ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
23 مئی 2025
فکر و عمل، حکمت و تدبیر، مفاہمتی تحریک،تعمیر وتشکیل کی جستجو اور فلاحی سرگرمیوں کی حقانیت یہ وہ چند کلیدی نکات ہیں جو کسی بھی میدان میں ترقی کی علامات کی شکل میں سامنے رہتے ہیں۔ دوسری بات تنقید اور تنقیص سے راست تعلق رکھتی ہے۔ یہاں منطق منفی اور مثبت دونوں کا مرکب ہو سکتی ہے اور نہیں بھی۔ یاد رکھئے اس دور فتن میں تخریب کو بھی ہمیشہ تعمیر کا جامہ پہنا کر پیش کیاجاتا ہے۔ جملہ بھاری ہے مگر حقیقت کا آئینہ دار ہے۔ اس تلخ حقیقت کو ذہن میں ضروری رکھیں۔
فطرت انسانی جس کا سیدھا تعلق حواس خمسہ سے ہے۔ پہلا سمع (سننا)، دوسرا بصر (دیکھنا)، تیسرا شم (سونگھنا)، چوتھا ذوق (چکھنا) اور پانچواں لمس (چھونا) سے ہے۔
دوسری تفصیل حضرت امام غزالیؒ سے منقول ہےجس کے مطابق حواس خمسہ کی تشریح ظاہری اور باطنی بنیادوں پر کی گئی ہے ۔قوت حسیہ (سابقہ پانچ حواس)، قوت خیالیہ (قوت ارادی یاخیالی)، قوت عقلیہ (ذہنی اہلیت و دماغی صلاحیت)، قوت فکریہ ( غور و فکر، تجزیہ و تحقیق کی صلاحیت) اور قوت قدسیہ ( باطنہ) کاتعلق ( شریعت، روحانیت،طریقت،معرفت اور حقیقت) سے ہے ۔شریعت یعنی احکام خداوندی پر عملدرآمد، روحانیت یعنی ہر شئے میں وحدانیت کا ظہور دکھائی دینا ، طریقت اسوۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل و غیر مشروط اطاعت و اتباع، معرفت یعنی انوار الہٰی کا ظہور واظہار اور حقیقت وہ آخری منزل جہاں حقیقت سے رسائی کی کیفیت کا من جانب اللہ و مشیت الہٰی کے تحت وجود میں آنے کا امکان رہتا ہے) عبادات و عملیات کے نتائج اللہ رب کریم کی عطا اور خالص اس کے فضل پر موقوف رہتے ہیں۔ وہاں محض فریاد اور ریاضت کا حق ہے کوئی دعویٰ قائم نہیں کیا جا سکتا ( انبیاء علیہ السلام، اولیاء اللہ اور اللہ کے نیک بندے اس زمرے میں آتے ہیں) عشرۂ مبشرہ جن کو جنت کی بشارت ان کی زندگی میں ہی دے دی گئی وہ اس تفصیل سے مستثنیٰ قرار پائے۔ واللہ عالم بالصواب!
قرآن کریم کے مضامین، تعلیمات، احکام خداوندی، اسوۂ حسنہ اور فقہ اسلامی سب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مرکبات و تشریحات میں شامل ہیں۔ اللہ رب العزت انسان ( مسلم و مومن)سے کیا چاہتے ہیں؟
’’صبر، قناعت،توکل اور تقویٰ، انسان اور انسانیت کا احترام، ماحول اور ماحولیات میں طہارت و پاکیزگی، اعلیٰ اخلاقیات، غلاظت، بیہودگی، بد دیانتی، بد زبانی، بدکاری، بد خیالی اور بے ربط زندگی سے مکمل کنارہ، غریب غرباء، مساکین، فقراء، حاجت مند، متروکہ، مطلقہ اور محتاجوں کی مدد، دادرسی، ہمت و حوصلہ افزائی، حتی المقدور ان کی جائز ذرائع سے مالی مدد و معاونت، محروم، مظلوم، محکوم، مجبور، بے بس،لاچار، کمزور اور ناتواں کے ساتھ کھڑےہونا، بد کار، بدتمیز، بے حیاء، بے حس، بے ایمان، جھوٹے، مکار، فریبی، خائن اور ناقابل اعتبارشخص کے لئے ہدایت کی دعا اور اس کی اصلاح میں آپکا تعمیری کردار چاہتا ہے۔‘‘
’’ظلم، جبر، زیادتی، ناانصافی، نا قدری اور پامالی کی ہر شکل سے کنارہ اور دوری چاہتا ہے۔ بالآخر عدل پر مبنی معاشرہ اللہ رب العزت کی وہ چاہت و حکمت ہے جس کے گرد بنی نوع انسان سے جڑی تمام سرگرمیاں، تگ و دو، جدو جہد حتیٰ کہ جہاد فی سبیل اللہ تک کا گشت اور گردش گویا کچھ بھی اس سے باہر نہیں۔‘‘
امت مسلمہ کو جو کردار رب کریم نے عطا کیا اور جس پر اس کے انفرادی، اجتماعی، ادارہ جاتی، خاندان،گرد و نواح ، پڑوس، محلے، بستی، کالونی، شہر، ریاست، ملک، بین الاقوامی گویا ہر حلقہ زندگی کی بقا، سلامتی، تعبیر، تعمیر و تباہی موقوف ہے ہم امت وسط کس حد تک اس فریضے کی ادائیگی کر پا رہے ہیں آج یہ سوال آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ ایک متبادل محض تنقید اور نقص نکالناہے جبکہ خالص اسلامی رجحان مجھے مثبت اور تعمیری فکر کی طرف کھینچے لئے جارہا ہے۔
اس پس منظر کے ساتھ اپنے وطن عزیز کے تناظر میں ایک تجزیہ آپ کے گوش گزار کر رہا ہوں۔ اللہ رب کریم کا بڑا شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں زمین کے اس خطے میں پیدا کیا جس کے بارے میں ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں ۔جس کی تعبیر اس خطے میں اسلام اور مسلمانوں کی قبولیت، مقبولیت و معقولیت کے حوالے سے اپنے آپ میں بے مثل ہونا ہے۔ یہ وہ ملک و معاشرہ ہے جس نے روز اول سےاسلام کی دعوت و تبلیغ کو زمین فراہم کی۔ آج بھی الحمدللہ یہ عمل پوری آب و تاب سےجاری ہے۔ صدیوں یہاں مسلم اقتدار رہا، اکثریت جس کااٹوٹ حصہ رہی۔ ساتھ ملکر رہے، لڑے، جوجھے مگر ایک جسم کی طرح بنے رہے۔ ہمارا آج بھی کچھ اس سے زیادہ مختلف نہیں! گلے شکوے، شکایتیں، محرومیاں، دقتیں اور پریشانیاں زندگی کا معمول ہیں جن سے نبرد آزما ہوا جاتا ہے۔ یوں بھی زندگی جد و جہد کا نام ہے۔ آزمائشیں، امتحان اور ناکامیاں بالکل اسی طرح فطری ہیں جیسے کامیابیاں، ترقیاں اور تعمیر نو!
ایک معاشرے کےطور پر دیکھیں پانچ لاکھ مساجد، ۲۵۰۰۰ سے زائد اردو میڈیم اسکول،۳۲ سے زائد ڈیمڈ یا مکمل منظور شدہ یونیورسٹیاں، ہزارہا اعلیٰ تعلیمی ادارے، مدارس اسلامیہ، خانقاہیں، لا تعداد ملی تنظیمیں اور تحریکیں ،پر امن عبادات کا نظم و نسق، اربوں کی زکوٰۃ، صدقات، حسنات، کفالت کا منظم اور غیر منظم ملک گیر نظم، تعلیمی عمل کا ہر سطح تک پہنچ جانا،اس کی اہمیت و افادیت کا غیرمعمولی ا حساس آج غضب کی خود اعتمادی پیدا کر رہا ہے۔ ہم سب کا یہ پختہ ایمان و عقیدہ ہے کہ عزت، ذلت، مشکل، محرومی، جبر، ظلم، آسانی، سہولت، ہمدردی، ترقی، تنزلی، شکست و فتح، اچھا برا حکمراں، جائے پیدائش و موت یہ سب منشی و مشیت ربی کے تابع ہیں۔ اسلام وہ عقیدہ ہے جو ذہنی بے چینی اور اضطراب کی ہر کیفیت اور مایوسی پر فتح حاصل کرنے میں مفلس و نادار تک کو اطمینان قلب عطا کرتا ہے۔ اللہ اکبر!
جب کوئی ناگہانی آفت مومن کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے تو ایک ہی بات اس کے دل سے نکلتی اور زبان سے ادا ہوتی ہے موت اللہ کی مشیت، حادثات سے اللہ نے بہت بچایا، بیماری میں اللہ شافی اور اللہ ہی کافی، رزق بندے سے نہیں، اپنے خالق سے مانگتا ہے، عدل حاکم اور نظام سے مانگتا ہے جتنا ملے اس پر شکر اور جہاں کمی یا محرومی اس میں اللہ کی حکمت دیکھتا ہے، معذور ، مجبور،بے یار و مددگار ہو مگر مانگتا اسی سے ہے۔ آزمائش کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہو اپنے خدا سے کبھی گلہ کرتے دیکھا، سوال ہی نہیں۔ ایمان کی دولت کو سب سے بڑی دولت سمجھنے والی وہ قوم جو ہر آزمائش کو قرب الٰہی اور اس کی مصلحت سے جوڑ کر دیکھتی ہے اور سورہ الفتح کے اس پس منظر میں حالات کو سمجھتی ہے جس میں وقتی ناکامی میں فتح مبین کی ضمانت کا یقین پوشیدہ رہتا ہے۔اللہ اکبر
ضعیف العقیدہ، دنیا، مادے اور مادیت پرستی کے مارے مٹھی بھر حلقے مسلمانان ہند کو یہ کہہ کہہ کر کہ وہ ڈر رہا ہے ،اس کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں، خوف میں آپ ہیں وہ نہیں، وہ نہ ڈر رہا ہے اور نہ اسے کوئی ڈرا سکتا ہے۔ البتہ یہ حلقے ڈر اور خوف کی پوری فصل اگا رہے ہیں کچھ تو اسے کاٹ بھی رہے ہیں ۔مومن اور ڈر کا کوئی ساتھ ہی نہیں۔ ہم من حیث القوم ایمان میں ہر مسئلے کا حل رکھتے ہیں۔ میں کوئی ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کی تلقین نہیں کر رہا ہوں مگر اللہ کے رسولؐ کی زندگی کے کس دور سے حالات کی مطابقت ہے فیصلے اس بنیاد پر ہونے چاہئیں اور جب ایسا ہوگا تو پھر خوف کی جگہ حکمت عملی جگہ پائیگی۔
وطن عزیز میں آئین ہے، ادارے ہیں، عزت نفس کی زمین ہے، قانون کی حکمرانی اور بالا دستی ہے،،آزاد عدلیہ ہے، اکثریت کی سوچ جمہوری اور سیکولر ہے، آج بھی آپکی لڑائی اکثریت ہی لڑتی ہے ، سرکاری اسکیمیں سب تک پہنچتی ہیں، تعصب اورتفرقے کی شکلیں الگ ہیں مگر ان سب کا کہیں نہ کہیں سب کوسامنا ہے، کوئی مسلمان تنہا ٹارگیٹ ہے ایسا نہیں، کوئی ایک وحدت یا اکائی پوری طرح ہر معاملے میں ایک ہو ایسا کبھی ہوتا ہے تو کبھی نہیں بھی ہوتاہے ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ فکر و عمل، قول و فعل کی نہج ہمیشہ مثبت رہے۔ اللہ پر بھروسہ رہے،ایمان و آئین کی بالادستی ہمارا محور رہے اور ہم بھڑکنے والی کیفیت سے دور رہیں۔
مسلمانان ہند نہایت دانشمندی، پا مردی، حکمت و مصلحت سے مفاہمت کو زمین دیتے ہوئےآج جس طرح کے اخلاق کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ میں اس پر آپ کو داد و تحسین کےساتھ سلام تحسینپیش کرتا ہوں۔ آپ اور آپ کے اخلاق و اخلاقی رویوں میں آج بھی بہت کچھ معیاری اور تقلیدی ہے۔حوصلہ بلند رکھئے۔ جو ہے اس پر شکر کیجیے، جودرکار ہے اس کیجد جہد سے پیچھے نہہٹئے اور برادران وطن سے رشتوں میں گرماہٹ کو ترجیح دیجیے۔
--------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/positive-angles-guarantee-reconstruction/d/135644
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism