انیس
جیلانی
(انگریزی سے اردو ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن
، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
پاکستان
میں کام کر رہی ایک غیر ملکی خاتون صحافی دوست اسلام آباد میں سلمان تاثیر کے قاتل
کے گھر پر جانے کے بعد الجھن میں تھی۔وہ اس بات سےحیران تھی کہ قاتل کے گھر کے مرد
جب اس سے باتیں کر رہے تھے تو ان لوگوں نے اس کی جانب ایک بار بھی نہیں دیکھا۔
وہ ایسی
پہلی مغربی خاتون نہیں ہیں جنہوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔ بہت سے لوگ اسے یا تو اپنی توہین
مانتے ہیں یا اس کونا پسندیدگی کی علامت مانتے ہیں۔ یہ معاملہ اس کے برخلاف تھا جب
اسی خاتون نے گلیوں میں محسوس کیا کہ سبھی اس کو گھورہے تھے۔ایسے میں کوئی اس رجحان
کی کیسے وضاحت کر سکتا ہے
قرآن
کریم کہتا ہے : ’مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں
کی حطاظت کیا کریں۔یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں خدا
ان سے باخبر ہے۔‘ (24:30) اور قرآن یہ بھی فرماتا ہے: ’اور مومن عورتوں سے بھی کہدو
کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی
آرائش(یعنی زیور کے مقامات)کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو۔
اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کرو اور اپنے خاوند اور اپنے باپ اور خسر اور
بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی)
عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے
لڑکوں کے جوعورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی
زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں۔اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر)
نہ ماریں ( کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے۔۔۔۔‘(24:31(
ان آیتوں
میں بہت سی چیزیں واضح ہو جاتی ہیں۔مثال کے طور پر یہ نہیں کہا گیا کہ خواتین اپنے
چہرے کو ڈھنک کر رہیں۔اگر ان کے چہرے ڈھنک کر رکھنے ہوتے تو پھر ان کے لئے اور مردوں
کےلۓ اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم نہیں ہوتا۔دوسرے جو عام طور پر ظاہر ہوتا ہے اس
کے علاوہ ان کو اپنے حسن اور زیور کو نہ دکھانے کی ہدایت کی ہے ۔اس ہدایت کی تشریح
کئی طرح سے ہو سکتی ہے۔ ایک تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ خواتین ظاہراً اپنے حسن اور زیورات
کو نہ دکھائے لیکن جو عام طور پر ظاہر ہوتا ہے اسے نہ چھپائیں
تیسرے،چھاتی
ایک چادر سے ڈھنکی ہونی چاہیے۔یہ شاید جنوبی ایشیاء میں دوپٹہ کی وضاحت کرتا ہے جو
ضروری پردہ فراہم کرتا ہے۔ایک اور آیت (33:59) تقریباً وہی بات کہتی ہے، ’مومنات.....(جب
باہر نکلا کریں تو) اپنے (منھ) پر چادر لٹکا لیا کریں۔یہ امر ان کے لئے مو جب شناخت
(و امتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا۔.....‘مردوں اور بزرگ خواتین کواس معاملے
میں مذکورہ شرط سے راحت دی گئی ہے۔
سوال
یہ اٹھتا ہے کہ سر سے پاؤں تک پردہ پھر آیا کہاں سے؟واضح طور پر یہ مردوں کی جانب سے
خواتین کو محکوم بنانے اور انہیں سخت حدود میں رکھنے کی کوشش ہے۔ورنہ مندرجہ بالا آیات
میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کی تشریح اس قدر سخت کی جائے۔
اسلامی
حجاب کا بہترین نمونہ خواتین حجاج کرام میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں پورا جسم ایک
ڈھیلے کپڑے سے ڈھنکا ہوتا ہے اور چہرہ واضح طور پر نظر آتا ہے اور جیسا کہ خدا نے فرمایا
ہے۔
جیسا
ہمارے سماج میں خواتین کو پردہ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے ، اس پر انہیں عمل کرنے کی
ضرورت نہیں ہے۔سیدھے سادے کپڑے میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کر سکتی ہیں اور فوٹوگرافس
اور الکٹرانک میڈیا میں نظر آ سکتی ہیں۔شرافت اور شرم و حیاء کی بنیاد پر محبت بھری
نگاہ سے دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔قرآن کریم ایک اور آیت(33:32) میں کہتا ہے کہ پیغمبر
کی بیویاں اور عورتوں کی طرح نہیں ہیں اور اگلی ہی آیت (33:33) میں ان سے کہتا ہے ، ’اور اپنے گھروں میں
ٹھہری رہو اور جس طرح (پہلے ) جاہلیت (کے دنوں)
میں اظہار تجمل کرتی تھیں اس طرح زینت نہ دکھاؤ۔ اور نماز پڑھتی رہو اور زکوٰۃ دیتی
رہو اور خدا اور اس کے رسولﷺ کی فرماں برداری کرتی رہو۔اے (پیغمبرکے) اہل بیت خدا چاہتا
ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے۔‘
اس طرح
نبی کریم ﷺ کی بیویاں پردے کے عام اصول سے مثتشنیٰ تھیں جو عام مومنات پر لاگو ہوتی
تھیں۔کیا اس وقت کوئی کہہ سکتا تھا کہ یہ شرط عام خواتین پر لاگو نہیں ہوتی ہیں،مثال
کے طور پر جن پر سعودی حکومت پابندی لگانا چاہتی ہے اور یہاں تک کہ انہیں گاڑی چلانے
کی اجازت بھی نہیں دینا چاہتی؟ حوالے میں دی گئی آیت (24:31) کا آخری حصہ اور نبی کریم
ﷺ کی بیویوں کے لئے ہدایت واضح طو پر خواتین کو اپنے حسن اور زیورات کامظاہرہ کرنے
سے منع فرماتی ہیں، ’اور اپنے پاؤں(ایسے طور سے زمین پر)نہ ماریں (کہ جھنکار کونوں
میں پہنچے اور)ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے......۔‘کیا اس کا مطلب یہ ہےکہ رقص
یا خواتین کا اس انداز سے چلنا کہ پوشیدہ زیورات سنائی دیں غیر قانونی ہے؟
میرے
خیال سے ایسا نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے: کئی مسلم ممالک میں ہونے والے رقص اور فیشن
کے لئے کیٹ واک کو فحش رویہ کے منظر نہیں مانے جاتے ہیں۔جہاں اس طرح کے رویے سامنے
آتا ہے ، وہاں اس سے نمٹنے کے لئے قانون ہیں اور یہ قانون مرد و خواتین پر برابرسختی
سے لاگو ہوتا ہے۔
یہ ایک
اشارہ ہے کہ وقت بدل گیا ہے اور انسانی معاشرے کا درجہ بلند ہوا ہے جہاں علیحدہ رہنا
ذاتی پسند کا معاملہ ہو سکتا ہے لیکن ایک معیار نہیں ہونا چاہیے جیسا آج اکثریت مسلم
ممالک میں صورتحال ہے۔معاشرے میں نظم پیدا کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے پردے کو سختی
سے نافذ کرنا اب ضروری نہیں رہا جیسا کہ سعودی عرب، ایران اور طالبان کی حکومت کے دوران
افغانستان میں ہوتا تھا۔خواتین آج تعلیم یافتہ ہیں اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں اہل
مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔
زیادہ
تر مسلم معاشرے کی عوامی زندگی میں مہذب رویے کے انکہے کوڈ پر بغیر کسی جبر کے عمل
ہوتا ہے اور حکومت خواتین کو سر سے پاؤں تک پردہ کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتی ہے۔اس
لئے یہ حکومت کی فکر کا موضوع نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک فرد کی پسند کو موضوع ہونا
چاہیے۔
بشکریہ۔
دی ڈان، کراچی
URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-culture/purdah-and-islam-/d/4934
URL: