عزیز احمد قاسمی
13 نومبر ، 2012
اللہ تعالیٰ نے ‘‘ دین اسلام ’’ کو ہمیشہ
رہنے والا ‘‘دین ناسخ’’ کے ذریعہ سے دیگر ‘‘آسمانی ادیان ’’ کو منسوخ کردیا ہے، کیونکہ
اس میں انسانی زندگی کے تمام پہلو : عقائد، عبادات ، معاشرت ، معاملات ، اخلاقیات کا
‘‘ جامع لائحہ عمل’’ پیش کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے :آج میں نے تمہارے لئے
دین کو کامل کردیا، اور تم اپنا انعام بھر پور کردیا، اور تمہارے لئے اسلام کو دین
ہونے پر رضا مند ہوگیا (سورۃ المائدہ :3) دین اسلام میں عورتوں اور مردوں کے حقوق واضح
طور پر بیان کئے گئے ہیں ، اسلام نے عورت کو بڑی عزت و رفعت سے نوازا ہے، اس کا ذکر
قرآن کریم میں بڑے اچھے انداز سے کیا گیا ہے اس کے حقوق واضح کئے گئے ہیں ، چنانچہ
اللہ تعالیٰ نے ایک پوری سورت کا نام ‘‘ سورہ ٔ مریم ’’ رکھا ہے، نیز ایک مکمل طویل
سورت کا نام ‘‘ سورہ نساء ’’ رکھا ، جس میں عورت کے مکمل حقوق بیان کئے گئے ہیں۔
حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہ ایک
صحابیہ ہیں ان کے معاملے میں ‘‘ سورہ مجادلہ’’ نازل ہوئی جس میں ‘‘ظہار ’’ کا حکم بیان کیا گیا ہے (ظہار کا مطلب ہے بیوی کو یہ
کہہ دینا کہ تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے، زمانہ جاہلیت میں ‘‘ظہار ’’ کو
طلاق سمجھا جاتا تھا، اسلام نے اس کا کفارہ بتلایا )، اور یہ حکم تمام مسلم عورتوں
کے لئے تا قیامت عام ہوگیا ۔ قرآن کریم میں بہت سی جگہوں پر عورتوں کا ذکر آیا ہے
ان میں سے چند جگہیں یہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت عمران کی بیوی کا
اپنے پیٹ میں بچے کی ‘‘نذر ’’ کا ذکر کیا ہے: جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے میرے رب
میرے پیٹ میں جو کچھ ہے اسے میں تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانی ، تو میری طرف سے
قبول فرما، یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے ۔ ( سورہ آل عمران
:35)
نیز حضرت مریم علیہا السلام کی آزمائشوں
کا ذکر کیا ہے ، چنانچہ ارشاد باری ہے : اس کتاب میں مریم کا بھی واقعہ بیان کر جب
کہ وہ اپنے گھر کے لوگوں سے علیحدہ ہوکر مشرقی جانب آئیں اور ان لوگوں کی طرف سے پردہ
کرلیا ، پھر ہم نے اس کے پاس اپنی روح (جبریل علیہ السلام ) کو بھیجا پس وہ اس سے سامنے
پورا آدمی بن کر ظاہر ہوا ۔ ( سورہ مریم :17) موسی ٰ علیہ السلام کی والدہ کا اپنے
لخت جگر موسیٰ علیہ السلام کے نظروں سے ارجھل ہوجانے کے بعد کا ذکر ‘‘ سورہ نمل ’’
، ‘‘سورہ قصص ’’ میں کیا ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے: ہم نے موسی ٰ علیہ السلام کی ماں
کو وحی کی کہ اسے دودھ پلاتی رہ ، اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے
دریا میں بہا دینا ، او رکوئی ڈر خوف یا رنج و غم نہ کرنا، ہم یقیناً اسے تیری طرف
لوٹا نے والے ہیں اور اسے اپنے پیغمبر وں میں بنانے والے ہیں ۔ ( سورہ القصص:7)
قرآن کریم نے ‘‘سورہ مریم ’’ میں فرعون
کی بیوی حضرت آسیہ بنت مزاحم کے فرعون کی جانب سے شدت اور سختی اور آزمائش کا ذکر
کیا ہے چنانچہ ارشاد دربانی ہے: اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی بیوی
کی مثال بیان فرمائی جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب میرے لئے اپنے پاس جنت میں مکان
بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا، اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے ۔(سورۃ
التحریم :11)
قرآن نے حضرت شعیب علیہ السلام کی دونوں
صاحبزادیوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ ان کی حسن تربیت کی منجانب اللہ تو صیف اور تعریف کا
ذکر کیا ہے چنانچہ ارشاد بار ی ہے : اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف
شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی ، کہنے لگی کہ میرے باپ آپ کو بلا رہے ہیں ، تاکہ آپ
