New Age Islam
Sat May 24 2025, 04:51 AM

Urdu Section ( 3 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Preservation of Hindu Civilization and Their Knowledge and Arts ہندوؤں کی تہذیب اور ان کے علوم و فنون کا تحفظ

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

3 مئی 2025

ملک کی موجودہ صورتحال حد درجہ تشویشناک ہے ۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں وجہ یہ ہیکہ آ ج بڑی شدومد کے ساتھ اس بات کا ڈھول پیٹا جارہا ہے کہ جب سر زمین ہندوستان میں مسلمان اقتدار پر قابض تھے تو انہوں نے ہندو رعایا کے ساتھ نہ صرف نا انصافی کی بلکہ ان کے ساتھ بھید بھاؤ کیا، مذہبی منافرت کو فروغ دیا ، ان کی تاریخ و تہذیب ، علوم و فنون اور زبان و ادب کے ساتھ سوتیلہ برتاؤ کیا ۔ جبکہ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس الزام کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس طرح کی باتوں کو اس لئے رواج دیا جارہا کہ عوام میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا ہو اور سیاسی عناصر اپنی اپنی سیاسی روٹیاں سیکیں۔ اگر ملک کے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کی باتیں ہر طرف کی جارہی ہیں ۔ حتی کہ ہمارے ملک کا میڈیا بھی اب اس طرح کے موضوعات پر بحث و مباحثہ کرانے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ نیز بعض سیاست داں بھی اپنی انتخابی ریلیوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و اشتعال انگیز بیانات دیکر عوامی سطح پر بد امنی اور نا اتفاقی کو ہوا دے رہے ہیں۔ سچ یہ ہیکہ اس طرح کے لوگ نہ صرف سماجی رابطوں و تعلقات کو مخدوش کررہے ہیں بلکہ وہ ہندوستان کی تاریخ سے تجاہل عارفانہ برت رہے ہیں۔ چنانچہ سطور ذیل میں یہ بتانے کی سعی کی جائے گی کہ برادران وطن کے دین و دھرم، تہذیب و تمدن ،علوم و فنون ، تاریخ اور خود ان کے ساتھ کس قدر مشفقانہ اور روادارانہ برتاؤ کیا۔

ایسے ہیں جن کو مسلمانوں نے اپنی قوم میں متعارف کرانے کے لئے سنسکرت سے عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ اسی طرح ان کے مذہب ودھرم کے متعلق معلومات حاصل کی گئیں۔ چنانچہ اس بابت ، تزک جہانگیری، ماثراالامراء ، آ ئیں اکبری وغیرہ میں بڑی  تفصیل سے لکھا ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے  دولت عباسیہ سے لیکر مغلوں کے دور تک مسلم حکمرانوں نے ۔ ان کے علوم وفنون، تہذیب وتمدن اور دین ودھرم کی قدر کرنے کے ساتھ ان کو مناصب جلیلہ پر بھی فائز کیا۔ دولت عباسیہ میں مختلف زبانوں کے تراجم عربی میں کئے گئے۔ سریانی، عبرانی، قبطی، فارسی کلدانی فنیقی وغیرہ اسی طرح سنسکرت زبان کے ترجمہ کی ابتدا عباسی فرمانروا ابو جعفر منصور کے زمانے میں ہوئ۔ اسی نہج کو برقرار رکھتے ہوئے خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید نے بھی اپنے دور میں ہندوستان سے تعلقات بڑھائے۔ حتی کہ " ایک مرتبہ ہارون الرشید سخت بیمار ہوا اور پایہ تخت کے اطباء علاج سے عاجز آ گئے ،اس زمانہ میں ہندوستان کے ایک پنڈت کی شہرت دور دور پھیلی ہوئی تھی، ابو عمرو عجمی کی تحریک سے ہارون الرشید نے اس کو طلب کیا اور اس کے علاج سے خدانے شفا دی، اس فاضل کا نام منکہ تھا۔ وہ طبابت کے علوم عقلیہ کا بڑا ماہر تھا، بغداد میں رہ کر اس نے فارسی زبان سیکھ لی اور سنسکرت زبانوں کے ترجمہ کرائے۔ علامہ شبلی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہارون الرشید کے دربار کا ایک نامور پنڈت سالی تھا ، جس کو عرب مصنف صالح لکھتے ہیں، اسی عہد میں ایک اور مشہور فاضل ہندو تھا جس نے سنسکرت کتابوں کے ترجمے کیے،اس کے باپ کا نام دھن تھا اور اہل عرب اس کو اس کے اصلی نام کے بجائے ہمیشہ ابن دھن یعنی دہن کا بیٹا لکھتے ہیں، برمکیوں نے بغداد میں جو ہسپتال بنایا تھا ، یہ اس کا افسر تھا۔

اس طرح اکبر نے ملک میں ایک ممتاز و منفرد انجمن بنائی جس میں تمام مذاہب کے علماء و اسکالرس کو جمع کیا۔ اس کا بنیادی طور پر جو مقصد تھا وہ یہ کہ ملک میں رواداری کا رواج ہو،نیز تمام ادیان کے حاملین اپنے اپنے دین کا اتباع کرتے ہوئے باہم احترام سے رہیں۔ آ ج بھی ملک و عالمی منظر نامے پر ہمیں ان خطوط پر عمل  کرنا ہوگا جویکجہتی اور اتحاد و یگانگت کی علمبردار ہوں۔ اکبر کے دور اقتدار میں بہت سی سنسکرت زبانوں کے اردو تراجم بھی ہوئے۔ ہندؤں کی مذہبی کتاب مہا بھارت کا فارسی ترجمہ ،عبدالقادر بدایونی و شیخ سلطان تھانیسری و نقیب خاں کی شرکت سے ہوا، اکبر نے اس ترجمہ کا نام رزم نامہ رکھا اور تمام معرکوں کی تصویریں بنواکر اس میں شامل کیں،مذکورہ بالا فضلاء نے رامائن کا بھی ترجمہ کیا اور اس میں بھی تصویریں بنوائی گئیں، اتھر وید کا ترجمہ حاجی ابراہیم سر ہندی نے کیا اور اس ترجمہ کا قلمی نسخہ شبلی کالج کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ لیلاوتی جو فن حساب کی مشہور کتاب ہے، اس کا ترجمہ فیضی نے کیا تاجک جو علم نجوم میں ایک معتبر تصنیف ہے ، مکمل خاں گجراتی نے اسے فارسی میں منتقل کیا۔ کنہیا جی کے حالات میں ہر بنس ایک کتاب ہے، مولانا شیری نے اس کا ترجمہ کیا ، نل اور دمن کا قصہ جو ایک پردرد ناول ہے ، فیضی نے اس کو مثنوی کا لباس پہنایا۔ اکبر کی یہ بھی خدمت قابل تعریف ہے کہ اس نے سنسکرت سرمایہ میں بھی اضافہ کیا یعنی عربی فارسی کی بہت ساری کتابیں سنسکرت میں ترجمہ کرائیں، چنانچہ " زیچ میرزائی " کا ترجمہ سنسکرت میں ہوا، اس ترجمہ میں فتح اللہ شیرازی، ابوالفضل ، کشن جوتشی ، گنگا دھر مہیش ، مہا نند، وغیرہ شامل تھے۔ ( مقالات شبلی، جلد ششم، صفحہ 87-88) اگر ہندؤں کی تہذیب اور علم وفن کی قدردانی اور ان کے مذہب کے  احترام پر تمام شواہد وحقائق کا احاطہ کیا جائے تو کافی صفحات درکار ہونگے، لہذا مذکورہ سطور سے یہ اندازہ ہوگیا کہ مسلمانوں نے ہندؤں اہل علم اور ان کے علوم وفنون، نیز تہذیب کو مسلمانوں کے دور اقتدار میں کافی فروغ ملا۔

علامہ شبلی نعمانی نے مقالات شبلی کی جلد دوم میں لکھا ہیکہ تحفة الہند نامی کتاب اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں تصنیف ہوئی ہے  مصنف کا نام میرزا خاں بن فخرالدین محمد ہے ، دیباچہ میں لکھا ہے کہ میں نے یہ کتاب شہنشاہ عالمگیر کے زمانہ میں شہزادہ اعظم شاہ کے کے مطالعہ کے لئے تصنیف کی کتاب کا موضوع ہندؤں کا فن بلاغت اور عروض و قافیہ وغیرہ ہے۔ اس میں سات ابواب ہیں ۔

پنگل : یعنی علم عروض : علم قافیہ ، النکار: یعنی علم بدیع ، سرنگاررس: یعنی عشق و محبت، سامدک: علم قافیہ ،کوک: یعنی علم النساء،لغات ہندی: اس میں برج بھاشا کے ضروری کثیر الاستعمال الفاظ لکھے ہیں اور ان کے معنی بتائے ہیں۔ شبلی نعمانی نے یہ بھی لکھا ہیکہ عالمگیر پر تعصب و تنگ نظری کا الزام بے بنیاد ہے۔ نیز عالم گیر ملک کے ایک ایک جزئی واقعہ سے اس قدر واقفیت رکھتا تھا کہ کسی حصہ ملک کا ادنی ساواقعہ اس کی نگاہ تجسس سے مخفی نہیں رہ سکتا تھا، باوجود اس کے برج بھاشا کو جس قدر اس کے زمانہ میں ترقی ہوئی مسلمانوں نے جس قدر اس کے زمانہ میں ہندی کتابوں کے ترجمے کیے اور خود جس قدر برج بھاشا میں نظم و نثر لکھی وہ قابل تعریف ہے( مقالات شبلی، جلد دوم ،صفحہ 78-79) گویا یہ بھی اس بات کا بین ثبوت ہیکہ عالمگیر کے دور میں مشرقی علوم و فنون کی نشرو اشاعت کے ساتھ ساتھ  ہندی زبان اور ہندؤں کے علوم کی کافی ترقی ہوئی تحفة الہند اسی سلسلے کی ایک سنہری کڑی ہے۔

مذکورہ شواہد کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ برادران وطن کے ساتھ ہمیشہ برابری اور انصاف و مساوات کا سلوک کیا گیا ہے۔ اس لئے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ملک میں  باہم قوموں کے مابین بڑھتی خلیج  کو مٹانے میں اہم کردار ادا کریں۔ اسی کے ساتھ ہمیں تاریخ کا مطالعہ بھی نہایت توسع اور فراخ دلی سے کرنا ہوگا تاکہ کسی رویہ اور کردار پر ہم الزام عائد نہ کرسکیں، جو لوگ تاریخ کے اوراق کو عوام الناس کے سامنے دھندلا کرکے پیش کررہے ہیں ایک بار انہیں بھی ان تمام حقائق پر نظر ڈالنے کی سخت ترین ضرورت ہے۔ معاشروں کو باہم متحدکرنے اور  جمہوریت میں قوموں کے حقوق کی بازیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ان خطوط پر گامزن رہیں جن سے کسی بھی طبقہ اور فکر نظر کو مسمار نہ کیا جاسکے۔ آ زادانہ  طور پر تعدد وتنوع پسند نظریات کو پروان چڑھنے کا موقع میسر ہوسکے۔ تو لازمی طور پر اس کے نتائج مثبت اور دور رس ہونگے ۔ یقین جانئے آ ج کی جو سب سے بڑی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہم ان غلط فہمیوں کو دور کریں جو ہندوں کو مسلمانوں کے بارے یا مسلمانوں کو ہندؤں کے بارے میں ہوچکی ہیں۔ ان کے زائل ورفع کرنے کا واحد طریقہ یہ ہیکہ سچ وحق کے ساتھ ہم تاریخ کو بیان کریں نیز کسی بھی طبقہ کے ساتھ ایسا برتاؤ نہ کریں جس سے ایسا محسوس ہو کہ اس کے ساتھ کسی بھی طرح کا امتیازی سلوک اپنایا جارہا ہے۔

-------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/preservation-hindu-civilization-knowledge/d/135417

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..