ارشد عالم، نیو ایج اسلام
31 جنوری 2023
سیرت اور حدیث کی کتابیں
من گھڑت ہیں، تو ہم ابتدائی اسلامی برادری کے بارے میں کیسے جانیں؟
اہم نکات:
1. موجودہ سیرت اور
احادیث کی کتابیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بہت بعد لکھی گئیں۔
2. اس کے باوجود ہم آپ
صلی اللہ علیہ وسلم اور ابتدائی امت مسلمہ کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں اس کا
زیادہ تر حصہ انہیں کتابوں سے ماخوذ ہے کیونکہ قرآن میں ہمیں زیادہ تفصیل نہیں
ملتی۔
3. علماء نے قرآن کے
بعد کے اس مواد کو تضادات سے بھرپور اور بعض اوقات صریح من گھڑت قرار دیا ہے۔
4. تو پھر ہم ابتدائی
اسلامی برادری کی تاریخ کو اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تاریخ
کی کس طرح از سر نو تشکیل دے سکیں گے؟
-------
روایتی اسلامی کتابوں میں
ہمیں پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی پیدائش، جوانی، نبوت، آپ کی شادیوں
اور جنگوں اور 632 عیسوی میں آپ کی موت کے بارے میں کافی مختصر تفصیلات ملتی ہیں۔
لیکن ان معلومات کے زیادہ تر ماخذ خود اسلامی کتابیں ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی
ماخذ یا حوالہ مسلم روایت سے باہر نہیں ہے۔ وہ یہ واضح اصولی سوال بھی نہیں اٹھاتے
کہ آیا عیسائی، یہودی یا دیگر ذرائع میں عربی نبی کا کوئی حوالہ موجود ہے۔ یعنی وہ
صرف اسلامی ماخذ کا حوالہ دیتے ہیں اور وہ بھی غیر تنقیدی، گویا وہی حتمی حقیقت
ہیں۔ آج ہمیں معلوم ہے کہ ایک عربی پیغمبر کی آمد کا ذکر اسلام سے کافی قبل غیر
مسلم ماخذ میں موجود تھا۔
سیرت اور حدیث کی کتابوں
میں پیغمبر کے بارے میں معلومات ملتی ہیں، جو پیغمبر کی وفات کے بہت بعد لکھی گئی
تھیں۔ اس طرح کی ابتدائی تاریخ کی ایک کتاب ابن اسحاق نے تقریباً 761-767 کے
درمیان لکھی تھی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سو سال بعد کی ہے۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ اس سیرت کا کوئی نسخہ موجود نہیں ہے اور ہم اس کے بارے میں
صرف ان کے ایک شاگرد ابن ہشام کی ایک دیگر سیرت کی کتاب سے جانتے ہیں جس نے اسے
غالباً نویں صدی کے اوائل میں لکھا تھا۔ مزید یہ کہ ابن ہشام نے خود یہ تسلیم کیا
ہے کہ میں نے اصل نسخے کے ان حصوں کو خارج کر دیا ہے جو قارئین کے لیے ناگوار ہو
سکتے ہیں۔ لہٰذا، ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی سیرت کے اصل مندرجات کے بارے
میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ تقریباً تین چار نسلیں گزر گئی ہوں گی جب نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غالباً یہ زبانی معلومات سیرت کے نام سے مشہور کتاب
میں درج کی گئی ہوں گی۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد، ہم
موصول ہونے والی معلومات کی صداقت پر کبھی یقین نہیں کر سکتے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
زندگی کے بارے میں معلومات کا دوسرا ذریعہ حدیث کی کتابوں سے آتا ہے اور یہ بھی
کافی عرصے بعد مرتب کیا گیا تھا۔ صحیح البخاری اور صحیح مسلم تقریباً 850 کی دہائی
میں مرتب کی گئیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 200 سال سے زیادہ کا
عرصہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام مصنفین اسلام کی جائے پیدائش حجاز سے باہر کے
تھے۔ ان کا تعلق موجودہ عراق اور ازبکستان کے شہروں سے تھا، جو مکہ اور مدینہ سے
بہت دور ہیں۔ یہ یقین کرنا بے معنی ہو گا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
زندگی کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہ سچ ہے۔ اس کی جھلک نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کے متعلق بہت سی متضاد روایات سے ملتی ہے جو ان احادیث کے مجموعوں میں موجود
ہیں۔ مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ قیام کی لمبائی پر غور کریں، اگر
کوئی ابتدائی اسلامی تاریخ میں دلچسپی رکھتا ہے تو اس کے لیے یہ ایک اہم نکتہ ہے۔
بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم 10 سال مکہ میں رہے (SB
7:72:787)
لیکن اسی کتاب کی ایک اور روایت میں اس کی مدت 13 سال بیان کی گئی ہے (SB
5:58:242)۔
تاہم امام مسلم کہتے ہیں کہ نبیﷺ مکہ میں 15 سال رہے (SM
30:5809)۔
اسی طرح ان کتابوں میں یہ بھی یقین سے نہیں بتایا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی وفات کے وقت آپ کی عمر مبارک کیا تھی۔ بعض نے اسے 60، بعض نے 63 اور یہاں
تک کہ بعض نے 65 تک بیان کیا ہے۔ یہاں اہم نکتہ یہ بحث نہیں کرنا ہے کہ ان میں سے
کون سا سچ ہے لیکن چونکہ یہ ایک دوسرے سے متصادم ہیں، اس لیے وہ سب سچ نہیں ہو
سکتے، حالانکہ یہ ممکن ہے کہ وہ سب غلط ہوں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمیں یہ سمجھ لینا
چاہیے کہ اس مواد کو تاریخ کے ماخذ کے طور پر استعمال کیا جانا جھوٹ کے سوا کچھ
نہیں۔
تالیف کرنے والے خود بھی
ایسی بہت سی زبانی روایتوں کے فرضی ہونے سے واقف تھے اور انہوں نے خود ہی ہزاروں
کی تعداد میں روایتوں کو اپنی کتابوں سے چھانٹ دیا۔ ابھی بھی ان مجموعوں میں نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بہت سے من گھڑت اور متضاد واقعات موجود ہیں، جیسا
کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ مزید یہ کہ ان احادیث کے مجموعوں کا مقصد درحقیقت
تاریخی واقعات کی صداقت ثابت کرنا نہیں تھا بلکہ قانونی اور رسمی امور کو واضح کرنا
تھا۔ ان روایات کی صداقت پر داخلی طور پر کافی بحثیں ہوئیں ہیں اور ان میں سے صرف
کچھ ہی کتابوں مثلاً صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو ہی 11ویں صدی کے بہت بعد میں
روایات کا درجہ حاصل ہوا۔
ابتدائی اسلام کے جانکاروں
نے ہمیشہ روایتی اسلامی کتابوں سے تاریخ کی تعبیر نو سے پیدا ہونے والے مسائل کو
تسلیم کیا ہے۔ کئی دہائیوں پہلے، اگناز گولڈہائزر اور جوزف شیچ نے تاریخ نویسی کے
مقاصد سے حدیث کی روایتوں کو ناقابل اعتبار قرار دیا تھا۔ اسی طرح وائل بی حلاق نے
بھی کہا تھا کہ "ہمارے پاس یہ یقین کرنے کی کافی وجوہات ہیں کہ اسلامی تاریخ
کے بعد کے مرحلے میں احادیث گڑھ لی گئی تھیں اور وہ آہستہ آہستہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی طرف منسوب کر دی گئیں"۔ ایف ای پیٹرز اپنی کتاب Islam:
A Guide for Jews and Christians می کہتے ہیں کہ "حدیث کا ایک بڑا حصہ، صحیح یا موضوع، من
گھڑت معلوم ہوتا ہے اور اس بات کا تعین کرنے کے لیے کوئی قابل اعتبار بنیاد نہیں
ہے کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی کون سی روایت، اگر کوئی ہے تو بھی، مستند
ہے"۔ یہاں تک کہ بعض مسلم علماء بھی اس مسئلہ سے پریشان ہیں۔ عبداللہ سعید نے
اپنی کتاب Reading the Quran in the Twenty First Century میں واضح طور پر
لکھا ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعض پہلوؤں کو سمجھنے
یا ابتدائی دور میں کیا ہو رہا تھا، اس کو سمجھنے کے لیے احادیث اور دیگر روایات
پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کی پہلی اور دوسری صدیوں میں احادیث جس سطح پر
احادیث وضع کی گئیں اور پیغمبر اسلام کے سلسلے میں مسلمانوں کی جمع کردہ سیرت کے
مواد سے جڑی مشکلات کے پیش نظر، اس طرح کے مواد کی صداقت کا سوال عصری اسلامی
علماء کے درمیان ایک اہم سوال ہے۔"
ان حالات میں اب سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جو جانکاریاں ہمیں دستیاب ہیں
ہم ان پر کس حد تک یقین کر سکتے ہیں؟ کیا ہم تاریخ کا حصہ رہے محمد کے بارے میں
معتبر ذرائع سے کچھ بھی جان سکتے ہیں؟ پیٹریشیا کرون اور مائیکل کک جیسے اسکالرز
نے اپنی کتاب Hagarism میں یہ لکھا ہے کہ روایتی اسلامی لٹریچر کو مکمل طور پر رد کر
دینا چاہیے کیونکہ یہ اس قدر مندمل ہو چکا ہے کہ ابتدائی اسلام کے بارے میں اس سے
کچھ بھی معلوم نہیں ہو سکتا۔ لیکن بنیادی طور پر اسی طرح کی لٹریچر کے ذریعے ہی
محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی تاریخ کو پوری باریک بینی سے دوبارہ تشکیل دیا گیا
ہے۔
شکر ہے کہ اب علمی حلقوں
میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ قرآن اسلامی تاریخ میں بہت جلد مستحکم
ہو گیا تھا۔ یہاں تک کہ کرون اور کُک جیسے مؤرخین نے بعد میں قبول کیا کہ
"... ہمارا اس بات پر یقین کرنا بالکل معقول ہے کہ قرآن ان الفاظ کا مجموعہ
ہے جو اس نے (پیغمبر محمد) نے اس یقین کے ساتھ کہے کہ وہ ان پر خدا کی طرف سے نازل
ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کتاب میں ان تمام پیغامات کو محفوظ نہ کیا گیا ہو جنہیں
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے وحی قرار دیا تھا، اور وہ اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہے
جس شکل میں یہ ہمارے پاس موجود ہے۔ قرآن آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی موت کے بعد
جمع کیا گیا تھا- اور کتنا عرصہ گزرا یہ بھی متنازعہ فیہ ہے۔ لیکن اس پر شک کرنا
مشکل ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے سب یا ان میں سے بیشتر بیان کر دیا
تھا۔" فریڈ ڈونر نے اپنی کتاب، Muhammad and the
Believers: The Origins of Islam concurs میں لکھا ہے کہ: "ایسا لگتا ہے کہ… ہمارا سابقہ ایک ایسے
قرآن کے ساتھ پڑا ہے جو مغربی عرب میں اس قوم کی زندگی کے ابتدائی مراحل کی
پیداوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کا متن محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی تحریک کے
ابتدائی دور سے تعلق رکھتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مورخ اسے استعمال کر سکتا ہے۔
تاہم، پیغمبر اسلام کی
تاریخ کی تعبیر نو اور ابتدائی اسلامی تاریخ کا سوال اپنی جگہ باقی ہے۔ محمد صلی
اللّٰہ علیہ وسلّم کی شخصیت اور ابتدائی امت مسلمہ کے حوالے سے قرآن میں بہت کم
تفصیلات موجود ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے مشن اور ابتدائی امت مسلمہ کے
بارے میں جو کچھ ہم بھی جانتے ہیں وہ سب سیرت اور احادیث کی کتابوں کے ذریعے ہم تک
پہنچا ہے۔ روایتی اسلامی اصول میں سیرت اور احادیث کی توضیح و تشریح کے ذریعے قرآن
میں موجود خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتا ہے، جو کافی بعد کے زمانے میں مرتب کئے
گئے، اسے تو صرف الٹا استدلال ہی کہا جا سکتا ہے! کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ
کے اوراق میں گم پیغمبر محمد اور ان کی ابتدائی امت اسلامی کی دوبارہ بازیافت کا
امکان ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے؟
English Article: Knowing About the Prophet
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism