New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 06:36 PM

Urdu Section ( 30 Nov 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Practical Way for the Survival of the Urdu Language اردو بقاء کا عملی طریقہ

نسیم احمد آرزو

29 نومبر،2024

پچھلے پچاس برسوں میں اردو کے حقوق بری طرح پامال او رمتاثر ہوئے ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اردوکو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت قومی سطح پر پامال کیا جارہاہے۔ اردو زبان کا استعمال سرکاری غیر سرکاری اور تعلیمی سطحوں پر یا تو بالکل بند کردیا گیا ہے یا محدود رکھاجارہاہے۔میرے مشاہدے کے مطابق اردو جاننے والے افراد عموماً محبت کی بات کرتے ہیں۔ یہاں قتل اور غارت گری کے لئے محبوب کی ترچھی نگاہوں کا بطور ہتھیار پیش کیا جاتاہے۔ نفرت اور حقارت کی جگہ یہاں رقابت ہے، وہ بھی معشوق کی محبت حصول کے لئے۔ہماری تاریخ شاہد ہے کہ اردو زبان کی شیریں بیانی نے یہاں رہنے والی مختلف قوموں کو آپس میں اس طرح جوڑ دیا تھا کہ سبھی لوگ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہ رہے تھے۔ آج صرف پچاس سال قبل تک ہندی پٹی کہی جانے والی تمام ریاستوں کا کوئی بھی پڑھا لکھا شخص بلاتفریق مذہب و ملت اردو ضرور جانتا اور پڑھتا تھا، لیکن بنگلہ دیش جب پاکستان سے الگ ہوگیا تو ہندو تو طاقتیں جو منقسم ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا چاہتی تھیں انہیں اس بات کا علم ہوا کہ مذہب سے زیادہ زبان کی بنیاد ٹھوس او رمضبوط ہوتی ہے، چونکہ پاکستان کا قیام مذہب کے نام پر ہوا اوربنگلہ دیش زبان کی بنیاد پرالگ ہوگیا۔ لہٰذا ان لوگوں نے سوچا کہ اگر ملک کے ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لئے الگ کرناہے تو صرف مذہبی منافرت دوسرے سے ہمیشہ کے لیے الگ کرناہے تو صرف مذہبی منافرت پھیلانے سے کام نہیں چلے گا بلکہ ان کی زبانیں بھی الگ کرنی ہوں گی۔لہٰذا انہوں نے اس مشن پر زور لگانا شروع کیا او ر اردو زبان کی پامالی کا دور وہیں سے شروع ہوا اور اردو کے متبادل کے طور پر ہندی زبان کے فروغ کی کوششیں تیز ہوگئیں۔ اردو کو مسلمانوں کی مذہبی زبان قرار دے کر ہندو نسل کو اس زبان کی محبت سے دور کیا گیا۔

اب جیسے جیسے برادران وطن اس زبان سے دور ہوتے جارہے ہیں مذہبی منافرت اتنی ہی شدت سے بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اردو زبان وادب جو ہندوستان کی شاندار تاریخ کی گواہ اور اس کی گنگا جمنی تہذیب کی محافظ بھی ہے، اسے کیسے پامالی سے بچا یا جائے۔ اگر یہ زبان مٹ گئی تو ہماری شاندار تاریخ بھی یقینا مٹ جائے گی او راس وطن عزیز کی خوبصورت تصویر بھی مسخ ہوکر رہ جائے گی کیونکہ ہندوستان کی قومی یکجہتی ہی دراصل اس کی خوبصورتی ہے جس کی روح رواں زبان اردو ہے۔ اس وقت وطن عزیز میں جس طرح کا نفرتی ماحول پروان چڑھ رہا ہے اور مذہبی منافرت کی آگ سوچی سمجھی سازش کے تحت بھڑکائی جارہی ہے اس کا مداوا صرف اور صرف اردو زبان کی شیرینی میں مضمر ہے۔آج پھر سے اس زبان محبت کو ہر اس برادران وطن تک بلا امتیاز مذہب وملت پہچانے کی ضرورت ہے۔لیکن ہماری اردو اکیڈمیوں کے عہدے داروں اور اردو کی روزی روٹی کھانے کمانے والے حضرات کو پتہ نہیں کیو ں اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ حالانکہ موجودہ حکومت بہار نے فروغ اردو کے حوالے سے ”ڈوبتے کو تنکے کاسہارا“ کے مصداق کچھ کوششیں ضرور کیں ہیں لیکن اردو کے نام نہاد علمبردار اتنے بے حس ہیں کہ اس کی ترویج واشاعت کے لئے حکومت سے بھی خاطر خواہ کام لینے میں قاصر نظر آتے ہیں۔ صوبے کے سابق چیف سیکریٹری عامر سبحانی نے ایک بار اردو کے علمبردار وں کو مشورہ بھی دیا تھا کہ اردو زبان کی ترویج واشاعت کے لئے گزارشات پیش کریں۔ حکومتی سطح پر جو بھی کام لینا ہے وہ آپ مجھ سے لے سکتے ہیں لیکن نام نہاد علمبردار وں نے اس موقع کو بھی اپنی سرد مہری سے گنوادیا۔

اس ضمن میں میرا مشورہ ہے کہ ریاستی حکومت اگر واقعی اردو زبان کی ترویج واشاعت کیلئے سنجیدہ ہے تو آٹھویں جماعت تک اردو زبان کا ایک پرچہ بلاتفریق مذہب و ملت لازمی کردیا جائے۔ ساتھ ہی دسویں اور بارہویں جماعت میں اردو زبان کے ساتھ پاس بچوں کو حوصلہ افزائی رقم دی جائے۔ ایسا کرنے سے تمام طلباء کی اردو کے تئیں دلچسپی میں اضافہ ہوگا۔ ساتھ ہی تمام سرکاری ملازمین کے لئے بھی اردو رسم الحظ کا جاننا ضروری کردیا جائے او رانہیں اردو کی تعلیم کے لئے آن لائن ’دکشا ایپ‘ کی طرز پر ایک ایسا سرکاری ایپ بنا کردیا جائے جس میں ہندی زبان کی مدد سے اردو سیکھنے کی سہولت ہو۔

ساتھ ہی جس طرح تمام سرکاری ملازمین کو پرموشن پانے کے لئے ’ہندی ٹپن وپرا روپن‘ امتحان پاس کرنا لازم ہوتاہے۔ٹھیک اسی طرح اردو طرز نگارش کا بھی کوئی امتحان پاس کرنا لازمی ہو۔ سرکاری سطح کے جتنے بھی اردو اسکول اور کتب خانے ہیں ان میں تمام نصابی کتابوں کی فراہمی بروقت کرائی جائے۔ ابھی حال یہ ہے کہ کورسیز زمیں پڑھائی جانے والی صرف اردو زبان کی کتاب بھی بمشکل ہی ایک اسٹالوں پر ملتی ہیں۔ دیگر مضامین کی کتابیں تو شاید اب چھپی بھی نہیں ہیں اور جو کتابیں دستیاب ہیں ان نصابی کتابوں میں مضامین کے انتخابات میں ’ملٹی لنگوئل لرننگ‘ کی سطح کے معیار کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ یعنی جو مواد بالائی درجہ کے لئے مناسب ہے۔ اسے ثانوی درجے میں رکھا گیا ہے اور بعض اوقات جو ثانوی درجے کا مواد ہے اسے اعلیٰ درجے میں رکھا گیا ہے جو اردو کی تدریس میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ طلبا ء ثانوی درجے میں اردو کی ثقالت کا شکار نظرآتے ہیں۔ اکثر درجات کی اردو کتابوں کا نصاب اپنے معیار سے منفرد نظر آتاہے۔ اس میں بھی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ اساتذہ کی تربیت میں بھی اردو زبان کو بالکل درکنار کردیا گیاہے۔ دوسرے تمام مضامین او ر زبانوں کی تدریس کے لئے وقتاً فوقتاً اساتذہ کی ٹریننگ کرائی جاتی ہے لیکن اردو کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیاہے۔ اس ضمن میں بھی اردو کے سرکاری بہی خواہوں کی فعالیت ضروری ہے کہ اردو اساتذہ کی بھی تربیت کا بہتر انتظام ہو۔ اب آن لائن تعلیم کا آغاز ہوچکاہے۔ تمام سرکاری اسکولوں میں اسمارٹ کلاسیز بنائی گئیں ہیں وہاں ہندی انگریزی اور دیگر مضامین کی تعلیم کے لئے آن لائن تعلیمی مواد فراہم ہے لیکن اردو زبان کے لئے ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

اردو کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ بہار اسکول اگزامنیشن بورڈ (بی ایس ای بی) کے امتحانات اور ریاستی سطح کے تمام امتحانات میں ہندی انگریزی کے علاوہ اردو داں طبقہ کو چاہئے کہ وہ طلبا ء کو بلاتفریق مذہب وملت اردو زبان کی طرف رغبت دلائیں۔ ان کے درمیان مسابقتی پروگرام کا انعقاد ہو۔ تمام لوگوں کو اردو زبان کی شیرینی اورلذت سے روشناس کرائیں۔ عوامی سطح پر جتنے بھی اردو جاننے والے لوگ ہیں انہیں چاہئے کہ اردو زبان وادب او راپنی تہذیب وثقافت کو بچانے کے لئے ذاتی طور پر کوشش کریں۔ گاؤں گاؤں میں کتب خانوں کا قیام کریں۔ مشاعروں کا انعقاد کریں اور کم از کم اپنے دوغیر مسلم دوستوں کو اردو ضرور سکھائیں۔

29 نومبر،2024،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/practical-survival-urdu-language/d/133867

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..