سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
19 مئی 2025
دنیا کا قدیم ترین جغرافیائی خطہ جسے قدیم تاریخی اور مذہبی کتابوں میں بھارت ورش کہا گیا ، جسے عربوں نے ہند کا نام دیا اور یوروپی سیاحوں نے انڈیا کہہ کر پکارا دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انسانی تہذیب کا گہوارا ہے۔ اسلامی تاریخ کے مطابق زمین پر سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام اسی جغرافیائی خطے کے ایک جزیرے سری لنکا کی ایک پہاڑی پر اتارے گئے۔ ہندو ؤں کی مذہبی کتابوں کے مطابق دنیا کے پہلے انسان منو تھے جو اسی بھارت میں پیدا ہوئے۔ اور یہیں انہوں نے دھرم کا پرچار کیا۔ اس طرح بھارت یا ہندوستان نے ہی سب سے پہلے انسانی سماج کو دھرم اور سنسکار یعنی مذہب اور اخلاقیات کی تعلیم دی۔ بعد کی صدیوں میں پوری دنیا سے مختلف قومیں بھارت میں آکر بستی گئیں اور یہاں کی تہذیب اور ثقافت کا حصہ بنتی گئیں۔ تاریخ۔کے مختلف دور میں یہاں آریہ بھی آئے ،یونانی بھی آئے اور منگول بھی۔ قبل مسیح دور میں یہاں مشرق وسطی سے یہودی بھی آکر بسے اور عیسائی بھی۔ یہاں بودھ دھرم کے بانی گوتم بدھ نے بھی جنم لیا اور ایک نیا فلسفہ پیش کیا جس میں انسان کو اپنے کرما پر زیادہ توجہ دینی کی تلقین کی۔ اسی خطے میں عیسائی مذہب نے بھی اپنے گہرے نقوش چھوڑے بلکہ کچھ مؤرخین کا تو یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی بھارت ورش کے کشمیر کے خطے میں اپنی زندگی کا کچھ عرصہ گزارا۔ 2020ء میں گلگت بلتستان میں 1200 سال پرانے ایک بڑے اور چار ٹن وزنی پتھر کی صلیب درہافت کی گئی جس سے اس خطے میں عیسائی مذہب کی قدامت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ آٹھویں صدی سے بھارت میں مسلمانوں کی بھی آمد ہوئی اور انہوں نے نہ صرف اسے متحد کرکے ایک متحدہ ہندوستانی قومیت کا تصور پیش کیا بلکہ یہاں کی۔معیشت کو بھی اتنی ترقی دی کہ اسے پوری دنیا میں سونے کی چڑیا کے نام سے جانا جانے لگا۔ مختلف قوموں ، زبانوں اور کلچر کے ادغام و اختلاط سے بھارت ایک ایسا جغرافیائی خطہ بن گیا جہاں مختلف رنگ اور نسل کے لوگ مل جل کر رہتے تھے اور ان کے درمیانی مکمل ذہنی اور سماجی ہم آہنگی قائم تھی۔
بھارت کی اس سماجی آہنگی کو فروغ دینے اور مضبوط بنانے میں یہاں کے صوفیوں اور سنتوں نے بھی اہم رول ادا کیا۔ انہوں نےانسان دوستی اور بھائی چارہ کی تعلیمات کو عام کیا۔انہوں نے ایک ایسے سماج کی تعمیر کی کوشش کی جہاں مذہب اور ذات پات کی تفریق نہ ہو اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا جذبہ نہ ہو۔ ان صوفی سنتوں نے ایک دوسرے کے مذہب کے خلاف تنقید کرنے سے پرہیز کرنے کی تعلیم دی۔ ناتھ پنتھ کے قائد اور کوی گورکھ ناتھ اپنے شبدوں میں کہتے ہیں :
گورکھ کہے سن ہورے اودھو جگ میں ایسے رہنا
آنکھے دیکھی با کانے سنی با مکھ تھے کچھو نا کہنا
ناتھ کہے تم آپا راکھو ہٹھ کری باد نہ کرنا
یہ جگ ہے کانٹے کی باڑی دیکھی دیکھی پگ دھرنا
( گورکھ کہے سن رے یوگی جگ میں ایسے رہنا
آنکھوں سے دیکھنا کانوں سے سننا مگر منہ سے کچھ نہ کہنا
صبر وتحمل سے کام لینا اور بحث تکرار مت کرنا
یہ دنیا کانٹوں سے بھری راہ ہے اس میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا)
گورکھ ناھ نے اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دی کہ کسی کے خلاف اشتعال انگیز تبصرہ نہ کرنا۔ سماج میں مختلف عقائد رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں ان کے عقائد کا احترام کرنا۔ اگر کوئی تمہارے خلاف کچھ کہہ دے تو اسے برداشت کرلینا اوربحث تکرار میں مت الجھ جانا۔ یہ دنیا خاردار وادی ہے یہاں ہر قدم۔پر احتیاط ضروری ہے۔
یہی رویہ بھارت کے دوسرے سنتوں اور صوفیوں کابھی رہا ۔انہوں نے ذات پات رنگ نسل اور ہندو مسلمان سکھ اور عیسائی کے نام پر نفرت اور اشتعال پھیلانے سے اپنے پیروکاروں کومنع کیا۔
بھارت کی آزادی کی تحریک کے دوران جب انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے اور انہیں تشدد پر اتارنے کی سازش رچی تو ہندوؤں اور مسلمانوں کے مفکروں اور شاعروں نے ہندوستانیوں کو اس خطرے سے آگاہ کیا اور انہیں اپنی صدیوں پرانی مشترکہ تاریخ اور تہذیبی ورثے کی یاد دلائی ۔ انہیں ایک ہی پیڑ کے دو پھول اور ایک ہی جسم کی دو آنکھیں قرار دیا۔ مسلمانوں کے سب سے بڑے ریفارمر اور مفکر سرسید احمد خان نے کہا کہ ہندوستان ایک حسین دلہن کی مانند ہے۔ ہندو اور مسلم اس کی دو آنکھیں ہیں ۔جب تک اس کی آنکھیں اچھی حالت میں رہیں گی تو دلہن کی دلکشی اور حسن باقی رہے گا لیکن اگر ایک آنکھ جاتی رہی تو دلہن بھینگی ہوجائے گی۔
بنگلہ کے سب سے بڑے کوی رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی اکثریت اور اقلیت کو سوسائٹی کی ترقی کے لئے یکساں طور پر اہم قرار دیا۔ انہوں نے اپنی ایک نظم میں ایک ایسے سماج کی وکالت کی جہاں اقلیتوں کوبھی اکٹریتی فرقہ کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور جہاں اقلیتیں خوف سے آزاد ہوکر زندگی گزار سکیں ۔جہاں انہیں بھی علم حاصل کرنے اور ترقی کی راہ میں آگے بڑھنے کی آزادی ہو۔وہ کہتے ہیں:
جہاں ذہن خوف سے عاری ہو
اور سر فخر سے بلند ہو
جہاں علم آزاد ہو
جہاں گھریلو دیواروں سے
دنیا ٹکڑوں میں نہ بٹی ہو
ان سے قبل اٹھارہویں صدی کے بنگال کے صوفی شاعر لالن فقیر نے بھی یہی خواب دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنے ایک گیت میں کہا:
ایمون مانب سماج کوبے گو سریجن ہوبے
جے دن ہندو مسلمان بودھ کرشٹان
جاتی گوتر ناہی روبے
ترجمہ : ایسا انسانی سماج کب تعمیر ہوگا
جس دن ہندو مسلمان بودھ عیسائی
ذات اور گوتر نہیں ہونگے
بیسویں صدی کے بنگلہ کے عظیم شاعر قاضی نذرالاسلام نے بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا
مورا ایکی برنتے دوٹی کسم ہندو مسلمان
مسلم تار نین منی ہندو تاہار پران
ترجمہ
ہم ہیں ایک ہی پیڑ کے دو پھول ہندو مسلمان
مسلم اس کی آنکھیں ہیں ہندو اس کی جان
بیسوہں صدی کے اردو کے شاعروں نے بھی قومی یک جہتی اور مذاہب کے احترام پر کافی نظمیں کہیں۔اقبال نے شری رام اور گرونانک کی تعریف میں نظمیں لکھیں ۔ انہوں نے شری رام کے بارے میں کہا۔
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں ان کو امام ہند
اقبال نے شری رام کو بھارت کا امام کہا تو گرونانک جی کو مرد کامل یعنی پروشوتم قرار دیا۔
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایاخواب سے
ان نظموں کے ذریعے شاعروں اور کویوں نے ہندوستانی عوام کو تمام مذہبوں اور مذہبی شخصیتوں کے ا حترام کی تعلیم دی اور اپنی مشترکہ تہذیب و ثقافت کی حفاظت پر زور دیا کیونکہ یہی کمپوزٹ کلچر بھارت کی پہچان ہے اور اسی کی وجہ سے بھارت دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آج جب بھارت اور ہندوستانی قوم کے دشمن مذہبی منافرت پھیلاکر اور مذہب کے نام پر تشدد اور دنگا فساد پھیلاکر بھارت کی اس قیمتی وراثت اور دھروہر کو برباد کرنا چاہتے ہیں اور بیرونی طاقتوں کے اشارے پر ملک کو کمزور کرناچاہتے ہیں تو ہم دیش واسیوں اور دیش کے سچے سپاہیوں کا یہ فرض ہے کہ عوام کو اپنی صحیح تاریخ سےآگاہ کرائیں اور اپنے اس صدیوں پرانے کمپوزٹ کلچر کو برباد ہونے سے بچائیں۔
-------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/protect-india-composite-culture/d/135581
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism