امتیاز سرمد
18 مئی،2025
جس عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں، اس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اپنے کام کو بہتر بنانے کے لیے لازمی تصور کیا جارہا ہے۔آج کا دور انفارمیشن کا دور ہے۔ اس دور میں انٹرنیٹ کی موجودگی قوموں، اداروں اور افراد کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ انٹر نیٹ نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے انسانی معاشرے میں ابلاغ کے ایک بالکل نئے باب کا اضافہ ہواہے۔ ابلاغ کے اس نئے زاویے سے دنیا کے ایک کنارے پر بیٹھا شخص دنیا کے دوسرے کنارے پر رہنے والے شخص دنیا سے ہم کلام ہونے لگا ہے۔ ٹیکنالوجی کی اس انقلابی دنیا کو سائبر اسپیس کا نام دیا گیا ہے۔ زبان اور ادب کا تعلق اسی معاشرہ سے ہے او ران پر بھی اس تبدیلی کا موجودہ دور میں ویسا ہی اثر ہوا ہے جیسا کہ زندگی کے دوسرے شعبوں پر ہوا ہے۔اردو صرف ایک زبان کا نام نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے، اس تہذیب کا جس کے ہم پروردہ ہیں اورجس کی آبیاری نہ صرف ہمارے بزرگوں نے کی بلکہ آج کی نسل بھی اس کی ترقی وبقا کے لیے متحرک ہے۔ اس کے فروغ میں ماضی کی کاوشوں کے ساتھ عصرحاضر کی جدوجہد بھی لائق ستائش ہے۔ اردو کے تحفظ او ربقا کے لیے کسی نہ کسی طرح ہرزمانے میں پے درپے کوششیں ہوئی ہیں او رہوتی رہیں گی۔کیونکہ ہماری زبان میں ردوقبول کی صلاحیت موجود ہے۔ او ریہی وصف اسے آج بھی زندہ وتابندہ کیے ہوئے ہے۔ اردوزبان نے خوشگوار تبدیلیوں کا تو ہمیشہ خیر مقدم کیا مگر اپنی پرانی شناخت کو کسی بھی طرح معدوم نہ ہونے دیا۔ اسی سبب اس کے ارتقا کے امکانات روشن ہوتے گئے۔
آج اردو کی نئی بستیاں آباد ہوتی جارہی ہیں۔ ان خطوں میں اردو نہ صرف بولی جا رہی ہے بلکہ وہاں سے اردو میں اخبارات ورسائل،شعری او رنثری مجموعے بھی شائع ہورہے ہیں۔ گویا اردو کی یہ نئی بستیاں بھی اردو زبان وادب کی ترویج وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔اردو کے تئیں ان کی سنجیدگی اوردلچسپی نیک فال اورلائق تحسین ہے۔ اردو کی اسی بڑھتی مقبولیت نے اس ممالک میں نئی نسل میں اردو سے متعلق دلچسپی پیداکردی ہے۔ یہ اردو زبان کے دوررس اثرات ہی تو ہیں کہ میر وغالب کے اشعار نے غیر ملکیوں کو بھی اپنی طرف مائل کیا ہے۔ جب کبھی کسی غیر اردو داں سے ہم اردو شعر ا کے کلام سنتے ہیں تو فخر وانبساط سے سرشار ہوجاتے ہیں۔ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں انگریزی کے بعدجس زبان نے وسیع ترعلاقوں میں ہجرت کی ہے، وہ اردوزبان ہے۔
ہر زمانے میں اس زمانے کے تقاضے کے مطابق ادباء شعرا زبان وادب کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔اس کے فرو غ کے آپسی اختلاط کے ساتھ سائنسی ایجادات بھی اثر انداز ہوئی ہیں۔ سائنسی ایجادات کا حیرت انگیز کرشمہ کمپیوٹر ہے۔ سائنسی ایجادات نے نہ صرف ہماری زندگی کو سہل بنادیا ہے بلکہ بے شمارفوائد بخشتے ہوئے ہماری قیمتی وقت کوبھی ضائع ہونے سے بچالیا ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کا انقلاب جب رونما ہوا تو اس نے ہمیں کمپیوٹر اورانٹر نیٹ سے وابستہ کردیا۔ اس سہولت نے جہاں ہمیں فائدہ پہنچایا وہیں اس سے نقصانات کے اندیشے بھی جڑ پکڑ نے لگے تھے۔مثلاً کمپیوٹر کے رواج نے خطوط نویسی کے چلن کوبہت زیادہ متاثر کردیا تھا۔ کچھ حد تک تو یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اس کی شاندار روایت بالکل اٹھ ہی چکی تھی۔ مگر آج بلاگ پوسٹ کی شکل میں لوگ ایک ساتھ دنیا کے کسی بھی کونے سے تاثراتی،علمی وادبی مذاکرات او رمباحثے میں شامل ہورہے ہیں۔ پیغامات کی ترسیل ای میل کی مدد سے پلک جھپکتے ہی ہوجارہی ہے۔ان روشن پہلوؤں کے اعتراف سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔ موجودہ دور میں کمپیوٹر، ٹیلی فون ایسے ذرائع ابلاغ میں جنہوں نے ٹکنالوجی کی دنیا میں ہلچل مچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔کمپیوٹر کے بعد لیپ ٹاپ،اور موبائل فون سائنسی ایجادات کے ایسے کرشمے ہیں جنہوں نے تصورات کو حقیقت کی شکل دے کر لفظ ’ناممکن‘ کو ہمارے تخیل کے پردے ہی محوکردیا ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی نے ترقی کرتے ہوئے دنیا کے فاصلے سمیٹ دیے ہیں اور ہم گلوبل ویلیج کی اصطلاح استعمال کرنے پرمجبور ہوگئے ہیں۔ پھر جلد ہی اس نے ترقی کے ایک اور زینے کوعبور کیا جسے الیکٹرانک عہد سے تعبیر کیا گیا۔ یہیں سے ڈیجیٹل عہد کاتصور ابھرا او راب ہم سائبرایج میں جی رہے ہیں۔
کمپیوٹر کی سہولتوں سے اردودالوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔ پھر کیا تھا جلد ہی اردو کا یونی کو ڈ سسٹم تیا رکیا گیا۔ جس کے سبب کسی بھی گیجٹ (Gadget) میں اردو زبان کا استعمال سہل ہوگیا۔ اور اب تو ایسے ایسے سافٹ ویئر بھی ایجاد کرلیے گئے ہیں، جن کی مدد سے خوبصورت فونٹس میں اردو کی کتابیں شائع ہورہی ہیں۔ کمپیوٹر او رانٹر نیٹ آج ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ بن چکے ہیں۔ اب ان کے بغیر زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں۔لمحے بھر میں انگلیوں کی ایک ٹچ سے مطلوبہ تفصیل ومعلومات، مواد کے ترجمے، پیغامات کی ترسیل، آن لائن ایڈیٹنگ، آن لائن ریڈنگ، غرض کہ ہر اہم اور غیر اہم معلومات کی مکمل تحصیل،جدید ٹکنالوجی کا بہا عطیہ ہے۔ اس دور میں بھی اردو کا سفر کہیں تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس دور میں بھی اردو نے اس جدت پسندی سے ہم آہنگی پیداکرلی ہے۔اردو کی ترقی اس بات میں بھی مضمر ہے کہ اس نے ذرائع ابلاغ کا وسیلہ بننے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہ کی۔اردو کو زندہ رکھنے کیلئے اردو کی بیشتر کتابوں کو آن لائن اپلوڈ کردیا گیا، آن لائن ریڈنگ،آن لائن لائبریری وغیرہ کی سہولتیں میسر کرائی گئیں۔ اب توگھر بیٹھے آن لائن ٹیوٹرکی مدد سے اردو سیکھنے کارواج بھی عام او رمقبول ہوچکاہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت مشاہیر ادب کی کمیات اور نایاب کتابوں کو نہ صرف ہم دیکھ سکتے ہیں بلکہ پڑھ سکتے ہیں۔ ٹکنالوجی کا یہ دوراردو کے فروغ میں بڑا ہی سود مند ثابت ہوا ہے۔ ایسی صورت میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو کو جدید ٹکنالوجی نے بیش بہا فائدے پہنچا ئے اور یہ اس کی ترویج واشاعت میں کلیدی حیثیت کی حا مل بن چکی ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت نے عالمی طور پر اردو کے فروغ اور اس کی جڑو ں کو مضبوط کرنے میں معاونت کی ہے۔ اب تو بین الاقوامی سطح پر مشاعرے، مذاکرے وغیرہ آن لائن ہورہے ہیں جن سے عالمی سطح پر ترسیلی فاصلے مٹ رہے ہیں۔
اردو زبان کے متعلق ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ اردو صرف شاعر کی زبان ہے، اب کی زبان ہے لیکن حقیقتاً اردو میں میں ہر قسم کے علوم وفنون سے متعلق مواد ومعلومات کاذخیرہ موجود ہے۔جدید تر اصطلاحات کی بھی کمی نہیں او راردو کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی کم نہیں ہیں۔غرض کہ اردو زبان میں وہ علمی اور فکری سرمایہ موجود ہے جس کی بدولت ہم اس عالمی گانوں میں جی سکتے ہیں اور ان طاقتوں کو اپنی گرفت میں لاسکتے ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی لسانی پسماندگی کا ازالہ کرسکیں۔ وہ دن گئے جب اردو میں صرف گل وبلبل کے قصے ہوا کرتے تھے، غم عشق اور غم روزگار کا تذکرہ لکھا جاتا تھا۔ آج اردو کمپیوٹر کی زبان بن چکی ہے۔ اس میں سائنس،تاریخ، فلسفہ، نفسیات، سیاسیات، معاشیات، غرض کہ تمام علمی خزینے موجود ہیں۔ اس لیے نئی نسل کو، جواردو سے بیگانہ ہوتی جارہی ہے، اس کو اردو کی تعلیم سے وابستہ کرنے کی ہرممکن کوشش کی جائے اور اگر ہماری یہ کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں تو پھر اردو کا حال تابناک رہے گا او رمستقبل بھی قابل فخر ثابت ہوگا۔
اردوزبان ے متعلق کبھی یہ پیشنگوئی کی گئی تھی کہ مستقبل میں ہم اردو میں Tweet کرسکیں گے اور Facebookپر بھی اردو کا چلن عام ہوگا۔ اب یہ قیاس حقیقت میں تبدیل ہوچکا ہے۔آج اردو نہ صرف فیس بک او رٹوئیٹر کی زبان بن گئی ہے بلکہ بیشتر ایپلی کیشنز میں بھی بحیثیت فنکشنل لنگویج کام کررہی ہے۔ اردو عالمی طور پر اپنی حیثیت منواکراپنے حلقہ اثر کو طویل سے طویل ترکررہی ہے۔ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ اب اردو کے بیشتر اخبارات، جرائد اور رسائل کے اہم شمارے بہ آسانی انٹر نیٹ پرموجود ہیں۔ یعنی اب پرنٹ میڈیا بھی الیکٹرانک میڈیا کا حصہ بن گئی ہے۔ اردوزبان کو انٹرنیٹ کی سہولتوں سے دور، دور تک پہنچانے میں ریختہ ڈاٹ آرگ کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اس نے قدما کی نثری وشعری تصنیفات کو ای۔بک کی شکل میں اپ لوڈ کرکے اردو کے چاہنے والوں کے لیے زندہ جاوید کردیا ہے۔ اردو کے حوالے سے اور بھی ویب سائٹ ہیں، لیکن ریختہ ان معنوں میں انفرادیت کا حامل ہے کہ اس سائٹ پر قدیم وجدید شعرا کی تخلیقات، ان کے حالات، ان کی ویڈیوز تک دستیاب ہیں۔یعنی یہاں تشنگان شعر وادب کی سیرابی کے تمام لوازمات مہیا کردیے گئے ہیں۔ اس ویب سائٹ نے اردو کو غیر اردوداں حلقے میں پہنچانے کی خاطر تین زبانوں کی سہولت بھی دے رکھی ہے مثلاً اردو، انگریزی اور اہم، کمیاب اور نادر کتابیں ریختہ پر اب لوڈ ہوچکی ہیں، بقیہ اپ لوڈ کے مرحلے میں ہیں۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا نے بھی اردو زبان کی ترویج میں ہر ز مانے میں معاونت کی جس کے سبب ہمیں ترسیل کے بڑے اہم ذرائع ریڈیو، ٹی وی اور فلم کی شکل میں ملے۔ برقی وسائل کی مدد سے اپنے مقاصد کی تکمیل کے یہ سب سے دلچسپ ذرائع ثابت ہوئے۔ ریڈیو عالمی طور پہ ذرائع ابلاغ کا سب سے قدیم وسیلہ ہے، جو اپنی مقبولیت کے سبب جلد ہی گھر گھر پہنچ گیا تھا۔ابتدا میں چونکہ ملک میں اردو کا زور تھا لہٰذا اردو زبان میں تمام پروگرام نشرہوتے مگر زمانے کی تبدیلی کے سبب لسانی عصبیت نے اس شعبے کو بھی متاثر کیا۔ ٹی وی کی ایجاد نے بہت حد تک یہ تشویش پیدا کردی تھی کہ اب بس ریڈیو کا دور ختم ہی ہوجائے گا لیکن ریڈیو نے بھی زمانے کا ساتھ دینے کی ٹھانی اور اس کے تقاضو ں سے خود کو ہم آہنگ کرکے ایف۔ایم کی شکل میں ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی۔ایک بار پھر اس کا نشہ چڑھ کربولنے لگا۔ آج بھی اس کا خمار کچھ کم نہیں۔ اس کی اہم اور خاص بات یہ ہے کہ یہاں چونکہ لہجے کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے لہٰذا لفظوں کے صحیح تلفظ او رکم سے کم جملوں میں اپنے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے، اس لیے اردو کا کثرت سے یہاں استعمال ہوتاہے۔ خاص بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بیشتر ریاستوں میں اردو کے الگ الگ پروگرام بھی نشر کیے جاتے ہیں۔ اب تو ریڈیو کے ایسے ایپ بھی دستیاب ہیں جن کی مدد سے دنیا کے کسی بھی کونے میں نشر ہونے والے پروگرام کو ہم آسانی سے سن سکتے ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ رابطے کے اس ذریعے کو بھی اردو سے ہی توانائی حاصل ہے۔ اردو زبان میں نشریات کے سبب اردو کا فروغ اور تحفظ دونوں حقیقت بن چکے ہیں۔
انٹرنیٹ کی آمد سے نہ صرف عالمی طور پر اردو زبان کی اشاعت ہوئی بلکہ اس کی شناخت بھی قائم ہوئی۔ آج دنیا کی آبادی کاایک بڑاحصہ اردو زبان اوراس کے اشعار سے محفوظ ہورہا ہے۔ اردو رسم الحظ کے حوالے سے یہ تشویش بھی ظاہر کی گئی کہ اب ا س کا چلن بھی ختم ہوجائے گا، لیکن ایسا کہنا غلط ہے کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگ اردو رسم الحظ میں اپنے مقاصدکی تحصیل کے ساتھ ساتھ دوسری زبان میں اس کے تراجم بھی پوسٹ کردیتے ہیں۔ اس سے اردو نہ صرف اپنوں میں مقبول ہورہی ہے بلکہ غیر اردو داں بھی اس کی طرف مائل ہورہے ہیں۔گلوبل ویلیج، سائبر اسپیس یہ سب اس وسیلے کی دین ہیں۔سمٹتے ہوئے فاصلوں نے قاری او رادب کو ایک دوسرے سے اتنا قریب کردیا ہے کہ زبان کی ترقی کو مضبوط پنکھ لگ گئے ہیں۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر یہ کہا جاسکتاہے کہ عصری تناظر میں اردو زبان اپنی ممکنہ جہات تک پہنچ چکی ہے۔ ان جہات کا سفر کافی پرپیچ تھا، دشوار ترین مراحل او رناہموار یوں کو پاٹتے ہوئے،عصری تقاضوں سے ہم آہنگی برتتے ہوئے ہماری زبان آج دنیا کے گوشے گوشے میں نہ صرف شان سے سانس لے رہی ہے، بلکہ اشاعتی سلسلے سے اپنی تابندگی کاثبوت بھی فراہم کررہی ہے۔آ ج پوری دنیا میں کیا اردوداں اور کیا غیر اردوداں،سب ہی اس سے مستفیض ہورہے ہیں۔ عالمی منظر نامے میں اردو کی صورت حال خوش گوار ہے جس سے اس کی ترقی اور تحفظ کے امکانات روشن ہیں۔
---------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/promotion-urdu-language-literature-cyber-age/d/135594
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism