New Age Islam
Tue Jun 24 2025, 01:21 PM

Urdu Section ( 21 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Present Pakistani Situation from Perspective of the Quran پاکستان کے موجودہ حالات قرآن کے تناظر میں

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

21 مئی 2025

پاکستان 1947ء میں آزادی کے ساتھ وجود میں آیا اور نظریاتی طور پر اس کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا جبکہ عملی طور پر یہ تقسیم محمد علی جناح اور جواہر لال نہرو کے درمیان اقتدار کے لئے رسہ کشی کا نتیجہ تھی۔ محمد علی مذہبی انسان نہیں تھے اور نہ ہں کسی اسلامی تنظیم سے وابستہ تھے۔ انہوں نے تقسیم۔کے بعد پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے عزم کا بھی اظہار کیا تھا ۔ اس وقت کی کچھ اسلامی جماعتیں بھی تقسیم کے یی خلاف تھیں چہ جائیکہ پاکستان کو ایک اسلامی رہاست بنانے کا مطالبہ کرتیں۔ بہرحال ،پاکستان کے قیام کے بعد رفتہ رفتہ اسلامی تنظیموں اور قائدوں کےدباؤ میں پاکستان ایک سنی اسلامی ریاست بنتا گیا اور پاکستان میں یہ بیانیہ مقبول ہوتا گیا کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اور یہ نعرہ بھی وہاں مقبول ہوگیا کہپاکستان کا مطلب کیا

لا الہٰ الا اللہ

رفتہ رفتہ پاکستان میں شدت پسندی اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوتا گیا اور مذہبی اقلیتوں کو ہی نہیں مسلم فرقوں اور مسلکوں کو بھی حاشئیے پر دھکیلا جانے لگا اور مسلک اور مذہب کے نام پر وہاں ظلم وتشدد کے رجحان میں اضافہ ہوتا رہا۔ اتنا ہی نہیں مختلف صوبوں کے ساتھ لسانی اور نسلی بنیاوں پر نا انصافی اور حق تلفی کی جانے لگی جس کے نتیجے میں مختلف لسانی اور نسلی قومیتوں میں پاکستانی حکومتوں کے خلاف نفرت اور اضطراب میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس نفرت اور اضطراب کو کم کرنے کے لئے مناسب اقدامات کرنے کے بجائے پاکستانی حکومتوں نے ان کو غدار ، دشمن قوم و ملک اور حتی کہ اسلام دشمن تک قرار دیا ۔ پاکستانی حکومتوں کی اسی غلط پالیسی کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا ۔اس کے باوجود دیگر ریاستوں اور لسانی اور نسلی قومیتوں کے ساتھ پاکستانی حکومتوں کی پالیسی میں کوئی لوچ یا تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی جبکہ اس کے حکومت کی قائدین اور ملی رہنما اسی بیانئیے کو طوطے کی طرح دہراتے رہے کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر یا اسلام کے نام پر بنا ہے۔ آج اس بیانئے کو ایک قدم آگے بڑھاکر اب یہ دعوی بھی کیا جانے لگا ہے کہ پاکستان کو اللہ نے مسلموں کے لئے بنا یا ہے اور پاکستان کلمہ کی بنیاد پر بنا ہے۔حال ہی میں پاکستان کے آرمی سربراہ جنرل عاصم منیر نے غیر مقیم پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے اسی بیانئے کو دہرایا تھا کہ پاکستان دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر اور کلمے کی بنیاد پر بنا تھا اور یہ کہ مسلمان زندگی کے ہر ممکنہ پہلو میں ہندوؤں سے مختلف یعنی بہتر ہیں۔ پاکستانی پنجاب کی موجودہ وزیراعلی مریم نواز نے بھی اپنی ایک تقریر میں کہا کہ میں صوبہ پنجاب کی ہوں لیکن سندھ بھی میرا ہے ، بلوچستان بھی میرا ہے ، خیبر پختونخوا بھی میرا ہے اور گلت بلتستان اور کشمیر نبھی میرا ہے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ اور ساسی قائدین کی یہ تقریریں محض تقریریں ہی ثابت ہوئی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی حکومتوں میں پنجابیوں کا غلبہ رہا ہے اور انہوں نے سندھیوں ، بلوچوں اور پختونوں اور پیاڑی قبائل کو ہمیشہ کم تر سمجھا ہے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھا ہے۔ اس نا انصافی اور عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے ساتھ مفاہمت اور مذاکرات کی اسلامی راہ نہ اپنا کر ان کو غدار وطن ، دہشت گرد اور اسلام دشمن قرار دینے کی پالیسی اپنائی جاتی ہے اور ان کو کسی قانونی عمل کے تحت لائے بغیر قتل کرکے ان کی لاش کو گمنام قبروں میں دفن کردیا جاتا ہے۔

پاکستانی حکومت کی امتیازی پالیسی اور لسانی اور نسلی بنیادوں پر تفریق و ناانصافی کی وجہ سے آج خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بغاوت کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور وہاں قانون کا نظام تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ خود پاکستان کے ایک بااثر ملی و سیاسی رہنما مولانا فضل الرحمان نے پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں کہا تھا کہ بلوچستان کے کئی اضلاع میں فوج کا قبضہ ختم ہوچکا ہے اور خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں کوئی قانون نہیں ہے۔ جب خود ایک قومی رہنما ایسا کہہ رہا ہے تو پاکستان میں قانون اور عدل کی صورت حال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان کے سیاسی اور ملی رہنمایہ دعوی کرتے ہیں کہ پاکستان کو اللہ نے خود اپنے ہاتھوں سے بنا کر مسلمانوں کو تحفے میں دیا ہے۔

پاکستان کا حکومتی نظام کس حد تک اسلامی شریعت اور قرآنی اصولوں کے مطابق چل ر ہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ

بلوچستان میں فوج گزشتہ 70 برسوں سے بلوچ قوم کا خاموش قتل عام کررہی ہے۔ پاکستان نے غیر اسلامی طور پر بلوچستان پر 1948ء پر قبضہ کیا جبکہ وہ خود مختار ریاست تھی اور بلوچ بھارت سے الحاق چاہتے تھے۔ بلوچوں کی مزاحمت کو پاکستانی فوج نے بیدردی سے کچل دیا اور کبھی بلوچوں سے مفاہمت کا راستہ نہیں اپنایا ۔ان کے لیڈران اور کارکنان کو قتل کروادیا یا پھر اغوا کرکے گم کردیا۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ان کے نوجوانوں ، بچوں اور عورتوں کو غیر قانونی طور پر گھروں سے اٹھا لیا گیا اور انہیں اذیت دے کر ماردیا گیا اور انہیں گمنام اجتماعی قبروں میں دفن کریا گیا۔ آج بھی بلوچستان کے تقریباً 7000 افراد لاپتہ ہیں۔انہیں گھروں سے فوج نے اٹھایا اور اس کے بعد ان کے متعلق ان کے لواحقین کو کوئی جان کاری نہیں دی گئی۔آج بلوچستان میں جو لوگ احتجاج اور بغاوت میں سب سے آگے ہیں وہ دراصل انہی مظلوم بلوچوں کی پہلی دوسری اور تیسری نسل ہیں جن کو پاکستانی فوج نے اغوا کرکے قتل کردیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ کے والد عبدالغار کو فوج نے 2009ء میں اغوا کیا اور دوسال کے بعد ان کی زخم خوردہ لاش ملی۔ ایک اور بلوچ خاتون لیڈر سمیع دین بلوچ کے والد کو ہسپتال سے فوج نے اٹھا لیا اور پندرہ سال کے بعد بھی ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ کریمہ بلوچ نامی نوجوان بلوچ لیڈر کے بھی کئی رشتہ داروں کو پاکستانی فوج نے اغوا کرکے قتل کردیا۔ اس کے بعد جب اسے اپنی جان کا خطرہ محسوس ہواتو وہ کناڈا میں پناہ گزیں ہوگئی۔ لیکن پاکستان کی آئی ایس آئی نے کناڈا میں اس کا قتل کرادیا۔ موت سے قبل کریمہ نے اہنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ کناڈا کی حکومت پاک فوج کے اہل کاروں کو کناڈاکی شہریت دے رہی ہے جو اس جیسے بلوچ کارکنان کے لئے خطرہ ہیں۔ اور اس کا یہ ڈر صحیح ثابت ہوا۔ کریمہ بلوج واحد بلوچ کارکن نہیں ہے جسے یوروپ میں آئی ایس,آئی نے قتل کرادیا بلکہ دیگر کئی بلوچ کارکن اور صحافی بھی یوروپی ممالک میں قتل کردئیے گئیے ہیں اور جو لوگ زندہ ہیں وہ خوف کے سائے میں زندہ ہیں۔

کریمہ بلوچ نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستانی فوج ہیلی کاپٹر سے بلوچ عورتوں کو اغوا کرلیتی ہے اور انہیں فوجی چھاؤنیوں میں لونڈی بنا کر رکھتی ہے بلوچ خاتون لیڈر ماہ رنگ بلوچ اور سمیع دین بلوچ کو پاکستانی فوج نے مارچ مہینے میں احتجاج کرتے ہوئے حراست میں لیا تھا۔ آج تک وہ جیل میں ہیں۔ خبروں کے مطابق ان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ مہ رنگ بلوچ نے گرفتاری سے قبل اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اسے کسی نہ کسی دن قتل کردیا جائے گا۔

بلوچوں کا یہ احتجاج بغاوت کی شکل اس لئے اختیار کرگیا ہے کہ پاکستانی حکومتوں نے ان کا معاشی استحصال کیا۔ بلوچستان کے معدنیاتی ذخائر کو چین کے ہاتھوں نیلام کردیا اور پنجاب کی ترقی کے لئے استعمال۔کیا اس خطے کی ترقی کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ بیروزگاری اور افلاس بہت زیادہ ہے۔ ان کو ان کا جائز حق نہیں دیا گیا۔ ان کی زبان اور کلچر کو نظرانداز کیا گیا اور ان پر اردو زبان تھوپی گئی۔ ان کی شکایتوں کے ازالے کے بجائے ان کو جیلوں میں سڑنے کے لئے ڈال دیا گیا یا قتل کردیا گیا۔

پاکستانی حکومت اور فوج کا یہ رویہ صرف بلوچوں کے ساتھ ہی نہیں ہے۔سندھ ، گلگت بلتستان ، پاک مقبوضہ کشمیر اور خیبر پختونخوا کے ساتھ بھی معاشی امتیاز اور نا انصافی ہوتی رہی ہے۔سابق مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے ساتھ بھی لسانی اور معاشی ناانصافیوں کے نتیجے میں بغاوت ہوئی اور اس بغاوت کو مفاہمت اور مذاکرے کے ذریعے ختم کرنے کے بجائے فوج کشی کا راستہ اپنایا گیا جس کا منفی نتیجہ سامنے آیا۔

کلمہ کی بنیاد پر اور اسلام کے نام پپر پاکستان کے وجود میں آنے کا دعوی کرنے والے پاکستانی فوجی اور سیاست دانوں نے اگر کلمہ کی بنیاد پر اور اسلامی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے مشرقی بنگال کو ان کا حق دے دیا ہوتا تو آج بنگلہ دیش وجود میں نہ آیا ہوتا۔ اگر پاکستانی حکومتوں نے اسلامی شریعت کے مطابق بلوچوں کو ان کا جائز حق دیا ہوتا تو,آج پاکستانی فوج ان کے سرمچاروں کے ہاتھوں ہزیمت نہ اٹھارہی ہوتی۔ اگر پاکستانی فوج اسلامی فوج کی طرح عمل۔کررہی ہوتی تو معصوم نوجوانوں اور بچوں کو اغوا کرکے غیر قانونی طور پر انہیں قتل نہ کردیتی ۔وہ بلوچ عورتوں کے ساتھ عصمت دری نہ کرتی اور پاکستان کے ملی اور سیاسی قائدین ان غیر اسلامی اقدامات اور غیر انسانی روئیے پر خاموشی اختیار نہ کرتے۔ پاکستانی صحافی ان مظالم سے چشم پوشی نہ کرتے۔ پاکستانی فوج قرآن میں مذکور فسادیوں کی طرح ہے جو دراصل فساد پھیلاتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ وہ تو یہ سب بغاوت کو کچلنے کے لئے کررہے ہیں قرآن کہتا ہے:

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔(البقرہ : 11)۔۔

پاکستانی فوج کے مظالم اور فساد کی تاریخ بہت لمبی ہے۔ گزشتہ مئی میں حکومت اور فوج کے خلاف عوامی احتجاج کو کچلنے کے لئے فوج اور پولیس نے احتجاج کاروں کے ساتھ جس طرح کا طرز عمل اختیار کیا اور خصوصاً خواتین کے ساتھ جس طرح کا سلوک سڑکوں پر اور جیلوں میں کیا وہ اسلامی تو دور انسانی کہلانے کے لائق بھی نہیں تھا۔ پولیس نے خواتین کو,سڑکوں پر بال۔پکڑ کر گھسیٹا اور جیلوں میں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔انہیں طویل مدت تک جیلوں میں غیر قانونی طور پر رکھا گیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو دو برسوں سے بغیر کسی قانونی چارہ جوئی کے جھوٹے مقدمات کی بنا پر کال کوٹھری میں رکھا گیا ہے۔

لہذا ، پاکستان کی حکومت ، پولیس اور فوج کا طرز عمل اور حکومت کی پالیسی کسی بھی زاؤئیے سے اسلامی نہیں ہے۔ اور پاکستان کے مسائل کی جڑ اس کے حکمرانوں ، فوج اور پولیس کا غیر اسلامی مزاج اور طرز عمل ہے۔ جس دن پاکستان کے سیاسی قائدین اور فوج اور پولیس اسلامی شریعت اور قرآنی بنیادوں پر ملکی مسائل کے حل کی پالیسی اختیار کرنے لگے گی اس کے تمام مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ لیکن پاکستان کے نظام میں یہ اجتماعی تبدیلی تب تک نہیں آئے گی جب تک پاکستان کے ہر فرد کے مزاج اور طرز فکر میں بنیادی تبدیلی نہ آئے۔ کیونکہ قرآن کہتا ہے :

بیشک اللہ کسی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک انکے نفس میں تبدیلی نہ آئے۔(الرعد :11)

یعنی اجتماعی تبدیلی تب تک نہیں آسکتی جب تک قوم کے ہر فرد میں تبدیلی نہیں آتی کیونکہ قوم کی تشکیل فرد سے ہی ہوتی ہے۔پاکستانی قوم کے ہر فرد کے اندر بنیادی تبدیلی کے لئے اس کے تعلیمی نظام میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے اور تعلیمی نظام میں اصلاحات کے لئے اس میں دین کی صحیح ترجمانی کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کی شمولیت بھی ضروری ہے۔ پاکستان کو اس وقت اچھے ملی اور سیاسی قائدین کی ضرورت ہے اور ایسے قائدین موجودہ پاکستانی نظام سے اٹھ کر نہیں آسکتے۔

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/present-pakistani-situation-perspective-quran/d/135609

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..