ڈاکٹر محمد عبدالواحد
6جنوری،2024
انگریزی کے Terror کو اردو میں دہشت
کہتے ہیں۔ یہ ایک عربی لفظ ہے جو فی زمانہ خوف و ہراس پھیلانے کے مفہوم میں مستعمل
ہے۔ حالانکہ جدید عربی میں دہشت کی بجائے ’ارہاب‘ لکھنے کا رواج زیادہ عام ہے۔
یہاں پر یہ بھی یاد رہے کہ یو این، ا و ر آئی او سی جیسے عالمی اداروں نے آج تک
ٹیررکی کوئی ایسی تعریف نہیں متعین کی جو ہر طرح سے جامع اور مانع ہو اور جسے دنیا
کی بیشتر قومیں بے چوں و چرا تسلیم بھی کرتی ہوں۔ پس معنوی اعتبار سے مبہم ہونے کی
وجہ کر ہی اہل مغرب کے لئےٹیرراب ایک ایسا اصطلاحی لفظ بن گیا ہے جس کی مدد سے وہ
اپنے اذکار و نظریات کی خبیثانہ تاویلیں پیش کرتے رہے ہیں۔ معاً اس کی آڑ میں وہ
اپنی دہشت گردی کو حق دفاع اور دوسروں کی تحریک آزادی کوبھی فوراً سے پیشتر
’ٹررزم‘ کہہ دیتے ہیں۔اس طرح کی بدنیتی سے پیدا شدہ دوہرے معیارا ور دوہرے پیمانوں
نے ماضی میں افغانستان اور عراق میں جو قتل و غارت گری مچائی وہ سب پر جگ ظاہر ہے۔
آج بھی وہی طاقتیں جو ہزاروں ایٹم بم، انگنت بین براعظمی میزائلیں (ICBM) اور اجتماعی بربادی
کے بے شمار تباہی والے ہتھیاروں سے لیس ہیں، ایک بار پھر فلسطین میں ہر طرح کی
انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت،
بربریت اور نسل کشی کی کھلم کھلّا پشت پناہی کر رہی ہیں۔
یہاں یہودیوں کی سفاکیت
کے پس پردہ جو نفسیاتی عوامل کارفرما ہیں، ان پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں۔ یہ عوامل
دراصل ہولوکاسٹ اور ہزاروں سال پر محیط خانہ بدری میں گزری ہوئی زندگی کی تلخ
یادوں سے پیدا شدہ ہیں۔ چنانچہ قوموں کی لسٹ میں sadists(سادیت پسند) کی
حیثیت سے یہودی آج بھی سرفہرست ہی نظر آئیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خاک و خوں
میں لت پت دو تین سال کے ہزاروں معصوم فلسطینی بچے، ہزاروں بے بس۔ لاچار عورتیں
اور جنگ سے بالکل لاتعلق مردوں کی لاشیں بھی نتن یاہو کو کرب کی بجائے نشاط کا
احساس دلاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی اور دوسرے ذرائع ابلاغ پر وہ حماس اور
فلسطین کے شہیدوں کو عمالقہ (فلسطین کے پرانے اور اصلی باشندے،قبیلے جو اسرائیلیوں
کو وہاں بسنے نہیں دیتے تھے) اور انسانی جانور تک کہتا ہوا نظر آتا ہے۔ بائبل کے
مطابق یہ عمالقہ وہ ہیں جن کے ہر فرد (بشمول جانور) کو قتل کر دینے کی تلقین کی
گئی ہے۔
ممکن ہے کہ نتن یاہو کے
علاوہ اس کے فوجیوں کی قاتلانہ جبلت کے سرچشمے بھی اِنہی تعلیمات سے پھوٹتی ہوں جن
کی روشنی میں فلسطینی بچے بھی انہیں جانور نظر آتے ہیں تاکہ ان پر وحشیانہ بمباری
کی جاسکے۔ اگر ایسا ہے تو قدیم فلسطین میں بسے موجودہ یہودیوں کے آبائو اجداد بھی
یقیناً جانور ہی رہے ہوں گے جن پر بابل کے طاقتور بادشاہ نبوکد نذر (Nebuchhadnezar)نے ۵۸۶قبل مسیح میں حملہ کیا،
لاکھوں اسرائیلیوں کو تہہ تیغ کیا، ہیکل سلیمانی کو مسمار کردیااور باقی یہودیوں
کو غلام بناکر بابل لے گیا۔ پھر ۷۰ء
میں رومن بادشا ہ Titus نے بھی فلسطین کے ساتھ وہی قصہ دہرایا۔ لاکھوں یہودیوں کے قتل کے
بعد اس نے ہیکل کو دوسری مرتبہ تہس نہس کردیا اور جو اسرائیلی بچ گئے انہیں غلامی
کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔ تب سے لے کر ۱۴؍مئی
۱۹۴۸ء سے پہلے تک وہ خانہ
بدری کی زندگی میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ اسی طرح ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۵ء کے درمیان ایک بار پھر
تاریخ نے یہودیوں کے خلاف کروٹ لی۔ ہوا یہ کہ جرمنی کا ڈکٹیٹر ہٹلر پوری سامی نسل
سے ہی نفرت کرنے لگا۔ چونکہ سارے یہودی اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے اس لئے وہ انہیں
جرمن تہذیب وتمدن کے لئے خطرہ بھی ماننے لگا۔ وہ تمام یہودیوں کو بہ بانگ دہل culture
destroyer کہا کرتا تھا۔ لہٰذا جرمنی کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کرنے کے لئے
پہلے تو ہٹلر نے تقریباً ۶۰؍لاکھ
یہودیوں کو مختلف کانسٹریشن کیمپوں میں جمع کیا اور پھر ملک کے مختلف حصوں میں
تیار کئے گئے گیس کے چیمبروں میں ٹھونس کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یقینا نتن
یاہو تاریخ کا بہادر ترین مرد شمار کیا جاتا اگر وہ مذکورہ یہودیوں کی ذلت و
بربادی کے بدلے آج کی جرمنی سے تھوڑا بھی ہرجانہ وصول کرنے میں کامیاب ہوتا۔
چونکہ یہ اس کے بوتے کا نہیں اس لئے وہ اپنے بدلے کی آگ میں نہتے اور کمزور
فلسطینی مسلمانوں کو جلا اور جھلسا رہا ہے۔
پیش کردہ یہودی انتقام کے
جذبے کی تفہیم بہت آسان ہے۔ اگر ہم نفسیات کو سامنے رکھیں۔اس کے مطابق کوئی کمزور
جب کسی زور آور سے بدلہ نہیں لے سکتا تو وہ کسی کمزور تر سے بدلہ لینے کی سوچتا
ہے مثلاً بیوی اگر اپنے شوہر سے ناراض ہوجاتی ہے تو اپنی ناراضگی کا ٹھیکرا وہ
اپنے چھوٹے بچوں شوہر کا سر پھوڑنا چاہتی ہے۔آج اسرائیل بھی حماس، فلسطین اور
کمزور عرب ممالک کے ساتھ ظلم و جبر کی جو داستانیں رقم کر رہا ہے وہ سب متبادل
ہیں، اس ظالم جرمنی کے جس نے کل یہودیوں پرہولو کاسٹ کا قہر ڈھایا تھا۔ لہٰذا
سرائیل کا غصہ تو فطرتاً جرمنی پر پھوٹنا چاہیے تھا مگر ۱۹۴۸ء سے صرف بے چارہ فلسطین
ہی ہمیشہ زد پر آجاتا ہے۔ نزلہ بر عضو ضعیف۔
اب سوال یہ ہے کہ اس
عالمی امت (بالخصوص عرب) میں اتنا ضعف کیسے پیدا ہوگیا کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیت سے
بھی محروم ہوگئی۔ اس کا ایک جواب تو (بقول رسالت مآبؐ) یہ ہے کہ پوری امت ’وہن
زدہ‘ ہوگئی۔ دنیا کی محبت اور موت کے ڈر نے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ نتیجہ یہ
ہوا کہ دنیا والے اب انہیں لقمہ تر سجھ کر نگل جانا چاہتے ہیں۔ پس دنیا کی محبت
اور موت کے ڈر کے حصاروں سے نکلنا اب امت مسلمہ کی مجبوری ہے اگروہ دوسری قوموں سے
ہمسری کا متمنی ہے۔ کاش! اپنی دولت اور وسائل کا صحیح استعمال کرکے آج مسلم ملکوں
کی اکثریت بھی ان آلات کی ٹکنالوجی کو جاننے اور حاصل کرنے میں کچھ دلچسپی دکھاتی
مگر صد افسوس کہ سائنسی علوم و ایجادات، فوجی طاقت و قوت اور عالمی بساط پر ایک
موثر اور مضبوط سفارت کارمیں اعلیٰ مقام پانے کے تعلق سے دنیا بھر کی مسلم
(بالخصوص عرب مسلم) حکومتوں کا رویہ آج بھی بہت امید افزا نہیں ہے۔ غور کریں تو
آج ناٹواورای یو کے طرز پر مسلمانوں کے پاس فوجی اور سیاسی اتحاد کی کوئی مضبوط
تنظیم بھی نہیں ہے۔ ہاں، خانہ پُری کے لئے بے دانت اور بغیرریڑھ کی کچھ تنظیمیں
(مثلاً عرب لیگ، خلیج تعاون کانسل-GCC اور اسلامی تعاون تنظیم-OIC) ضرور ہیں جن کے اہل
الرائے افراد اوپر کی قرآنی آیت اچھی طرح واقف ہیں مگر کم ہمتی اور عدم جرأت
انہیں اُن پر عمل کرنے سے روکتی ہے۔ اسی طرح ان تنظیموں سے وابستہ ممالک کے بے
ضمیر سربراہان بھی مغرب اور امریکہ کے ڈر سے ان پر عمل پیرا ہونے کی پوزیشن میں
بالکل نہیں ہیں۔ نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ ۱۹۴۸ء میں غاصبانہ طور پر
قائم ہونے والی اسرائیل کی ریاست سے تین جنگوں (جیسے ۱۹۴۸ء ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء) میں شکست کھانے کے بعد
بھی عرب سربراہوں نے اب تک ہوش کے ناخن نہیں لئے۔ اتنا ہی نہیں ۷؍اکتوبر
۲۰۲۳ء کے بعد ایک بار پھر
زمانے نے دیکھا کہ عرب و عجم کے ۵۷
مسلم ملکوں کے رہتے ہوئے اسرائیل نے فلسطین کے مسلمانوں کی جان و مال اور مکانات
کو کس طرح روند ڈالا۔
خدشہ ہے کہ عرب حکمرانوں
کی موجودہ خاموشی اور بے حسی کی وجہ سے جزیزۃ العرب میں کہیں ایک دوسرا اندلس نہ
پیدا ہوجائے۔تاریخ بتاتی ہے کہ ۱۴۹۲ء
میں جب اندلس کے مسلمانوں کا آخری انخلا ہوا تو اس وقت بھی آس پاس کی طاقتور
مسلم سلطنتوں (مثلاً ترکی کی سلطنت عثمانیہ، افریقہ کی سلطنت ادریسیہ، مصر کی
مملوک سلطنت اور ایران کی سلجوقی سلطنت وغیرہ) نے اندلس کے مظلوم مسلمانوں کی کوئی
مدد نہیں کی یہاں تک کہ Ferdinandنے
غرناطہ(Granada)سے بھی مسلمانوں کو باہر نکال دیا۔ اسرائیل بھی غزہ میں یہی چاہتا
ہے۔ وہ روز اوّل سے ہی گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس مقصد کے تحت وہ نہر
اردن سے سے لے کر بحیرہ روم تک کے پورے علاقے پر بلاشرکت غیرے دخیل و قابض ہونا
چاہتا ہے۔ امریکہ کے فوجی اڈے اس سمت میں اسرائیل کی ہرممکن مدد کر رہے ہیں۔
6 جنوری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism