New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 03:58 PM

Urdu Section ( 30 Jun 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Public Referendum Is Mandatory for War جنگ کیلئے استصواب رائے لازمی

ڈاکٹر غلام زرقانی

ملک میں زمام اقتدار خواہ بادشاہ وقت کے ہاتھوں میں ہو یا انتخابی نظام میں کامیاب قرار دیے جانے والے حکام کے ہاتھوں میں، دونوں صورتوں میں کسی بھی ملک پراچانک حملہ کردیا جاتاہے۔ اب اگر مدمقابل بھی کسی قدر قوت وطاقت رکھتاہے، تو وہ انتقامی کاروائیاں شروع کردیتاہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دونوں ممالک میں قتل و خون تخریب وتدمیر اور مواقع ومشکلات کابازار گرم ہوجاتا ہے۔ رات کی تاریکی میں سائرن کی خوفناک آواز سنتے ہی لوگ اپنی حفاظت کے لیے ادھر سے ادھر بھاگتے ہیں۔ بجلی کاسلسلہ منقطع ہوجاتاہے۔بازار کی رونقیں ماند پڑجاتی ہیں۔ شفا خانے زخمیوں سے بھرجاتے ہیں۔ تعلیم وتعلم کا سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ او راس پر مستزاد یہ کہ نہ جانے کتنے بچے والدین کی شفقت ومحبت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتے ہیں۔ کتنے ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کے خاندان اپنے لاڈلوں کی جدائی کے غم میں نڈھال دکھائی دیتے ہیں۔

جان تو بہرحال جان ہے، خواہ کسی کی بھی ہو،تاہم مجھے توبڑی بڑی عمارتوں کے تہس نہس ہونے پر بھی افسوس ہوتاہے۔ ذرا اندازہ تو لگائیے کہ ایک چھوٹی سی عمارت بنانے کیلئے کیا کچھ تگ ودونہیں کرنا پڑتا۔ نقشہ ساز سے بار بار ملاقاتیں،انجینئر کی آفس میں حاضری تعمیر کی خدمات اور پھر پچاس سو مزدور کی شبانہ روز جدوجہد کے بعد ایک عمارت تیار ہوتی ہے۔ اگر عمارت کئی منزلہ اور خوبصورت ہے تو پھر تعمیر ی مراحل کئی کئی سالوں پرمحیط ہوتے ہیں۔تاہم جنگ کے دوران آج واحد میں وہ سب تباہ ہوجاتے ہیں۔آپ شاید یہ سمجھ رہے ہیں ہوں گے کہ دولت کے زور پر انہیں دوبارہ تعمیرکرنا چنداں دشوار نہیں،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جس قدر مزوروں نے محنت ومشقت کی ہے، دنیا کی دولت وثروت اس کا متبادل ہرگز نہیں ہوسکتی۔

بہرکیف آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ موجودہ عہد میں جو طبقہ جنگ وجدل کے احکامات دیتاہے وہ مصائب وآلام سے کوسوں دور قطیر رقم سے اپنے لیے تیار کیے گئے بنکروں میں کمال عیش وآرام کے مزے لوٹتا رہتا ہے،بلکہ اس کے تمام اہل خانہ بھی نہایت ہی پرسکون شب وروز گزاررہے ہوتے ہیں۔ نہ تو بجلی کے منقطع ہونے کا خدشہ رہتاہے، نہ شور وشرابے کی توقع او رنہ ہی جسم پربال برابر خراش آنے کے امکانات۔قومی ہیکل جنریٹر میں ہمہ وقت وافر مقدار میں تیل،انواع واقسام کے طعام اور شب ہاشی کے لئے وہ جملہ تفریحی سامان، جو مغربی دنیا میں زندگی کے مزے لینے کیلئے مترادف ہیں۔

مجھے یاد آیا کہ نیویارک میں دونوں ٹاور کے زمیں بوس ہونے کے بعد امریکی فوجی کارروائیوں پر Imperoal Huoris نامی ایک کتاب لکھی گئی تھی، جس کے مصنف نے قانونی پیچیدگی کی وجہ سے اپنا نام ’شخصے‘ لکھا تھا۔ اس میں موصوف نے امریکہ کے بڑے بڑے عہدیداروں سے مختصر استفسارات کی روداد شامل کی تھی۔ انہوں نے سب سے یہ پوچھا تھاکہ کیا امریکہ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگوں میں ان کے خانوادے کے افراد بھی محاذ پرلڑرہے ہیں؟دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ آیا افغانستان، عراق، لیبیا اور دوسرے علاقوں میں جوجنگیں ہورہی ہیں، ان میں امریکی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پرفائز شخصیات کے اہل خانہ بھی ہیں؟ موصوف کے مطابق کچھ تو استفسار کے پس پردہ عزائم تار گئے او ر جواب دینے سے پہلو تہی کرتے ہوئے نکل گئے اوربعض عدم توجہی کی رو میں بہتے ہوئے صاف کہہ گئے کہ ان کے خانوادے سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی محاذ پر جنگ میں حصہ نہیں لے رہاہے۔

سچی بات یہ ہے کہ دنیا میں اقدام قتل وخون اور تخریب وانہدام کے احکامات دینے والے اس لیے پس وپیش نہیں کرتے کہ وہ اور ان کے اہل خانہ جنگ کے منفی اثرات سے کلی طور پر محفوظ رہتے ہیں۔ اے کاش اگر وہ بھی عام لوگوں کی طرح دوران جنگ مصائب وآلام او رمواقع ومشکلات کاسامنا کرتے، توشاید دنیا نناویے فیصد ی جنگی محاذ آرائیو ں سے محفوظ ہوجائے۔

یہ حقیقت تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہوگی کہ حکمرانوں نے اپنے حلقہ اقتدار میں جو افواج ترتیب دے رکھی ہیں، انہیں پرکشش مراعات دی جاتی ہیں، نیز انہیں امکانات پر عمل کرنے کا پابند بنایا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کے چھوٹے چھوٹے فوجی ٹولے کے آفیسر جوبات زبان سے نکا ل دیں سب کے سب اسے وجود میں لانے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ اور اگر خدانخواستہ کوئی ایک چھوٹی سی حکم عدولی ہوگئی تو پھرسخت سزادی جاتی ہے۔ کال کوٹھری میں کئی کئی ایام کے لیے بند کردینا، کھانا پینا نہ دینا  اور زد وکوب کرنا وغیرہ تو بہت عام سی بات ہے۔ چونکہ کسی بھی فوجی کے خلاف ہونے والے اقدامات چہار دیواری کے اندر خفیہ طو ر پر ہوتے ہیں، اس لیے یہ ہمیشہ عالمی ذرائع ابلاغ کی دسترس سے باہر ہی رہتے ہیں۔یعنی یوں کہہ لیں کہ ایک فوجی کی تربیت ہی اس انداز میں ہوتی ہے کہ وہ عام حالات میں حکم عدولی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حاکم اعلیٰ کی طرف سے کسی بھی ملک کے خلاف حملہ کرنے انہیں حکم دیا جاتاہے تو وہ بلاتاخیر دوڑ پڑتے ہیں۔

اچھا پھر جہاں بادشاہت ہے وہا ں کے بارے میں توکچھ کہنا فضول ہے، لیکن جوملک جمہوریت کاعلمبردار ہے، وہاں کے شہریوں کو ایک تحریک شروع کرنی چاہئے۔انہیں یہ ببانگ دہل انتخابی منشور میں شامل کروانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی جماعت کوملک کے حوالے سے تمام تراختیارات توحاصل ہیں لیکن کسی بھی ملک کے خلاف جنگ کرنے کے لیے انہیں عوام کی رائے لینی لازمی ہوگی۔ یہ اس لیے بھی ضرورہے کہ جنگ سے براہ راست جو طبقہ متاثر ہوتاہے، وہ وہاں کے عام شہری ہیں، اصحاب اقتدار اور بے تحاشہ دولت وثروت کے مالک تو ہرطرح کی مشقتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔اب یہ کیسی عجیب بات ہے کہ مصائب وآلام تو شہری جھیلیں اور آغاز جنگ کا فیصلہ کوئی او رکرے۔

پہلے جنگیں میدان میں ہوتی تھیں،لیکن  اب تو ایک ملک سے دوسرے ملک کی سرحدکا اتصال بھی ضروری نہیں ہے۔ابھی ہم نے ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے لرزہ خیز مناظر دیکھے ہیں او رکمال جرأت وبہادری کے ساتھ ایران کی جوابی کارروائی سے ظالموں کے قلعے زمیں بوس ہوتے ہوئے بھی دیکھے ہیں۔اس لیے یہ کہنا چاہیے کہ اب جنگ میں تباہ وبربادی تصور وگمان سے کہیں زیادہ ہونے لگی ہے۔ اس لیے وقت کی اشد ضرورت یہ ہے کہ اصحاب اقتدار اپنے اختلافات گفت وشنید کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کریں اور اگرنوبت مسلح جدوجہد تک پہنچ جائے تو پھرعوام کی رائے لینا ضروری قرار دیا جائے۔یقین کیجئے کہ اگر عوام سے استصواب رائے کی رسم چل پڑی تو دنیا میں قتل و خون اور تخریب وانہدام کے واقعات بہت حد تک کم ہوجائیں گے۔

---------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/public-referendum-mandatory-war/d/136022

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..