پروفیسر شہزاد انجم
15 فروری، 2015
مرزا اسد اللہ خاں غالب کی شاعرانہ عظمت اور ان کی حد درجہ مقبولیت کے کیا راز ہیں؟کیا واقعی غالب کے غزلوں میں جذبات اور عقلیت کا مکمل امتزاج ہے؟ کیا وہ دل ودماغ سے کام لیتا ہے او رہمیں تھکا دینے والے احساس سے محفوظ رکھتا ہے ؟ کیا واقعی بقول بجنوری یہ ایک الہامی کتاب ہے ؟ کیا واقعی مرزا غالب کے لیے شاعری موسیقی اور موسیقی شاعری ہے، کیا واقعی غالب کے الفاظ لعل و جواہر سے گراں ہیں، کیا واقعی مرزا غالب کا فلسفۂ حیات ابن رشد کے مشابہ ہے، کیا واقعی وہ گلشنِ نا آفریدہ ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جس نے ہمیشہ ادیبوں، شاعروں اور نقادوں کو پریشان کیا ہے۔ غالب اپنی زندگی میں ہی Legendl بن چکے تھے ۔ ان کی شاعرانہ عظمت کے سبھی قائل تھے ۔
ان کے انتقال کے بعد حالی کا ‘‘مرثیہ غالب’’ اور سوانح ‘‘یاد گار غالب’’ نے کچھ ایسا سماں باندھا کہ تب سے اب تک غالب شناسی ، غالب فہمی، غالب تنقید اور غالب تحقیق کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ غالب کی افہام و تفہیم کے حوالے سے اب تک حالی کے علاوہ عبدالرحمٰن بجنوری ، نظم طبا طبائی ، بیخود دہلوی ، سہا مجددی ،حسرت موہانی ، خلیفہ عبدالحکیم ، نیاز فتح پوری، آل احمد سرور، مولانا امتیاز علی خاں عرشی، خورشید الاسلام ، مجنوں گورکھپوری ، کالیداس گپتا رضا، شمس الرحمٰن فاروقی نے غالب کو اپنے اپنے طور پر پڑھنے اور معنی اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی سلسلے کی ایک اہم کتاب پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ‘‘غالب: معنی آفریں ، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات ’’ گذشتہ دنوں شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے منظرِ عام پر آتے ہیں اس کی شہرت چار دانگ پھیل گئی ۔
ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیارقیب آخر، تھا جو راز داں اپنا
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے
انتظار حسین نے اس کتاب کو ‘‘غالب کی ایک یکسر نئی تعبیر’’ تسلیم کیا ہے تو افتخار عارف اس کو ‘‘غالیبات میں ایک مہتم بالشان اضافہ، قرار دیتے ہیں۔ ساقی فاروقی اسے ‘‘غضب کی کتاب ’’ بتاتے ہیں تو سعید نقوی اسے جرعہ، جرعہ پیتےہیں ۔ ابوالکلام قاسمی اسلوب ،فکری رویے اور فنی طریق کار کی اس نوع کی تفہیم پر پروفیسر نارنگ کو مبارکباد پیش کرتےہیں تو بقول بیگ احساس، اس کتاب کی اشاعت نےغالب فہمی کا ایک نیا دور وَاکیا ہے او راسے غالب شناسی میں ایک اہم اضافہ قرار دیا ہے ۔ انور سن رائے نے لکھا ہے ‘‘کتاب سے دل و دماغ روشن ہوگیا ’’۔
گذشتہ چند برسوں میں ادبی نظریہ سازی کے میدان میں پروفیسر نارنگ نے جو علمی و تنقیدی کا ر نامے انجام دیئے ہیں وہ سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ اردو غزل اور ہندوستانی تہذیب ، ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری، ترقی پسند جدیدیت ما بعد جدیدیت ، جدیدیت کے بعد، اردو زبان اور لسانیات ، فکشن شعریات:تشکیل و تنقید، کاغذِآتش زدہ، تپش نامۂ تمنا، اور پھر غالب : معنی آفرینی ، جدلیاتی وضع ، شونیتا اور شعریات وہ تنقیدی اور بصیرت افروز کتابیں ہیں جن پر گفتگو کرنے کے لیے ہر کتاب کے لیے الگ الگ مضمون کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری کتابیں نظر کشا اور اپنے موضوعات پر مکمل اور بھر پور ہیں ۔ ادبی تنقید اورنظریہ ساری کے حوالے سے ان کتابوں کی نوعیت ، رجحان ساز اور عہد ساز کی ہیں۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ کی شاہ کار تصنیف غالب : معنی آفرینی، جدلیاتی وضع اور شعریات ،بھی اِن دنوں موضوع بحث ہے۔ اردو میں ‘یاد گار غالب’ سے اب تک بلاشبہ سیکڑوں کتابیں غالب کی افہام و تفہیم کے حوالے سے منظر عام پر آچکی ہیں۔ گوپی چند نارنگ کے مطالعے اور فکر کا انداز و طریقہ کار مختلف ہے۔ اس کتاب کو پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بارہ درج ذیل ابواب میں منقسم کر کے غالب کو عصری تناظر میں نئی فکر یات کے ساتھ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ وہ ابواب درج ذیل ہیں:
1۔ حالی، یادگارِ غالب اور ہم
2۔ بجنوری ،دیوان غالب اور وید مقدس
3۔ دانش ہند اور جدلیات نفی
4۔ بودھی فکر اور شونیتا
5۔ سبک ہندی کی روایت اور زیر زمین تخلیقی جڑیں
6۔ بیدی، غالب، عرفان اور دانش ہندی
7۔ اوراقِ یژ مردہ، واردات اور دل گداختہ
8۔ روایت اوّل بخطِ غالب، معنی آفرینی اور جدلیاتی افتاد
9۔ روایت دوم مشمولہ نسخۂ حمیدیہ ،معنی آفرینی اور جدلیاتی افتاد
10۔ متداول دیوان، معنی آفرینی اور جدلیاتی افتاد
11۔جدلیاتی وضع ، شونیتا اور شعریات
12 شخصیت ، شوخی و ظرافت ، آزاد خیالی اور جدلیاتی افتاد و مزاج گوپی چند نارنگ کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں :
‘‘ غالب کے متن کی تعبیر یں وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہیں ۔ بجنوری کا غالب وہ نہیں ہے جسے حالی نے پڑھا تھا اور حالی کا غالب وہ نہیں جسے طباطبائی ،بیخود دہلوی ،سہا مجددی، حسرت موہانی ،نیاز فتح پوری یا شیخ اکرام نے پڑھا۔ اور تو اور خورشید الاسلام ، پری گارنا ، وارث کرمانی کا غالب بھی وہ نہیں جو کلیم الدین احمد ، احتشام حسین، آل احمد سرور، ظ۔ انصاری، باقر مہدی یا شمس الرحمن فاروقی کا ہے۔ گویا ہر شخص نے اپنے اپنے غالب کو پڑھا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک شارح دوسرے سے اتفاق نہیں کرتا۔ جیسے کلا یکیت پرستوں یا رومانیت کے شیدائیوں کو اپنے اپنے غالب مل گئے تھے، ترقی پسندوں اور جدیدیت والوں نے بھی غالب کی اپنی اپنی تعبیریں وضع کرلی تھیں ۔ ان میں کوئی تعبیر غیر منصفانہ یا بے جواز نہیں تھی، اس لیے کہ غالب کے متن کی معنیاتی ساخت اور جدلیاتی وضع مستقبل کی تعبیروں اور باز قرأت کے امکانات کومسدور نہیں کرتی ۔ غالب نے خود کو عندلیب گلشن نا آفریدہ کہا تھا ۔ چنانچہ زمانیت کی ہر کروٹ کے ساتھ ایک ذہن کو راس آتا تھا ، غالب کی جدلیاتی فکر عہد حاضر کے ما بعد جدید مزاج کو راس آتی ہے۔
نئی علمیات اور شعریات سب سے زیادہ زور معنیاتی تکثیریت ،تجسس اور بو قلمونی پر دیتی ہے اور غالب کے جدلیاتی ڈسکورس کا آزادگی و کشادگی پر زور دیتا اور طرفوں کو کھلا رکھتا گویا ما بعد جدید ذہن سے خاص نسبت رکھتا ہے۔ غالب کی نشاطِ تصور کے نغمہ سنج ہیں دیکھا جائے تو ان تصورات کا زمانہ اب آیا ہے۔ غالب کی مجتہدانہ فکر ہر نوع کی کلیت پسندی، جبر، ادعائیت اور مقتدروں کے خلاف ہے، مابعد جدید مزاج بھی مقتدروں، آمریت اور ادعائیت اور مقتدروں کے خلاف ہے، نئی علمیات نے تو مہا بانیوں کی مطلقیت کے خلاف آواز کہیں آج اٹھائی ہے، جب کہ غالب کی فکر بہت پہلے سے ایسے تمام تعینات و تصورات کو بے دخل کرتی آئی ہے، جب کہ غالب کی فکر بہت پہلے سے ایسے تمام تعینات و تصورات کوبے دخل کرتی آئی ہے جو فکر و نظر کی آزادی کو مسدور کرتے ہیں ۔ ما بعد جدید ذہن نظریوں کی تحکمانہ ادعائیت اور جکڑ بندی، تنگ نظری اور تحدید کے خلاف ہے اور انسان کی آزادی اور نشاط کا داعی ہے۔ غالب کے یہاں بھی بے لوث آزادی و وارستگی اور نشاطِ زیست قدرِ اوّل ہے۔ نیا عہد تہذیبی جڑوں کا بھی جویا ہے ۔ غالب نہ صرف مغل جمالیات میں رچے بسے ہیں وہ ہمارے فلسفیانہ تہذیبی وجدان کی جیسی نمائندگی کرتےہیں، اس کی دوسری نظیر نہیں ملتی ۔ ایرانی و تورانی پس منظر پر ان کا تفاخر بر حق لیکن ان کے ذہن و شعور کی جڑیں اپنی مٹی کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔’’
پوری کتاب میں غالب کی شاعری کو جس نئے انداز سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے وہ حیران کن ہے۔ ‘ذکر اُس پری وش کا’ اور پھر بیان اپنا ، والی کیفیت ہر جا موجود ہے:
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
پروفیسر گوپی چند نارنگ غالب کی شاعری کو عصری منظر نامے میں پرکھنے اور اس کی تفہیم کی کوشش کرتے ہیں ۔ غالب کا رشتہ ما بعد جدید ادبی تناظر سے جوڑتے ہیں جو ہر طرح کی ادعائیت اور آمریت کے خلاف ہے۔ نئی فضاؤںا ور نئے اقدام کی ستائش کرتی ہے۔ ہر طرح کے جبر اور حقانیت کی نفی کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
‘‘ آج کے منظر نامہ پر نازی ازم کی بدنام زمانہ خونریزی کے بعد Zionism صیہونیت اور اس نوع کے تمام نسلی اور فرقہ وارانہ رجحانات فاشزم،نسل پرستی اور علاقائیت کی بد ترین شکلیں ہیں، جو حقانیت کی اپنی اپنی اجارہ داری ، عصبیت اور بر تری کے نام پر لاکھوں کروڑوں بے گناہوں اور معصوموں کا خون بہا نے کو جائز سمجھتی ہیں اور جنہوں نے شدت پسندی اور فتنہ و فساد کو پھیلا کر انسانیت کو شرمسار اور زمین کو داغدار کردیا ہے۔
اکیسویں صدی میں فرقہ واریت ، دہشت گردی ،استعماریت اور تشدد کا منظر نامہ سب سے اذیت ناک منظر نامہ ہے۔ لوگوں نے خدا کو الگ الگ بانٹ لیا ہے ، اپنے اپنے بت تراش لیے ہیں اور جس آزادی کو وہ اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں ، دوسروں کےلیے اسی کو ناجائز سمجھتے ہیں ۔ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج انسانیت کی آزادی، بو قلمونی اور تکثیریت کا تحفظ ہے۔ اس منظر نامہ میں غالب کے جدلیاتی ڈسکورس کی معنویت ، اس کی بے لوثی ،وسیع المشربی اور آزادی کی وکشادگی کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
غالب نہ صرف پا بستگی رسوم و قیود کو رد کرتے ہیں وہ ہر اس عقیدہ ، مسلک اور گروہ کے بھی خلاف رہیں ہیں جو صداقت کی کنجیاں اپنے پاس رکھتاہے اور اپنی اور فقط اپنی حقانیت پر اصرار کرتا ہے’’۔
نارنگ کے یہ الفاظ صرف غالب کی شاعری کے تناظر میں موجودہ عہد پر کاری ضرب لگا تے ہیں بلکہ گوپی چند نارنگ کے ذہن و فکر کی بھی عمارتیں ہیں۔
دریا میں پانی کا فی بہہ چکا ہے۔ چھوٹے موٹے پودے جڑوں سے اُکھڑ کر دریا میں بہہ چکے ہیں ۔ بڑی بڑی لکڑیاں اور شہتیریں بھی کناروں کو جالگی ہیں۔ 1960 سے نارنگ کا جو ادبی سفر شروع ہوا تھا وہ اب بھی جاری ہے ۔ وہ آج بھی مسافر ہیں۔ روزانہ نت نئے گوہر کی تلاش میں غلطیاں و پیچا رہتے ہیں ۔ ملکوں ملکوں گھومتے ہیں لیکن ہمہ وقت اردو زبان ، ادب، تحقیق و تنقید کی فکر میں کھوئے کھوئے سے رہتے ہیں اور پھر اچانک کوئی ایسا کتاب کا وجود عمل میں آجاتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ پچاس برسوں میں اردو ادب و تنقید پر پروفیسر گوپی چند نارنگ کی حکمرانی رہی ہے۔ یہ حکمرانی انانیت کے لباس فاخرہ میں ملبوس کسی آمرو جابر بادشاہ جیسی نہیں رہی بلکہ پروفیسر نارنگ نے اپنی فکر اور فلسفے سے اردو ادب و تنقید کو ہمیشہ ایک نیا رخ دیا۔ بدلتے ادبی تناظر میں اردو کے ادیبوں و شاعروں سے مکالمہ کیا۔ نئی علمیات کی روشنی میں ادب کو سوچا سمجھا جانا اور پرکھا۔ غور و فکر کے بعد اپنی راہ متعین کی۔ اردو کے ادیبوں کو آگاہ کیا ۔ گمراہی سے بچانےکی کوشش کی۔ اردو شعر و ادب سے نہایت مستقل مزاجی سے اپنا رشتہ گہرائی و گیرائی کے ساتھ ہمیشہ قائم رکھا۔ شاید اسی لیے عمر کے اس پڑاؤ پر بھی پروفیسر نارنگ نے جو علمی کارنامہ غالب کے حوالے سے انجام دیا ہے۔ وہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ غالب تنقید اور اردو تنقید میں سنگ میل ہے:
گردش ساغرِ جلوۂ رنگیں تجھ سے
آئینہ داری یک دیدۂ حیراں مجھ سے
15 فروری، 2015 بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/a-new-aspect-study-ghalib/d/101585