نے ہمارے (جانوروں) کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام
ان کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا تو وہ کہنے لگے کہ اب نہ ڈر تو نے
ظالم قوم سے نجات پائی ۔(سورۃ القصص :25)
یہی نہیں بلکہ دونوں بہنوں میں سے ایک
نے اپنے والد حضرت شعیب علیہ السلام سے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو تجویز پیش
کی اس کا بھی ذکر قرآن پاک میں کیا ہے : ان دونوں میں سے ایک نے کہا کہ ابا جی انہیں
مزدوری پر رکھ لیجئے کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھ رہے ہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے
جو مضبوط اور امانت دار ہو۔ (سورۃ القصص :26)
واضح ہو کہ اس خاتون کی یہ تجویز ملازمت
او رکاروباری سلسلے میں ‘‘قاعدہ کلیہ ’’ بن گئی ۔
عورتوں کے قدر ومنزلت کی ہی تو بات ہے
کہ فرشتوں نے حضرت مریم علیہا السلام کو خطاب کیا چنانچہ ارشاد ربانی ہے : جب فرشتوں
نے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح
عیسی بن مریم ہے، مقربین میں سے ہے ۔ (سورہ آل عمران :45)
نیز دوسری جگہ ان کو فرشتوں نے ایک بچے
کی ولادت کی بھی خوشخبری سنائی جس کا نام عیسی بن مریم ہوگا چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
قرآن کریم نے حضرت ذکریا علیہ السلام
کے تذکرہ میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ جب جب وہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس
جاتے تھے تو من جانب اللہ ان کے پاس نازل کیاہو ا رزق دیکھتے تھے ۔ چنانچہ ارشادہے:
جب کبھی ذکرریا علیہ السلام ان کے حجرہ میں جاتے ان کے پاس روزی رکھی ہوئی پاتے، وہ
پوچھتے اے مریم یہ روزی تمہارے پاس کہاں سے آئی؟ وہ جواب دیتیں کہ یہ اللہ تعالیٰ
کے پاس سے ہے بیشک اللہ تعالیٰ جسے چاہے بے شمار روزی دے۔ ( سورہ آل عمران :37)
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حوا علیہا
السلام کے جنت میں داخلہ کا ذکر کیا ہے ، حضرت حوا کو عورت ہونے کی بنا پر جنت میں
داخلہ سے محروم نہیں رکھا
گیا، چنانچہ دونوں جنت کی نعمتوں اور خوشیوں سے بہرہ ور ہوتے تھے ، ارشاد باری
ہے : او رہم نے کہہ دیا کہ اے آدم تم او رتمہاری بیوی جنت میں رہو ، اور جہاں کہیں
سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو، لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظالم ہو جاؤ گے
(سورہ بقرہ :35)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں
جب فرشتے آئے تو ان کو اور ان کی اہلیہ دونوں کو حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت
کی خوشخبری دی، چنانچہ ارشاد ربانی ہے : اس کی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی وہ ہنس پڑی ،
تو ہم نے اسے اسحاق کی ، اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی (سورہ ہود:17)
قرآن کریم نے مومن مردوں کے ساتھ ساتھ
عورتوں کا بھی ذکر ‘‘ سورہ احزاب ’’ میں کیا ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے : بیشک مسلمان
مرد او رمسلمان عورتیں ، مومن مرد اور مومن عورتیں ، فرمانبرداری کرنے والے مرد اور
فرمانبردار عورتیں ، راست باز مرد اور راست باز عورتیں ، صبر کرنے والے مرد اور صبر
کرنے والی عورتیں ، عاجزی کرنے والے مرد اورعاجزی کرنے والی عورتیں ، خیرات کرنے والے
مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں ، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں
، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، بکثرت اللہ کا ذکر
کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ان (سب کے) لئے اللہ تعالیٰ نے وسیع مغفرت
او ربڑا ثواب تیار کر رکھا ہے (سورۃ الاحزاب :35)
یہی نہیں بلکہ مردوں او ر عورتوں دونوں
کے اعمال صالحہ پر برابر ثواب کے وعدہ کا ذکر قرآن میں کیا ہے، اس میں کم و بیشی کا
کوئی تصور نہیں : چنانچہ ارشاد ربانی ہے : پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول کرلی کہ تم
سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت میں ضائع نہیں کرتا، تم آپس
میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو (سورہ آل عمران : 195)
نیز دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے : جو ایمان
والا ہو مرد ہو یا عورت او روہ نیک اعمال کرے ، یقیناً ایسے لوگ جنت میں جائیں گے ،
اور کھجور کی گٹھلی کے شکاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا ( سورۃ النساء :
124) تیسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ان ایماندار مردوں او ر عورتوں سے اللہ
نے ان جنتوں میں ہیں، اور اللہ کی رضا مندی سب سے بڑی چیز ہے، یہی زبردست کا میابی
ہے (سورۃ التوبہ :72)
قرآن کریم نے ‘‘ولی امر’’ کو عورت کے
مہر کو پورا پورا دینے کا حکم دیا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: اور عورتوں کو ان کے
مہر راضی خوشی دے دو، اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش
ہوکر کھالو (سورۃ النساء4)
اللہ تعالیٰ مردوں اور عورتوں کے حقوق
کی ضمانت کے طور پر ارشاد فرمایا ہے: چنانچہ ارشاد ربانی ہے : اور اس چیز کی آرزو
نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر بزرگی دی ہے، مردوں کا اس
میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے
کمایا ، اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو یقیناً اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے
(سورۃ النساء :32) نیز دوسری جگہ ارشاد ہے: اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے
ان پر مردوں کے ہیں اور اچھائی کے ساتھ، ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے، اور اللہ
تعالیٰ غالب ہے، حکمت والا ہے (سورۃ البقرہ :228)
اسلام نے عورت کو جو مقام بخشا ہے اس کا
تصور کسی اور مذہب میں نہیں کیا جاسکتا ، اس کی فرمانبرداری اور خدمت کے پیش نظر اسلام
نے یہ پیغام دیا کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اطاعت اور خدمت
گزاری میں ماں کا درجہ باپ پر تین گنا زیادہ بتلایا گیا، ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
میری خدمت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا تمہاری ماں، صحابی رضی
اللہ عنہ نے دوبارہ سوال کیا، آپ نے فرمایا تیری ماں، صحابی رضی اللہ عنہ نے تیسری
بار یہی سوال کیا، آپ نے ارشاد فرمایا تیری ماں، صحابی رضی اللہ عنہ نے چوتھی بار
اسی بات کا اعادہ کیا ؟ آپ نے جواباً ارشاد فرمایا تیرا باپ۔ عورت کے مقام کی رفعت
و بلندی ہی کی تو بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حج و عمرہ میں صفا اور مروہ کے درمیان حضرت
ہاجرہ علیہا السلام کی دوڑ کو بھی حجاج و معتمرین پر واجب قرار دیا ، صفا مروہ کے درمیان
‘‘سعی’’ ان ہی اقتداء میں تو ہے ، یہ ‘‘سعی’’ کیا ہے؟ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اپنے جگر گوشہ حضرت اسماعیل علیہ السلام
کے لئے پانی کی تلاش و جستجو میں دونوں پہاڑوں پر کسی قافلہ کی آمد کو دیکھنے کے لئے
دوڑی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا پسند آئی اور قیامت تک کے لئے حجاج اور عمرہ
کرنے والوں کے لئے اس سعی کو فرض قرار دے دیا، چنانچہ ارشاد ربانی ہے : صفا او رمروہ
اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں ، اس لئے بیت اللہ کا حج وعمرہ کرنے والے ان کا
طواف کرلینے میں بھی کوئی گناہ نہیں ، اپنی خوشی سے بھلائی کرنے والوں کا اللہ قدر
دان ہے ، اور انہیں خوب جا ننے والا ہے۔ (سورۃ البقرہ : 158
عورت کے مقام و مرتبہ ہی کے پیش نظر سرکار
دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ‘‘خدمت والدین’’ کو جہاد فی سبیل اللہ پر مقدم فرمایا،
ایک صحابی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے جہاد
میں شرکت کی اجازت چاہی، آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ صحابی
رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جی ہاں زندہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،
انہی دونوں میں جہاد کرو، یعنی ان کی خدمت کرو یہی تمہارا جہاد ہے۔ یہی نہیں بلکہ قرآن
پاک نے والدین کی خدمت ، ان سے نرم لہجہ میں گفتگو ، ان سے احسان و بھلائی کو فرض قرار
دیا ، نیز ان کے حقوق کی عظمت کے پیش نظر اپنی عبادت کے حکم کے فوراً بعد ان کی اطاعت
کا ذکر کیا، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم
اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، اگر تیری موجودگی
میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے ‘‘اف’’ تک نہ کہنا
، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا، بلکہ ان کے ساتھ ادب اور احترام سے بات چیت کرنا (سورہ نبی
اسرائیل :23) ان آیات مبارکہ میں شریعت نے والدین کو ان کےمقام و مرتبہ کی بلندی کے
پیش نظر باوقار الفاظ سے خطاب کرنے کا حکم دیا ہے، اورکسی اکتاہٹ یا ناراضگی کے الفاظ
کہ ‘‘اف’’ تک کہنے کو ( جو ناگواری کا ادنی درجہ ہے) حرام قرار دیا ہے ۔ قرآن کریم
نے قرابت داروں ، دادا ، دادای ، بھائی بہن، چچا چچی ، پھوپھی ، خالوخالہ وغیرہ سے
‘‘صلہ رحمی’’ کو واجب قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے : اور تم سے یہ بھی بعید
نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو، او ررشتے ناطے توڑ
ڈالو ، یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے، اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی
چھین لی ہے( سورہ محمد : 22:23) خصوصی قرابت داروں میں عورتیں شامل ہیں، چنانچہ ارشاد
ربانی ہے: اور رشتہ داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو، اور اسراف
اور بیجا خرچ سے بچو (سورہ بنی اسرائیل :27) اسلام نے خالہ کو والدہ کی جگہ اور پھوپھی
کو والد کی جگہ قرار دیا ہے۔ شریعت اسلامی نے والدین کی نافرمانی کو سخت گناہ قرار
دیا ہے یہاں تک کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی نافرمانی کو کبیرہ
گناہ قرار دیتے ہوئے اس کا ذکر شرک کے ساتھ کیا ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ کیا میں
تمہیں کبیرہ گناہوں سے باخبر نہ کروں؟ صحابہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا ضرور، آپ
نے ارشاد فرمایا کہ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ والدین کی نافرمانی کے ‘‘جرم عظیم’’ ہونے کی باعث اپنی والدہ کے ساتھ کھانا کھانے
سے بچتے تھے، جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو میرا ہاتھ ان کے ہاتھ سے کسی
کے لینے میں بڑھ جائے ، اور میں نافرمان شمار ہوں، سبحان اللہ ! صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کو جس قدر والدین کی خدمت کا خیال رہتا تھا، اور نافرمانی سے کس قدر ڈرتے
تھے ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کو پیٹھ پر لاد کر ان کو طواف کررہے تھے ،
انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اے امیر المومنین رضی اللہ عنہ ! کیا میں
نے اپنی والدہ کی خدمت کا حق ادا کردیا؟ امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
تمہاری ولادت کے وقت ان کو رہ رہ کر جو درد زہ ہورہا تھا اس ایک تکلیف کا بھی حق ادا
نہ ہوا۔
عزیز احمد قاسمی ، مرکزی جمعیۃ علما ء
ہند کے جنرل سکریٹری ہیں
13
نومبر ، 2012 بشکریہ : روز نامہ صحافت ، نئی
دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/position-description-women-light-quran/d/9287