محمد زبیر
7 اکتوبر 2023
’میرا دو ماہ کا بجلی کا بل 80 ہزار روپے آیا ہے۔ میں بیکری چلاتا
ہوں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ بجلی کا بل دوں، مہنگا آٹا خریدوں، سٹاف کو تنخواہیں دوں
یا بل ادا کروں؟ اگر یہی صورتحال رہی تو کاروبار بند کرنا پڑے گا۔ دوسری صورت یہ
ہے کہ اپنے حق کے لیے احتجاج کروں اور اب میں یہی کر رہا ہوں۔‘
یہ کہنا ہے پاکستان کے
زیر انتظام کشمیر کے شہر راولاکوٹ میں بیکری کے کاروبار سے منسلک راجہ وقار کا۔
راجہ وقار کہتے ہیں کہ
’مہنگائی کا ایک ایسا طوفان اُمڈ آیا ہے کہ مجھ سمیت متوسط اور غریب طبقے کے لیے
جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہوچکا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’ہم رواں برس
مئی سے احتجاج پر ہیں۔ حکومت چاہے گرفتاریاں کرے، مقدمے درج کرے جو اس کا دل چاہتا
ہے کرے، ہم اب احتجاج سے باز نہیں آنے والے۔ کشمیریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو
چکا ہے۔‘
پاکستان کے زیر انتظام
کشمیر میں گذشتہ کئی مہینوں سے جاری احتجاج اس وقت شدید ہنگاموں میں تبدیل ہو گیا
جب مظفر آباد اور راولاکوٹ کے اضلاع میں پولیس اور مظاہرین کے درمیاں تصادم ہوا
اور اس کے ردعمل میں کشمیر پولیس نے کئی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات درج
کیے اور گرفتاریاں کیں۔
ان گرفتاریوں کے بعد
کشمیر کی خواتین نے بھی مختلف شہروں میں دھرنے دینے شروع کر دیے۔
راولاکوٹ سے تعلق رکھنے
والی نوشین کنول ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جب تحریک کے رہنماؤں اور کارکناں پر
مقدمے درج ہوئے تو اس کے بعد خواتین بھی میدان میں نکل آئیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ
مہنگائی کے اس طوفان میں سب سے زیادہ متاثر خواتین ہی ہوتی ہیں اور اب وہ اپنا
کردار ادا کرنے کے لیے میدان میں ہیں۔‘
صورتحال کشیدہ کیسے ہوئی؟
پاکستان کے زیر انتظام
کشمیر میں احتجاج تو کئی ہفتوں سے جاری تھا لیکن صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب
گذشتہ سنیچر کو احتجاجاً بجلی کے بلوں کے جہاز بنا کر دریائے نیلم میں پھیکنے پر
عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان اور مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کر کے نہ صرف انھیں
گرفتار کیا گیا بلکہ دھرنے کے مقام پر لگے کیمپ کو بھی اکھاڑ دیا گیا۔
اس کی وجہ سے مظفرآباد
سمیت کشمیر کے مختلف شہروں میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور بازار بند کروا کر
سڑکیں بلاک کر دیں۔ پولیس کو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال
کرنا پڑا۔
حکومت کے مظاہرین سے
مذاکرات کے بعد اگرچہ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کو رہا کر دیا گیا تاہم جعمرات
(پانچ اکتوبر) کو کشمیر بھر میں ایک بار پھر پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی
اور پُرامن مظاہرے کیے گئے۔
کشمیر کے صحافی طارق نقاش
کے مطابق کشمیر کے عوام میں گذشتہ کچھ عرصے سے بے چینی پائی جاتی ہے، جس کی مختلف
وجوہات ہیں۔
’حالیہ احتجاج کی وجہ بنیادی طور پر دو اہم معاملات بنے ہیں: ایک
تو آٹا اور دیگر اشیائے خوردونوش پر حکومتی سبسڈی کم کرنا اور دوسرا بجلی کے بلوں
میں اضافہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج
مئی کے ماہ میں شروع ہوئے اور اس کا آغاز راولاکوٹ سے ہوا تھا جہاں پر آٹا اور
اشیائے خوردونوش پر سبسڈی ختم یا کم کرنے کے معاملے پر احتجاجی کیمپ لگائے گئے۔
وہاں پر یہ احتجاج کئی ہفتے جاری رہا جس کے بعد یہ کشمیر کے مختلف شہروں تک پھیل
گیا۔
طارق نقاش کے مطابق ابھی
یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ بجلی کی اضافی قیمت کا معاملہ سامنے آ گیا اور اس میں
شدت کچھ دن پہلے اس وقت پیدا ہوئی جب مظفر آباد اور راولاکوٹ میں لوگوں نے بجلی کے
بلوں کو نذر آتش کرنے کے علاوہ دریا برد کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس
موقع پر مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں بھی ہوئی ہیں، جس کے بعد پولیس نے مقدمات
درج کیے ہیں۔ ’ان مقدمات میں کچھ رہنماوں اور کارکناں پر دہشت گردی کی دفعات بھی
درج ہیں۔ وہ کارکناں اور قائدین جن پر دہشت گردی کی دفعات نہیں ان کی ضمانتیں ہو
چکی ہیں۔‘
کشمیر میں پانچ اکتوبر کو
پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی
---------
آٹے اور بجلی کے مسائل
کیا ہیں؟
پاکستان کے زیر انتظام
کشمیر میں دسمبر 2022 کے بلوں میں بجلی 9 روپے فی یونٹ تھی جو اگست 2023 میں 32
روپے فی یونٹ تک بڑھا دی گئی۔ کشمیر میں جاری احتجاج کے بعد ستمبر کے بلوں میں نئے
نرخ معطل کر کے بجلی کو 19 روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ
چونکہ کشمیر میں پیدا ہونے والی بجلی واپڈا انتہائی سستے داموں یعنی 1.30 روپے فی
یونٹ میں خریدتی ہے اس لیے کشمیر والوں کو یہ اسی قیمت یا کم از کم رعایتی قیمت پر
دی جائے۔
اس حوالے سے بی بی سی نے
جب وزارت اُمور کشمیر کے پبلک ریلیشنز آفیسر مجیب قادر کھوکھر سے رابطہ کیا تو ان
کا کہنا تھا کہ بجلی اور بجٹ کے معاملات واپڈا کا محکمہ اور وزارت خزانہ دیکھتی
ہے۔
دوسری جانب کشمیر میں
محکمہ واپڈا کے ایس ڈی او راجہ ارشد کا کہنا تھا کہ بجلی کے بلوں میں ٹیکسز اور
اضافہ حکومت پاکستان کی ایما پر کیا جاتا ہے اور ڈسڑی بیوٹر کمپنی حکومت کی
پالیسیوں پر عملدر آمد کرتی ہے۔
نگران وزیر اطلاعات
مرتضیٰ سولنگی سے جب اس بابت رابطہ قائم کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ اس
معاملے پر وزیر خارجہ سے رابطہ کیا جائے۔
پاکستان کے زیر انتظام
کشمیر کے بازاروں میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 3000 روپے ہے جبکہ حکومت کی
جانب سے سبسڈائزڈ نرخ 1590 روپے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس
وقت پاکستان کے زیر انتطام کشمیر میں گندم کی سالانہ طلب 5 لاکھ ٹن ہے جبکہ حکومت
سبسڈائزڈ نرخوں پر تین لاکھ ٹن گندم ہی مہیا کر پاتی ہے۔
آٹے کی طلب اور رسد میں
بہت زیادہ فرق بھی اس مسئلے کی شدت میں اضافہ کرتا ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام
کشمیر کے سیکریٹری فوڈ محمد رقیب کا بی بی سی کی نامہ نگار تابندہ کوکب سے بات
کرتے ہوئے کا کہنا تھا کہ حکومت فی من 3000 روپے سٹسڈی دے رہی ہے لیکن پاکستان کے
زیر انتظام کشمیر کے عوام چاہتے ہیں کہ انھیں گلگت بلتستان کی طرح کی سبسڈی دی
جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گلگت
کا اپنا علاقہ اور مارکیٹ ہے، ان کے مرکزی مارکیٹ سے دوری کی وجہ سے حکومت پاکستان
نے خصوصی انتظامات کیے ہوں گے لیکن ہم مارکیٹ کے قریب ہیں، اس لیے ہمارے لیے زیادہ
سبسڈی دینا ممکن نہیں۔‘
آٹے کی عدم دستیابی کے
مسئلے پر محمد رقیب کا کہنا تھا کہ ’جب اوپن مارکیٹ اور سرکاری نرخ پر ملنے والے
آٹے کی قیمتوں میں زیادہ فرق نہیں تھا تو زیادہ تر لوگ نجی مارکیٹوں سے آٹا لینا
پسند کرتے تھے کیونکہ وہ فائن آٹے کو خالص آٹے پر ترجیح دیتے تھے۔ اب آٹا مہنگا
ہونے کی وجہ سے وہ لوگ بھی سرکاری آٹے کی طرف آ گئے ہیں۔‘
کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے
کہ کشمیر میں زیادہ تر چاول شوق سے کھائے جاتے ہیں لیکن ان کی قیمتوں میں اضافے کی
وجہ سے بھی آٹے کی طلب پر اثر پڑا ہے۔
اس پر محمد رقیب کا کہنا
تھا ’چونکہ طلب بڑھ گئی ہے اور حکومت کو سپلائی پر نظر ثانی کرنی ہے، جو سہہ ماہی
پر کیا جاتا ہے۔ اب نظر ثانی میں طلب کو کنٹرول کرے کے لیے عموماً لاگت بڑھا دی
جاتی ہے لیکن حکومت نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن رسد بڑھانے کے لیے بھی
حکومی کے پاس معاشی وسائل نہیں۔‘
تاہم انھوں نے تسلیم کیا
کہ ’انتظامی مسائل ہر جگہ ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں اس لیے چیک اینڈ بیلنس
ہونا ضروری ہے۔‘
عوامی احتجاج کا سلسلہ رواں
برس مئی سے جاری ہے جس میں حالیہ دنوں میں تیزی آئی ہے
----------
’ہمارے وسائل کے بدلے کچھ نہیں دیا جاتا‘
پاکستان کے زیر انتظام
کشمیر میں قائم کردہ مرکزی ایکشن کمیٹی کے ممبر اور مظفر آباد میں تاجر رہنما شوکت
نواز میر کا کہنا تھا کہ ’حالیہ احتجاج کی وجہ تو بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور
آٹا و دیگر اشیائے خوردونوش پر سبسڈی کا ختم کرنا اور کم کرنا شامل ہے مگر عوام کے
اندر لاوا 75 سال سے پک رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر
کے وسائل پورا پاکستان استعمال کرتا ہے مگر بدلے میں کشمیر کو کچھ نہیں دیا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کشمیر
کے پانیوں سے چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ کشمیر کی اپنی ضرورت صرف
اور صرف چار سو میگا واٹ ہے۔ وہ بھی اتنی زیادہ مہنگی کر دی گئی ہے کہ کشمیری اب
دوبارہ لالٹینیں خرید رہے ہیں کہ بجلی استعمال کرکے ان کا بل ادا نہیں کر سکتے
ہیں۔‘
راولاکوٹ سے ایکشن کمیٹی
کے ممبراور تاجر رہنما عمر عزیز کہتے ہیں کہ ’حالیہ بجلی کے بلوں کو دیکھیں اس میں
اتنے زیادہ ٹیکس ہیں جن کی سمجھ بھی نہیں آ رہی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ان
ٹیکسوں کا مقصد کیا ہے۔ کشمیر میں ترقیاتی کام تو نہیں ہو رہے ہیں۔ کوئی
یونیورسٹیاں، کالجز اور پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے بھی قائم نہیں ہوئے ہیں، تو پھر
یہ ٹیکس کہاں خرچ ہوتے ہیں۔‘
ایکشن کمیٹی کے ممبر اور
جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سیکریٹری جنرل راجہ مظہر اقبال خان ایڈووکیٹ کا کہنا
ہے کہ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ بیوروکریسی، حکمرانوں، عدلیہ کی بڑی بڑی تنخواہوں اور
مراعات کو کم کیا جائے اور اس کے بدلے ہمیں مناسب نرخوں پر بجلی، سستا آٹا اور
اشیائے خووردنوش دی جائیں۔‘
کشمیر کی حکومت کیا کر
رہی ہے؟
عوامی شکایات پر کشمیر کی
حکومت کیا کر رہی ہیں اور کیا یہ الزامات درست ہیں؟ اس سوال کے جواب پر پاکستان کے
زیر انتظام کشمیر کے وزیر چوہدری محمد رشید کا کہنا تھا کہ ’کشمیر سے کوئی بھی
امتیازی سلوک نہیں ہو رہا بلکہ پاکستان کی مدد سے کشمیر کے معاملات چل رہے ہیں۔ اب
پاکستان میں معاشی صورتحال اچھی نہیں تو کشمیر میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے
ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ
بات بالکل غلط ہے کہ آٹا پر سبسڈی ختم کر دی گی ہے بلکہ لوگوں کے ڈیلروں سے کوئی
مسائل ہیں۔ اب عوام سے مشاورت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، ان کی مرضی اور مشاورت سے
ڈیلرز کو مقرر کیا جائے گا تاکہ شکایات کا سلسلہ ختم ہو سکے۔‘
بجلی کے بلوں کے حوالے سے
عوام کے تحفظات کے بارے میں چوہدری محمد رشید کا کہنا تھا کہ ’بجلی کے بلوں میں
اضافہ بادلِ ناخواستہ ہوا ہے۔ پاکستان میں جب بجلی کے بلوں میں اضافہ ہوا تو ہم نے
کشمیر میں بلوں میں اضافہ کرنے سے انکار کر دیا تھا مگر دو ماہ پہلے مجبوراً ایسا
کرنا پڑا۔
چوہدری رشید کا کہنا تھا
کہ ابھی جو بجلی کا ایشو پیدا کیا گیا ہے کہ کشمیر چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا
کرتا ہے اور ہماری ضرورت کوئی چار سو میگا واٹ تو یہ بھی حقیقت نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے
ایک یونٹ پر کشمیر کو پندرہ پیسے ملتے تھے، پھر چالیس پیسے ہوئے اور اب ایک روپیہ
دس پیسے مل رہے ہیں، اور اکھٹی ہونے والی تمام تر رقم کشمیر کا بجٹ بنانے میں
استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ 2010 سے کشمیر میں جو پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت
بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ معاہدے کے تحت یہ تمام سسٹم 25 سال کے بعد حکومت کی ملکیت
ہوں گے جس سے صورتحال اور بھی بہتر ہوجائے گی۔‘
چوہدری رشید کا کہنا تھا
کہ اس وقت واپڈا سے ہمارے مذاکرات جاری ہیں کہ کشمیر کو ملکیتی گریڈ سٹیشن ملنے
چاہییں۔ یہ مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد مزید بہتری آئے گی۔
عوامی ایکشن کمیٹی اور
مظاہرین سے گرفتاریوں سے متعلق چوہدری رشید کا کہنا تھا کہ جب امن وامان کا مسئلہ
پیدا کیا جائے گا تو پھر قانون حرکت میں آئے گا۔ کشمیر میں مقدمے درج کیے گئے ہیں
تاہم ساتھ ہی مذاکرات کا عمل شروع کرنے کی بھی دعوت دی ہے۔ ‘
7 اکتوبر 2023، بشکریہ: چٹان، سری نگر
---------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism