مولانا ندیم الواجدی
23 اپریل 2021
صُفَّہ چبوترہ
حضرت ابوہریرہؓ کو اس جگہ
کا ذمہ دار بنا دیا گیا تھا، جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل صفہ کی دعوت
کرنی ہوتی حضرت ابوہریرہؓ کو بلا کر فرماتے پھر وہ اہل صفہ کو لے کر خدمت اقدس میں
حاضر ہوتے۔ (السیرۃ النبویہ الصحیحہ: ۱/۲۵۹)
بعض انصار صحابہؓ بھی صفہ پر قیام کرنے کے لئے آجایا
کرتے تھے، حالاں کہ وہ صاحب حیثیت اور مال دار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے، اور
مدینہ منورہ میں ان کے گھر بھی تھے، مگر وہ لوگ زہد اور فقر و فاقہ کی زندگی
گزارنے کے لئے اہل صفہ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے، اس طرح انہیں دین سیکھنے کے
زیادہ سے زیادہ مواقع بھی میسر آجاتے۔
ایسے انصار صحابہ میں حضرت کعب بن مالک، حضرت حنظلہ بن ابی عامر (غسیل
الملائکہ) حضرت حارثہ بن النعمان رضی اللہ
عنہم أجمعین وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل
ذکر ہیں، (حوالہ سابق)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود اصحابِ صفہ کا خیال
رکھتے تھے، ان کے پاس تشریف لاتے، ان کا حال دریافت کرتے، مریضوں کی عیادت فرماتے،
ان کے پاس تشریف بھی رکھتے، ان کو تسلی دیتے، ان کی اصلاح فرماتے، انہیں قرآن
سکھلاتے، دین کی تعلیم دیتے، ذکر الٰہی اور خوف آخرت کی طرف متوجہ فرماتے، ان
حضرات کے کھانے پینے کا خاص طور پر خیال رکھتے۔
اگر کہیں سے صدقے کی کوئی
چیز آتی تو وہ اصحابِ صفہ کے پاس بھیج دی جاتی۔ آپؐ اس میں سے کچھ بھی تناول نہ فرماتے،
ہاں اگر کوئی چیز ہدیہ میں آتی تو آپؐ خود بھی تناول فرمالیتے اور اس میں اصحاب
صفہ کو بھی شریک فرماتے، کبھی کبھی ازواجِ مطہرات کے حجروں میں بھی ان کو کھانے پر
مدعو کیا جاتا تھا۔ غرضیکہ ان حضرات پر آپ کی پوری توجہ رہا کرتی تھی، حضرت عبد
الرحمان بن أبی بکرؓ فرماتے ہیں کہ اصحاب صفہ غریب اور تنگ دست لوگ تھے۔ ایک
مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو
وہ تیسرے آدمی کو لے جائے، اور جس کے پاس چار کا ہو وہ پانچویں اور چھٹے کو لے کر
جائے ، حضرت ابوبکرؓ اپنے ساتھ تین افراد کو لے کر آجاتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم
دس دس آدمیوں کو لے کر چلے جاتے۔ (صحیح البخاری: ۲/۴۶۰، رقم الحدیث: ۵۶۷، صحیح مسلم: ۱۰/۳۸۳، رقم الحدیث: ۳۸۳۳) اہل صفہ کا آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو اس قدر خیال تھا اور ان کی اتنی فکر تھی کہ ان کی ضرورتوں کے سامنے
دوسری ضرورتیں نظر انداز فرمادیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کچھ جنگی قیدی خدمت اقدس میں
لائے گئے۔ آپﷺ کی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہؓ کو گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے
لئے ایک خادمہ کی ضرورت تھی، وہ اپنے والد گرامی کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض
کیا ابّا جان! مجھے ایک خادمہ کی ضرورت ہے، مجھے معلوم ہوا ہے کہ کچھ قیدی آپ کے
پاس لائے گئے ہیں اگر ان میں سے ایک کو مجھے عنایت فرمادیں۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: بیٹی! خدا کی قسم! میں تمہیں نہیں دے پاؤں گا، کیا میں اہل
صفہ کو بھوکا رہنے دوں، ان پر نہ خرچ کروں، میں ان غلاموں کو فروخت کرکے ان کی
قیمت اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔ (صحیح البخاری: ۱۰/۳۵۳، رقم الحدیث: ۳۵۳)
یہ حضرات ہمہ وقت عبادت
اور حصول علم میں مشغول رہتے، ان حضرات کی غربت کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاس ڈھنگ
کے کپڑے تک نہ ہوتے۔ حضرت ابوہریرہ ؓجو خود بھی اس درس گاہِ صفہ کے مشہور طالب علم
تھے، روایت کرتے ہیں کہ میں نے ستّر اصحاب صفہ کو دیکھا کہ ان کے پاس چادر تک نہ
تھی، صرف تہبند تھا، یا صرف کمبل، وہ اس کو اپنے پورے جسم پر لپیٹ لیا کرتے تھے۔
(صحیح البخاری: ۲/۲۲۴،
رقم الحدیث: ۴۲۳) اہل
مدینہ اپنے باغوں سے کھجور وںکے خوشے لاکر کسی ستون سے لٹکا دیا کرتے تھے، یہی
کھجوریں ان کی خوراک تھیں۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ بعض اوقات میں بھوک کی
وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا تھا، اور کبھی بھوک کی تاب نہ لاکر بے ہوش
بھی ہوجاتاتھا، ان ناگفتنی حالات میں معجزات کا ظہور بھی ہوجاتا۔ حضرت ابوہریرہؓ
ہی اس واقعے کے بھی ناقل ہیں کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالمﷺ کے پاس کہیں سے دودھ کا
ایک پیالہ آیا۔ آپ ﷺنے مجھ سے ارشاد فرمایا: جاؤ اصحاب صفہ کو بلا لاؤ۔ میں دل
میں سوچنے لگا کہ دودھ ہی کتنا ہے جو آپؐ
تمام اصحاب صفہ کو بلا رہے ہیں، بہر حال تعمیل حکم میں سب کو بلا کر لے
آیا، آپؐ نے فرمایا: اب تم یہ دودھ ان
سب کو پلانا شروع کرو۔ میں نے افسردگی کے ساتھ اس حکم کی بھی تعمیل کی۔ میں یہ
پیالہ ایک ایک شخص کے پاس لے کر جاتا اور وہ خوب سیر ہوکر دودھ پیتا۔ اس طرح سب
حضرات نے دودھ پی لیا، تب سرکار دو عالمﷺ
نے ارشاد فرمایا: اے ابوہریرہ! اب میں اور
تم باقی رہ گئے ہیں، بیٹھ جاؤ اور تم بھی پیو، چنانچہ میں نے بھی پیالہ منہ کو
لگالیا اور خوب سیر ہوکر پیا۔ آپ ؐنے فرمایا اور پیو ، میں نے اور پیا، یہاں تک
کہ میرے پیٹ میں بالکل گنجائش نہ رہی۔ اس کے بعد آپؐ نے میرے ہاتھ سے پیالہ لے
لیا اور باقی دودھ آپ نے نوش فرمالیا۔ ( صحیح البخاری۲۰/ ۸۷، رقم الحدیث: ۵۹۷۱)
اصحاب صفہ کی تعداد کم
وبیش ہوتی رہتی تھی، کبھی کبھی یہ حضرات تین سو تک ہوجایا کرتے تھے، ان میں بڑے
بڑے صحابۂ کرامؓ کے نام ہیں، حضرت ابوہریرہؓ جن کی مرویات سب سے زیادہ ہیں، اسی
صفہ کے طالب علم تھے، حضرت ابوذر غفاری، حضرت کعب بن مالک، حضرت واثلہ بن الاسقع،
حضرت سلمان فارسی، حضرت حنظلہ، حضرت حذیفہ بن الیمان، حضرت عبد اللہ بن مسعود،
حضرت صہیب بن سنان رومی، حضرت سالم مولی ابو حذیفہ، حضرت بلال بن رباح، حضرت براء
بن مالک، حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہم أجمعین جیسے مشہور ومعروف صحابۂ
کرام کا شمار اصحاب صفہ میں ہوتا ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ دین کا
بڑا حصہ ان ہی حضرات کی محنتوں سے ہم تک پہنچا ہے، یہ لوگ ہمہ وقت مسجد نبویؐ میں
فروکش رہتے اور جب بھی آپؐ مسجد میں
تشریف لاتے یہ حضرات پروانوں کی طرح آپ کے ارد گرد منڈلانے لگتے، آپؐ کے
ارشاداتِ عالیہ بہ غور سنتے اور انہیں اپنے سینوں میں محفوظ کرلیتے۔
مواخات
مواخات عربی زبان کا لفظ
ہے، جس کے معنی ہیں باہمی اخوت، اوربھائی چارہ، تاریخ اسلام میں اس لفظ کی بڑی
اہمیت ہے، کیوں کہ یہ لفظ ایک ایسے معاشرتی رشتے اور تعلق کی عکاسی کرتا ہے جو
انسانی تاریخ میں نہ اس سے پہلے کبھی وجود میں آیا اور نہ بعد میں اس کی امید کی
جاسکتی ہے، اگر قرآن کریم اس کی تصدیق نہ کرتا اور احادیث رسولؐ میں اس کی تفصیل
نہ ملتی اور کوئی اس رشتے کا ذکر کرتا تو ہم اس کی تصدیق ہی نہ کرتے، کیوں کہ یہ
ہے ہی اس قدر حیرت انگیز اور تعجب خیز، تصور وخیال کی حدود سے ماوراء اور محیر
العقول۔ یہ رشتہ ان لوگوں کے درمیان قائم ہوا جو بالکل اجنبی تھے، نہ ان کا وطن
ایک تھا اور نہ ان میں کوئی قرابت داری تھی، یہ رشتۂ اخوت محض نظری طور پر قائم
نہیں ہوا اور نہ صرف دکھاوے کے لئے بنا، بلکہ حقیقی معنی میں قائم ہوا اور اس لفظ
کے جو تقاضے تھے ان کی مکمل اور عملی تطبیق کے ساتھ قائم ہوا۔
مدینہ منورہ تشریف لانے
کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے مسجد تعمیر کی، کیوں کہ نماز
کی باجماعت ادائیگی کے لئے ترجیحی بنیاد پر اس کی ضرورت تھی، مستقبل میں جو
اجتماعی امور انجام دیئے جانے تھے ان کے لئے بھی ایک بڑی عمارت درکار تھی جس میں
سب لوگ بے تکلفی کے ساتھ جس وقت جی چاہے آسکیں اور جتنی دیر تک چاہیں رہ سکیں، بے
گھر مہاجرین کے لئے قیام، اور نو مسلموں کی تعلیم وتربیت کے لئے بھی ضروری تھا کہ
ایک اقامتی مدرسہ اور ایک عملی تربیت گاہ ہو جہاں وہ چوبیس گھنٹے رہ سکیں، باہر سے
آنے والے مہمانوں کے لئے بھی مخصوص جگہ ہونی ضروری تھی، دور دراز کے قبائل سے
وفود کی آمد جاری تھی ان سے بات چیت کے لئے بھی وسیع عمارت درکار تھی، ضروری
معاملات میں مشاورت کے لئے بھی ایسا ہال ہونا چاہئے تھا جہاں بہت سے لوگ بیٹھ کر
تبادلۂ خیال کرسکیں، ان تمام ضرورتوں کی تکمیل کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے سب سے پہلے مسجد کے لئے جگہ خریدی اور اس پر تعمیر کا سلسلہ شروع فرمادیا،
چند مہینوں میں یہ مسجد مکمل بھی ہوگئی، اس کے بعد مواخات کا وہ قصہ پیش آیا جس
نے مستقبل کے اسلامی معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں اہم رول ادا کیا
ہے۔
اس قصے کا آغاز ہجرت سے
ہوتا ہے، بہت سے مسلمان ہجرت کرکے مدینے پہنچ چکے تھے، انھوں نے اپنا وطن اور اپنا
گھر بار مجبوراً چھوڑا تھا، ان میں بہت سے لوگ وہ تھے جو مکہ مکرمہ میں ذی حیثیت
شمار ہوتے تھے، وہاں ان کے بڑے بڑے گھر تھے، بہترین تجارت تھی، نوکر چاکر تھے، مال
ودولت کی فراوانی تھی۔ چونکہ چھپ چھپا کر نکلے تھے اس لئے سب کچھ چھوڑ کر آئے
تھے، یہاں آئے تو خالی ہاتھ تھے، نہ گھر تھا، نہ تجارت ومعیشت کے وسائل تھے، نہ
پیسہ تھا، جو تھوڑا بہت پیسہ ساتھ لائے تھے وہ خرچ ہوچکا تھا، بہت سے مہاجرین شدید
معاشی مشکلات سے دوچار تھے، اپنا محبوب وطن چھوڑ کر آئے تھے، اس لئے دل وہیں پڑا
ہوا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ انہیں یثرب کے وبائی مرض بخار نے آلیا، اکثر مہاجرین اور
ان کے اہل وعیال اس بخار میں مبتلا ہوگئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا
فرمائی کہ اے اللہ! مدینے کو بھی تو ہمارے لئے مکے کی طرح محبوب بنا دے، پھر یہ
دُعا فرمائی کہ اے رب کریم! یثرب کے اس بخار کو وادیِ جُحفہ میں منتقل فرمادے۔
دونوں دُعائیں قبول ہوئیں، لوگوں کو بیماری سے شفا نصیب ہوئی، آہستہ آہستہ ان کا
دل بھی لگنے لگا، اقتصادی مشکلات اپنی جگہ تھیں، مدینہ منورہ بہت زیادہ بڑا شہر
نہیں تھا، وہاں کی آبادی بھی بہت زیادہ نہیں تھی، آبادی کے لحاظ سے چھوٹے موٹے
بازار تھے، تجارتی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر نہیں تھیں، اور نہ ان میں فوری طور پر
کسی اضافے کی توقع تھی، یہاں کے لوگوں کی معیشت کا دارو مدار زراعت پر تھا، جو لوگ
ہجرت کرکے آئے تھے وہ تجارت پیشہ تھے، انہیں زراعت کا کوئی تجربہ نہیں تھا، مدینہ
منورہ کے بہت سے لوگ کھیتوںوغیرہ میں مزدوری بھی کیا کرتے تھے، آنے والوں کو
مزدوری سے بھی کبھی سابقہ نہ پڑا تھا، ایک طرح سے وہ سنگین اقتصادی بحران میں
مبتلا ہوگئے تھے، مدینہ منورہ کے فیاض باشندوں نے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ
اٹھا رکھی، ان کے ہر گھر میں مہاجرین قیام پزیر تھے، ان کا کھانا پینا بھی صاحب
خانہ کے ساتھ تھا، پانچ چھ ماہ اسی طرح گزر گئے۔(جاری)
23 اپریل 2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/prophet-companions-safa-part-29-----/d/124734
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism