۔ اس تحریک میں ایک غیر معمولی، لیکن اکثر غلط سمجھی گئی شخصیت، ابو محمد المقدسی ہیں، جنہیں جہادی سلفیت کے اندر سب سے زیادہ بااثر نظریہ ساز شمار کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں المقدسی کے نظریہ کے تین مرکزی اصولوں پر روشنی ڈالی گئی ہے- الولاء والبراء، کفر، اور جہاد — اور بتایا گیا ہے، کہ ان کی تعلیمات نے کس طرح خالص سلفیت اور جہادی سلفیت کے درمیان ایک خط امتیاز کھینچ دیا ہے ۔
ابو محمد المقدسی کون ہیں؟
1959 میں مغربی کنارے کے گاؤں برقہ میں پیدا ہونے والے المقدسی کا اصل نام ابو محمد عاصم بن محمد البرقاوی ہے۔ جب وہ چھوٹے تھے تبھی ان کا خاندان کویت چلا آیا، جہاں وہ بڑی حد تک سب سے الگ تھلگ ہو کر پلے بڑھے۔ ان کا فکری سفر، بعد میں انہیں سعودی عرب، پاکستان اور افغانستان تک لے گیا، جہاں وہ جہادی سلفیت کی مرکزی شخصیت بن کر ابھرے، اور انہوں نے اسلامی خالص پسندی، تصور تکفیر اور جہاد کے موضوع پر بڑے پیمانے پر لکھا۔
المقدسی، بدنام زمانہ اردنی عسکریت پسند ابو مصعب الزرقاوی کی رہنمائی کے لیے سب سے زیادہ جانے جاتے ہیں، جس نے عراق میں وحشیانہ جہادی شورش کی قیادت کی تھی۔ اگرچہ ابتدائی طور پر المقدسی نے زرقاوی کی حمایت کی، لیکن بعد میں اس نے اپنے شاگرد کے پُرتشدد ہتھکنڈوں، بالخصوص شیعوں پر اس کے حملوں کی بنا پر، خود کو اس سے دور کر لیا، کیونکہ یہ المقدسی کی نگاہ میں اسلام کی شبیہ کو داغدار کرنا تھا۔
سلفیت: ایک منقسم نظریہ
سلفیت کوئی یک سنگی نظریہ نہیں ہے، بلکہ اسے تین بڑے دھاروں میں تقسیم کیا گیا ہے: خالص پسند، سیاسی اور جہادی۔ خالص پسند سلفی، مذہبی پاکیزگی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، اور بسا اوقات مذہبی علمیت اور پرامن دعوت پر انحصار کرتے ہوئے، غیر سیاسی موقف اختیار کرتے ہیں۔ دوسری طرف، سیاسی سلفی، حکومت اسلامیہ کو فروغ دینے کے لیے سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ اور جہادی سلفی، ایسی حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے حامی ہیں، جنہیں وہ غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔
تاہم، اس دائرہ کار میں، المقدسی کا منفرد موقف ان امتیازات کو دھندلا کر دیتا ہے۔ پُرتشدد جہاد کی توثیق کی وجہ سے، جہادی سلفی کیمپ میں ان کی پکڑ مضبوط ہے، لیکن مذہبی خالص پسندی پر ان کی پابندی، انہیں اسامہ بن لادن یا ایمن الظواہری جیسی شخصیات کے مقابلے، خالص پسند سلفیت کے زیادہ قریب کرتی ہے۔ خالص پسندی اور عسکریت پسندی کے اس امتزاج نے، المقدسی کے کاموں کو جہادی حلقوں سے باہر بھی، بہت زیادہ اثر انگیز بنا دیا ہے۔
الولاء والبراء: وفاداری اور قطع تعلق
المقدسی کے نظریہ کا مرکزی محور الولاء والبراء کا تصور ہے، جس سے مراد وہ وفاداری ہے، جس کا اظہار ہر مسلمان کو خدا، اسلام، اور مسلمانوں کے ساتھ کرنا چاہیے، اور ہر غیر اسلامی چیز سے بیزاری اور دستبرداری کا اظہار کرنا ہے۔ یہ نظریہ دنیا کو ثنائی اصطلاحات کے تابع کرتا ہے — ایک وہ جو خالص اسلام کو مانتے ہیں، اور دوسرے جو خالص اسلام کو نہیں مانتے۔ المقدسی اس بات پر زور دیتے ہیں، کہ یہ تصور سماجی اور سیاسی زندگی دونوں پر لاگو ہوتا ہے، اور وہ غیر مسلموں کے ساتھ سیاسی روابط کو نظر انداز کرتے ہوئے، صرف سماجی مسائل پر براء کا اطلاق کرنے پر، سعودی خالص پسندوں کی تنقید کرتے ہیں۔
المقدسی نے قطع تعلق کا نمونہ، حضرت ابراہیم (قرآن 60:4) کی مثال سے اخذ کیا ہے۔ ان کا استدلال ہے، کہ جس طرح ابراہیم نے اپنے وقت کے بت پرستوں سے خود کو دور رکھا تھا، اسی طرح آج مسلمانوں کو بھی عصر حاضر میں بت پرستی کے مترادف، یعنی جدید مسلم حکمرانوں اور غیر اسلامی حکومتوں کے ساتھ، اپنے اتحاد کو ختم کر لینا چاہیے۔
یہ نظریہ المقدسی کو سعودی عرب جیسی حکومتوں کی مذمت کرنے پر مجبور کرتا ہے، کیونکہ وہ عالم مغرب، خاص طور پر امریکہ کے ساتھ سیاسی تعلقات برقرار رکھنے کے لیے، سعودیہ پر منافقت کا الزام لگاتے ہیں، کیونکہ سعودیہ اسلامی خالص پسندی کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ان کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے، کہ اسلام کے ساتھ حقیقی وفاداری کے لیے، نہ صرف غیر اسلامی طریقوں کو مسترد کرنا ضروری ہے، بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ تعاون کرنے والی حکومتوں کی، جم کر مخالفت بھی ضروری ہے۔
کفر کا تصور: حکمرانوں کو کافر قرار دینا
المقدسی کا سب سے زیادہ متنازعہ فیہ نظریاتی موقف، کفر اور کفریہ افعال کے متعلق، ان کی سمجھے کے حوالے سے ہے۔ المقدسی کا ماننا ہے کہ وہ مسلم حکمران، جو اسلامی قانون (شریعت) کے مطابق حکومت نہیں کرتے، وہ بڑے کفر کے مرتکب ہیں، اور انہیں کافر سمجھا جانا چاہیے۔ وہ اس کے لیے قرآن 5:44 کا حوالہ دیتے ہے، جس میں ہے کہ جو لوگ خدا کے قوانین کے مطابق حکومت نہیں کرتے، وہ کافر ہیں۔
اگرچہ بہت سے خالص پسند سلفی، شریعت کے مطابق حکومت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن وہ اکثر کفرِ اکبر اور کفرِ اصغر میں فرق کرتے ہیں۔ کفر اصغر سے مراد وہ اعمال ہیں، جو خود بخود کسی کو کافر نہیں بناتے، جب تک کہ پورے یقین کے ساتھ انہیں انجام نہ دیا جائے، جب کہ کفرِ اکبر سے مراد صریح اعمالِ کفر ہیں، تاہم، المقدسی، ان مسلم حکمرانوں کو کفرِ اکبر کا مرتکب مانتے ہیں، جو غیر اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرتے ہیں، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ان کے اعمال، خدا کی حاکمیت کو مسترد کرنے کے مترادف ہیں۔
اس موقف نے المقدسی کو، جدید حکومتوں کی تکفیر کا ایک سرکردہ حامی بنا دیا ہے۔ تاہم، بعض بنیاد پرست گروہوں کے برعکس، جیسے کہ مصر کی التکفیر و الھجرہ، المقدسی پورے معاشروں کی تکفیر کے حامی نہیں ہیں۔ وہ اس تکفیر کا دائرہ حکمرانوں اور ان کے براہ راست حامیوں، جیسے کہ سرکاری اہلکاروں، فوجی اہلکاروں، اور قانون سازوں تک ہی محدود رکھتے ہیں۔
جہاد: قطع تعلق کی اعلی ترین شکل
المقدسی کے نزدیک جہاد محض جسمانی جدوجہد کا نام نہیں ہے، بلکہ جہاد قطع تعلق کی اعلی ترین شکل ہے۔ وہ مسلمانوں کی طرف سے جہاد کو، غیر اسلامی حکمرانوں اور ان کی حکومتوں کو مسترد کیے جانے کا، سب سے مؤثر طریقہ سمجھتے ہیں۔ جہاد کے بارے میں المقدسی کے خیالات، مسلم اور غیر مسلم ملک کے درمیان، جنگ کے کلاسیکی اسلامی تصور سے الگ ہیں۔ اس کے بجائے، وہ ان مسلم حکمرانوں کے خلاف بھی جہاد کی وکالت کرتے ہیں، جنہیں وہ مرتد سمجھتے ہیں۔
جہادی-سلفی تحریک کے اندر بحث اکثر اس بات پر مرکوز ہوتی ہے، کہ آیا سب سے بڑا دشمن کون ہے "قریبی دشمن" یعنی مسلم حکومتیں یا "دور کے دشمن" یعنی مغربی حکومتیں۔ اس سلسلے میں المقدسی قریبی دشمن کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ ان کا ماننا ہے، کہ عالمِ اسلام کی غیر اسلامی حکمتوں کا تختہ الٹنا، ایک اسلامی ریاست کے قیام کے مقصدِ عظمی کی طرف، ایک ضروری اور پہلا قدم ہے۔
جہاد کے بارے میں المقدسی کا موقف، القاعدہ کے عالمی حکمت عملی سے بالکل متصادم ہے، جس کا بنیادی محور مغربی اہداف کو نقصان پہنچانا تھا۔ وہ 9/11 کے حملوں کے زبردست نقاد تھے، اور ان حملوں کو مسلم ممالک میں مغربی فوجی انتقامی کارروائیوں کو اکسا کر، مسلم دنیا کے لیے تباہی و بربادی کا سبب سمجھتے تھے۔ اس کے بجائے، المقدسی مقامی حکومتوں کو نشانہ بناتے ہوئے زیادہ مرتکز جہاد کی وکالت کرتے ہیں، جو ان کے خیال میں اسلامی ریاست کے قیام کی راہ میں اصل رکاوٹیں ہیں۔
نتیجہ
ابو محمد المقدسی جہادی-سلفی تحریک میں ایک منفرد مقام کے حامل ہیں، جو خالص پسند سلفیت اور عسکریت پسند سلفیت کے درمیان کی خلیج کو ختم کرتے ہیں۔ الولاء والبراء، کفر اور جہاد کے تصورات پر مبنی، ان کا نظریہ، مذہبی خالص پسندی سے ان کی گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ، یہ غیر اسلامی حکمرانوں کے خلاف تشدد کے استعمال کا جواز بھی پیش کرتے ییں۔ نظریاتی خالص پسندی پر المقدسی کا زور، انہیں خالص پسند سلفیوں میں بھی ایک قابل احترام مقام عطا کرتا ہے، جب کہ جہاد کے حق میں ان کی تائید و توثیق، عسکریت پسند سلفی تحریکوں میں انہیں ایک مستند مقام عطا کرتی ہے۔
اگرچہ المقدسی نے، ابو مصعب الزرقاوی جیسی شخصیات کے پرتشدد ہتھکنڈوں سے خود کو الگ کر لیا ہے، لیکن ان کی تحریریں اب بھی دنیا بھر کے جہادی گروپوں کو تحریک و ترغیب فراہم کرتی رہتی ہیں۔ ان کی خالص پسند دینی تعلیمات اور عسکری سرگرمی کے امتزاج کے باعث، آج ان کے بے شمار پیروکار پائے جاتے ہیں، جس سے وہ آج عالم اسلام کے سب سے زیادہ بااثر نظریہ سازوں میں سے ایک بنتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
----
English Article: A Purist Jihadi-Salafi: The Ideology of Abu Muhammad al-Maqdisi
URL: https://newageislam.com/urdu-section/purist-jihadi-salafi-ideology-abu-muhammad-maqdisi/d/133308
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism