New Age Islam
Mon May 19 2025, 11:26 PM

Urdu Section ( 19 March 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Promotion of Ethics: An Inevitable Need of the Present Era اخلاقیات کا فروغ عہد حاضر کی ناگزیر ضرورت

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

19 مارچ 2025

 معاشرے کو پاکیزہ ، مہذب اور زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے اخلاقیات کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے ۔ اچھے اخلاق والا فرد و معاشرہ دوسروں کے لیے آئیڈیل اور نمونہ ہوتا ہے ۔ جو معاشرے اخلاقیات کے زیور سے آراستہ ہوتے ہیں وہ بڑے خوش نصیب اور قابل قدر ہیں ۔ ان  کے وجود سے سماج میں  یکجہتی پیدا ہوتی ہے ، بدامنی اور کشیدگی کا خاتمہ ہوتا ہے۔  ان کی فکر و سوچ میں توازن ہوتا ہے ۔ معاشرتی مسائل میں ان کا رویہ اور کردار مثبت ہوتا ہے ۔ برعکس اس کے جن معاشروں میں تہذیب و تمدن اور اخلاقیات کا فقدان ہوتا ہے تو وہ بدامنی اور کشیدگی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے معاشرے اور افراد ، سوچ وفکر میں توازن قائم نہیں رکھ  پاتے ہیں ، جس کی وجہ سے نوع بنوع کے سماجی و دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کا وجود سماج میں بوجھ ہو جاتا ہے ۔ اس لیے معاشرے میں اخلاقی قدروں کو فروغ دینا نہایت ضروری ہے ۔

اخلاقیات کے فقدان سے معاشرے پر جس طرح کے نتائج اور اثرات مرتب ہورہے ہیں وہ بڑے ہی مایوس کن ہیں ۔  یہ بھی مبنی بر حقیقت ہے کہ اخلاقیات کا فقدان سماج کے تمام طبقات اور تمام عمر کے افراد میں نظر آتا ہے ۔ نوجوانوں اور بچوں میں یہ مکروہ عمل زیادہ  دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ بچوں کی عادتیں اس قدر خراب ہو رہی ہیں کہ وہ اپنے بڑوں  کا احترام نہیں کرتے ،یا ان کے مزاج میں خود غرضی پیدا ہورہی ہے ،تو اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں جن لوگوں سے بچوں کا واسطہ پڑتا ہے وہ انہیں کہیں نہ کہیں خود غرض اور مفاد پرست پاتے ہیں۔ بسا اوقات یہ عادتیں وہ اپنے والدین یا گھر خاندان کے لوگوں میں بھی دیکھتے ہیں ،جس کی وجہ سے ان کے مزاج میں ترشی اور انسانیت کا جذبہ سرد ہونے لگتا ہے اور بد اخلاقی کے شکار ہو جاتے ہیں ۔

اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ آج کا سب سے بڑا المیہ اخلاقی اور تہذیبی اقدار و روایات کا تیزی سے پامال ہونا ہے ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ اخلاقیات بہت تیزی سے روبہ زوال ہیں ۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارا معاشرہ  حسن اخلاق  کا  مظہر تھا ۔ روح اور مزاج میں حسن کردار نظر آتا تھا ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ سب چیزیں عنقاء ہوگئیں ہیں ۔ بڑی تیزی سے معاشرتی قدریں بدل گئیں ، احترام و توقیر کا چلن ختم ہو رہا ہے، تو وہیں شفقت و محبت بھی نظر نہیں آتی ہے ۔ تہذیب و تمدن کی تمام حساس روایتیں اور ان کا چلن اب بہت دور کی بات لگتی ہے ۔ ہر طبقہ اپنے آپ میں خوش نظر آتا ہے ، پڑوس کی فکر ہے اور نہ کسی غریب و نادار کا دکھ درد متاثر کررہا ہے ، عجیب و غریب کیفیت ہے ۔جسے دیکھو وہ اپنی دھن میں مست ہے ۔

سچ بات تو یہ ہے کہ آج جہاں بھی دینی سرگرمیاں پائی جارہی ہیں، یا معاشرے کے کچھ افراد دینی امور و تعلیمات میں ملوث ہیں وہ سماجی دباؤ یا روایتی انداز میں اس طرح کی سرگرمیوں کو انجام دے رہے ہیں ۔

بد اخلاقی کے بہت سارے پہلو اور گوشے ہیں ان میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم راستوں میں آنے جانے والے لوگوں کو آزار پہنچاتے ہیں اور ہم اس کا قطعی طور پر احساس بھی نہیں کرتے ہیں ۔ سوچیے کہ اگر کہیں روڈ پر گاڑی کھڑی کرنی ہو تو اس طرح سے کھڑی کرتے ہیں کہ دوسرا کوئی اپنی گاڑی کھڑی نہ کرسکے اور جو گاڑیاں پہلے سے کھڑی ہیں ان کو نکالنا دوبھر ہو جائے ۔ اسی طرح سرکاری محکموں اور شعبوں میں زیادہ تر ایسے افراد ہیں جو آئے دن بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ۔ بد اخلاقی یہی نہیں ہے کہ سامنے والے شخص کی توہین کردی جائے بلکہ بد اخلاقی یہ بھی ہے کہ اگر کسی کا جائز کام ہے اور اسے وقت پر نہ کیا جائے بلکہ طرح طرح کے بہانے بنا کر دوچار دن ٹال دیا جائے ۔ تصور کیجیے اس دوران اسے جو آزار اور تکلیف ہوگی وہ یقیناً ناقابل بیان ہے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سرکاری محکموں اور شعبہ جات میں اس برائی یا بد اخلاقی کو برائی نہیں سمجھا جاتاہے ۔ حتیٰ کہ بعض  افسران تو ایسے لوگوں کی توثیق و تعریف کرتے ہیں ۔ یاد رکھیے! جو معاشرہ انسانیت کے درد اور قومی ہمدردی سے خالی ہوگا ایسے معاشرے کو کبھی بھی حساس معاشروں میں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔  اگر ہم چاہتے ہیں کہ آگے بڑھیں ، سماج میں باہم احترام و توقیر کا چلن عام ہو تو لازم ہے کہ بد اخلاقی کے آج جتنے بھی مظاہر معاشرے میں رائج ہیں ان سب کا قلع قمع کرنا ہوگا۔

ہر شخص  کو چاہیے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے اور پھر اپنے اعمال و افعال، اسی طرح یومیہ زندگی کا محاسبہ کرے ،کہیں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ایسی غلطی سرزد تو نہیں ہورہی جس کا تعلق بد اخلاقی سے ہے ۔

عموماً یہ بات کہی جاتی ہے کہ فلاں جگہ کا ماحول صحیح نہیں ہے، ماحول خراب ہے، تو اس بابت یہ عرض کردوں کہ نہ کوئی جگہ خراب ہوتی ہے اور نہ کوئی معاشرہ خراب، ہمارے رویے اور کردار کی وجہ سے کسی معاشرے پر منفی یا مثبت صفت سے وابستہ کیا جاتاہے ۔ چاہیں تو ہم اپنے کردار و گفتار اور عمل وفعل سے اس معاشرے کو جنت نشاں بنادیں، اور چاہیں تو جہنم بنادیں، ہمارے اچھے یا برے رویوں سے ہی کوئی سماج  اچھائی یا برائی کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے ۔

ذرا یہ بھی سوچیے کہ معاشرے میں آج جس تیزی سے نوجوانوں اور بچوں میں خود غرضی کا رجحان بڑھ رہا ہے کسی بھی تکثیری اور حساس معاشرے کے لیے مفید نہیں ہے ۔ آج ہم اپنے بچوں اور جوانوں کی غیر سنجیدہ حرکتوں پر خوش ہورہے ہیں، اور ان کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی سعی کی جا رہی، یا ان کی حمایت میں مظاہرے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود اپنی قوم و ملت کے تابناک مستقبل اور ان نوجوانوں کی شفاف زندگی کو تباہ و برباد کررہے ہیں ۔ یہ سب ہم تعصب اور قوم پرستی  کے نام پر کر رہے ہیں مگر سماج میں اس کے جو منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں وہ بڑے مایوس کن ہیں ۔ اخلاقیات اور انسان دوستی یا پھر بالفاظ دیگر حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ جب بھی معاشرے کا کوئی فرد خواہ اس کا تعلق کسی بھی دین و دھرم ، ذات و رنگ اور زبان و ثقافت سے ہو، جب وہ کسی گناہ کا ارتکاب کرے تو فوراً اس کی مذمت کی جائے ، اسے صحیح فکر اور درست نظریہ کی تعلیم دی جائے ۔ تاکہ وہ آگے کوئی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کرسکے جس سے کہ معاشرہ کا امن و امان غارت ہو، یا پھر اس کی زندگی میں داغ لگ جائے ۔

 سچ بات یہ ہے کہ اخلاقی اقدار کے فروغ اور تعمیری روایات و نظریات کی ترویج و اشاعت سے ہی تمام عصری تحدیات کا مثبت انداز میں مقابلہ کیا جا سکتا ہے یا یوں کہیں کہ ایک ایسا سماج تشکیل دیا جاسکتا ہے جو تمام تر خوبیوں، اچھائیوں ، عدل و انصاف ، فطرت و رواداری کا آئینہ دار ہوگا ۔

اسی کے ساتھ یہ درست ہے کہ جب معاشرے میں اخلاقیات کے بقا وتحفظ کے لیے سعی کی جائے گی تو یقینی طور پر اس کا مثبت اور مؤثر پہلو معاشرے میں بھی نظر آئے گا ۔ جو کہ ہمارے نوجوانوں ، بچوں اور معاشرے کے تمام افراد و اشخاص کے لیے مفید ثابت ہوگا ۔ گویا اخلاقیات کا کوئی بھی پہلو ہو ، یا اس کا تعلق کسی بھی شعبہ حیات سے ہو،اگر صحیح معنوں میں ہم جملہ اخلاقی قدروں کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیں تو یقینی طور پر ہم نہ صرف اپنے گھر، خاندان ، قوم و ملت اور ملک و وطن کے سچے  وفادار اور مخلص ثابت ہوں گے ۔ زندگی کے تمام شعبوں میں  تہذیبی تنوع کے ساتھ  اخلاقی اقدار کو زندہ کرنے اور ان اقدار کی اتباع کرنے کی دعوت دینا عہد حاضر کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔

--------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/promotion-ethics-inevitable-present-era/d/134919

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..