New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 01:33 AM

Urdu Section ( 19 Nov 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Predictions of Shibli and Their Relevance Today شبلی کی پیش بینی اور اس کی عصری معنویت

محمد خالد اعظمی

18 نومبر،2022

شبلی نعمانی

--------

شبلی اور سرسید بلا شبہ اپنے زمانے کی عبقری شخصیات ،ماہر علم وفن ، مصلح قوم اور عملی اقدامات کے حامل انسان تھے۔ دونوں بزرگوں کے مختلف الجہات علمی کارناموں کے ساتھ ان کی ہمہ گیر شخصیت کے دیرپا اثرات سے علمی دنیا واقف اور بڑی حد تک متاثر بھی ہے۔ سرسید اور شبلی دونوں کی شخصیت ہمہ جہت ہونے کے ساتھ انکے محققانہ علمی کمالات اور کارنامے عالمگیر اہمیت کے حامل ہیں اورایک جہان کو متاثر کردینے والے ہیں ، علمی صلاحیت اور فروغ علم کے تئیں اپنے آپ کو فنا کر دینے کا جذبہ دونوں بزرگوں میں یکساں طور پر موجود تھا ۔ رسول اللہؐ سے محبت اور ان کیلئے سب کچھ قربان کردینے کا جنون سرسید کو خطبات احمدیہ لکھنے کیلئے مجبور کردیتا ہے ، جبکہ وہی صفت شبلی کو شہرۂ آفاق اور جامع کمالات تصنیف سیرت النبی تک پہنچا دیتی ہے۔ لیکن یہاں نہ ان بزرگ شخصیات کی سیرت اور انکے کارناموں کا کوئی تقابلی مطالعہ یا موازنہ مقصود ہے اور نہ ہی اس کی یہاں کوئی ضرورت ہے۔ ان بزرگوں نے ملک و ملت اور قوم کی ترقی کیلئے جو قومی اہمیت کے حامل عالمی معیار کے ادارے قائم کئے ان کی ترقی، قومی خدمات کیلئے  ان کا دائرہ کار اور قوم پر ان اداروں کے اثرات کا جائزہ ضرور لیتے رہنا چاہئے تاکہ زمانے کی ضروریات کے مطابق نئی تجاویز اور لائحہ عمل ممکن ہوسکے۔ شبلی اپنی عمر کے لحاظ سے سر سید سے چالیس برس چھوٹے تھے لیکن شبلی اپنی نوجوانی کی عمر میں جب علیگڑھ پہنچے اور جس انداز سے سر سید نے انکی صلاحیتوں کا ادراک کر انہیں فارسی و عربی ادب کا استاد اور پھر دوسال بعد پروفیسر کے عہدہ پر ترقی دی اس سے شبلی کی علمی صلاحیت کے ساتھ سرسید کی انسانی جواہر کی پرکھ کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ شبلی اور سرسید دونوں کی ادبی خدمات بھی بے مثال ہیں اور اردو زبان کے عناصر خمسہ میں دونوں شامل ہیں۔

شبلی نے اپنے قیام علیگڑھ کے دوران ہی ۱۸۸۳ میں اپنے وطن اعظم گڑھ میں ایک اسکول کی بنیاد رکھی اور وہ اسے بالکل مدرستہ العلوم علیگڑھ کے طرز پر ہی ترقی دینا چاہتے تھے، لیکن کچھ زمانے کے نشیب و فراز اور کچھ شبلی کی روز افزوں بڑھتی ہوئی قومی و ملی مصروفیات، علیگڑھ کی ملازمت، متعدد علمی اسفار وغیرہ کئی ایسے عوامل رہے کہ شبلی کا مجوزہ اسکول ان کی زندگی میں ترقی کی وہ منازل نہیں طے کرسکا جس کا شبلی نے خواب دیکھا تھا۔ قومی اور ملی مسائل کے تئیں شبلی کی سنجیدہ کوشش اور ان کے حل کیلئے شبانہ روز محنت کے ساتھ ہی ان کے خانگی حالات کی ناگزیر مجبوریوں نے شبلی کو اعظم گڑھ میں یکسوئی کے ساتھ نہ رہنے دیا اور مجبوراً انہیں اعظم گڑھ کے علاوہ علیگڑھ ، لکھنو، حیدرآباد اور بمبئی وغیرہ کا سفر بار بار کرنا پڑتا تھا جس سے ان کے اسکول کی ترقی کافی حد تک متاثر ہوگئی ۔انہوں نے اس جانب اپنے عزیزوں اور قریبی رفقاء کو بھی بار بار متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس سلسلے میں انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ شبلی بھی اگر سر سید کی طرح ہر طرف سے مطمئن ہوکر صرف اپنے اسکول کی ترقی کیلئے ہی ہمہ تن مصروف ہو گئے ہوتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ نیشنل اسکول یا جارج اسکول اسی زمانے میں کالج نہ بن گیا ہوتا ۔ علامہ شبلی کا ملی درد ، قومی مسائل کے تئیں انکا انہماک اور اس کیلئے مستقل کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کا جذبہ ان کے اوپر اتنا حاوی ہوتاتھا کہ وہ ہر اس جگہ موجود ہوتے یا پہنچنے کی کوشش کرتے جہاں مسلم ملت اور قوم کا کوئی بھی چھوٹا بڑا مسئلہ درپیش ہوتا ۔ اسی کے ساتھ علمی کتابیں، تحقیقی مضامین، تہنیتی نظمیں اور قصیدے لکھ کر قوم کو متوجہ کرنے کیلئے بھی ہمہ تن مشغول رہتے تھے۔ نو آبادیاتی دور میں انگریزوں کی بطل پرستی اور اس الزام کے جواب میں کہ مسلمانوں میں یوروپ جیسا کوئی حکمراں پیدا نہیں ہوسکا علامہ شبلی نے الفاروق، المامون، الغزالی اور سیرت النعمان جیسی معرکتہ الآرا کتابیں تصنیف کر کے یہ ثابت کیا کہ ان بطل جلیلہ کے مد مقابل کوئی یوروپین تاریخ کے کسی دور میں بھی کہیں نہیں ہے۔

ان سب سے الگ اگر ہم ہندوستان کے موجودہ سیاسی و سماجی منظر نامہ پر نظر ڈال سکیں تو ملکی حالات اور معاشرتی کشمکش کے مسائل اس سے کہیں زیادہ بدتر و بدحال اور قابل توجہ ہیں جن سے شبلی اپنے زمانے میں دوچار تھے ۔ آج کے وقت میں جب ہم شبلی کی علمی و سماجی معنویت ،قائدانہ صلاحیت اور انکی ملی خدمات پر غور کرتے ہیں تو بار بار ذہن انہیں حالات کی طرف جاتا ہے جن سے شبلی اپنے وقت میں دوچار تھے اور ان مسائل کے سدباب کیلئے ان کی کاوشوں کا تجزیہ کرنے پر قومی بے حسی و اپنی بد اعمالیوں پر سوائے کف افسوس کے کچھ حاصل ہوتا نظر نہیں آتا۔ مدرستہ العلوم علیگڑھ اور شبلی اسکول اعظم گڑھ کی بنیاد پڑنے میں صرف آٹھ سال کا وقفہ ہے لیکن تعمیر و ترقی اور وسعت و پرواز میں ہم دونوں کا آپسی موازنہ اور مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اگرچہ شبلی اسکول نے بھی وقت کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ہائی اسکول، انٹر میڈیٹ ، ڈگری اور پوسٹ گریجویٹ کالج کا مقام حاصل کیا لیکن امتداد زمانہ نے شبلی کالج وہ مقام نہیں دیا جس کا شبلی استحقاق رکھتے تھے ۔ کہنے کو شبلی کالج اپنے علاقے کے دوسرے کالجوں سے ممتاز علیحدہ شناخت کا تعلیمی ادارہ آج بھی ہے لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ کیا یہی شبلی کی منزل مقصود تھی ۔ سرسید کی حیات میں مدرستہ العلوم بھی صرف ایک کالج تک ہی محدود تھا لیکن بھلا ہو ان کے جانشینوں کا کہ انہوں نے سر سید کے قومی تخیل کو پر و پرواز عطا کرنے میں اپنا سارا زور صرف کردیا اورسرسید کی وفات کے صرف بائیس سال بعد ۱۹۲۰ء آتے آتے مدرستہ العلوم محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علیگڑھ مسلم یونیورسٹی بن کر  دنیا کے سامنے ایک تناور درخت کی شکل میں کھڑا ہوگیا۔ اگر چہ منزل ان کیلئے بھی آسان نہ تھی ، حکومت نے اس وقت یونیورسٹی کیلئے وقف ضمانت کی رقم کو پانچ لاکھ روپئے سے بڑھاتے ہوئے تیس لاکھ روپئے تک کردیا لیکن کسی نے ہمت نہیں ہاری اور وہ ساری رقم قوم کے چندے سے اکٹھا کرکے حکومت کے خزانے میں جمع کرا دی گئی ، یوں ہندوستانی مسلمانوں کو سرسید کے خلوص اور محنت کا ثمرہ آج بھی دنیا کے سامنے ایک نامور تعلیمی و تحقیقی ادارے کی شکل میں اپنی خدمات پیش کر رہا ہے ۔ اگر ہم شبلی کے ورثاء کا موازنہ سر سید کے جانشینوں سے کریں تو خاصی حد تک سوائے مایوسی کے اور کچھ خاص حاصل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ شبلی کے ادارے دارالمصنفین شبلی اکیڈمی نے کسی حد تک علمی دنیا میں اپنی علمی خدمات کا ایک معیار قائم رکھا جس کی تابندہ مثال وہاں سے شائع ہونے والا رسالہ معارف ہے جس نے عالمی سطح پر ادارے کی منفرد شناخت کو مستحکم کیا ہے، اسے کے ساتھ اس ادارے نے شبلی کی کتابوں کی معیاری اشاعت نیز علوم اسلامیہ اور تاریخ عرب و ہند پر مستند کتابیں شائع کرکے شبلی کے مشن کے ایک حصے کو پورا کرنے کا کام کیا ہے ۔ لیکن شبلی کے اسکول اور کالج کی جس ترقی کا خواب مسلمانان ہند نے دیکھنا چاہا تھا اور جسے پورا کرنے کا بیڑا اعظم گڈھ مسلم ایجو کیشن سوسائٹی نے ۱۹۱۴ سے اپنے کندھے پر اٹھا رکھا ہے وہ شبلی کے مشن اور ان کے دیکھے ہوئے خواب کو کس حد تک پورا کر پارہے ہیں یہ سوال آج بھی زندہ اور پائدار ہے ۔ ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم نے شبلی کی عالمی شناخت اور شہرت کو صرف ان کے شہر اعظم گڑھ تک محدود کردیا ہے اور نئی نسل تو شبلی کے نام سے ہی بیگانہ ہوتی جارہی ہے۔ شبلی اکیڈمی اور شبلی کالج اب صرف شبلی کے نام پر زندہ ہیں جہاں ان اداروں کے ساتھ ساتھ خود شبلی بھی اپنے وجود کو بچانے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ شبلی کالج اور شبلی اکیڈمی کے پاس ادارے کی وسعت و ترقی کیلئے مضبوط بنیادی ڈھانچہ اور بنیادی سہولیات ہیں لیکن دونوں ادارے اس وقت اپنے وجود کی بقا کیلئے کوشاں ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ سوائے اندھیرے میں ہاتھ پیر مارنے کے کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔ شبلی کالج ہر سال اٹھارہ نومبر کو شبلی کی برسی کا سالانہ جشن یوم بانیٔ ادارہ کے نام پر دھوم دھام سے منانے کا اہتمام کرتاہے ، لیکن افسوس یہ ہے کہ اس دن کو ادارے کا یوم محاسبہ ، شبلی کے مشن کی معنویت اور اسکا مستقبل کا وژن ، اس کے عصری تقاضے، سالانہ حصولیابیوں کے جائزے یا مستقبل کے منصوبے اور کالج کے سالانہ تعلیمی پروگرام پر مبنی بحث و مباحثے کے دن کے طور منانے سے سوسائٹی کا ہر فرد گریزاں نظر آتا ہے ۔

18 نومبر،2022 ، بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/predictions-shibli-relevance-today/d/128431

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..