ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
27 ستمبر،2024
انتخابات کے آس پاس ایک بحث یا مکالمہ بعنوان اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے مسلم حلقے میں چلتاہے بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں بیانئے سامنے آتے ہیں دعوے اور ایشوز کادور چلتاہے،میر صادق اور میر جعفروں کی نشاندہی بھی ہوجاتی ہے۔ضمیر او رملت فروشی کے سیاسی فتوے بھی صادر ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بیچ میں قرآن و حدیث کے حوالے بھی آجاتے ہیں گویا شاید ہی کچھ بچتا ہو۔یہاں تک کہ ہر مجلس میں ایک قائد ملت بھی دریافت ہوجاتاہے اس پس منظر کوذہن میں رکھیئے۔
سناتن دھرم کے ماننے والوں کی وطن عزیز میں کل آبادی 80 فیصد ہے جس میں 5 فیصد برہمن کے علاوہ بقیہ اعلیٰ ذات جیسے ویش، کائست، راجپوت اور ٹھاکر وغیرہ 10 فیصد ہیں۔ اوبی سی،ایس سی، ایس ٹی سب ملاکر65فیصد ہیں۔ مسلمان17فیصد سے کم نہیں۔ساڑھے پندرہ فیصد اگر ملک کے سارے نظام پر حاوی ہوسکتے ہیں تو آپ 17 فیصد ہوتے ہوئے اتنے بے دست و پاکیوں؟ محض 5فیصد برہمنوں کو روز اوّل سے پہلے پروہت کی شکل میں او ربعد میں بابائے قوم او رمنتخب حکمرانوں کے طور پر تقریباً ساڑھے پانچ دہائی راست اقتدار حاصل رہا۔ خو د کو ایک طرف ہندوکہلواتا رہا مگر اسی مذہب کی دیگر ذات والوں کو کم اور ایک بڑی تعداد کو اچھوت اور پست ذات بھی گردانتا رہا۔دیگر طبقات بھی اپنے کو اس سے کمتر سمجھتے رہے۔ منڈل۔مندر کی سیاست نے اس سماجی نشیب کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ تصویر کا رخ اس حد تک بدلنے لگا کہ اب بالواسطہ برہمن او ر دیگر اعلیٰ ذات لابی اقتدار پرشکنجہ مضبوط رکھنے کے لئے حکمت عملی کے تحت پست ذات دہندہ کو صدارت،نائب صدارت،وزارت عظمٰی اور وزارت اعلیٰ جیسے عہدوں پر فائز کرنے لگی مگر یہ سب ان کی ذاتی طاقت کے نتیجے میں نہیں بلکہ رعایت اور احسان کے طور پر ریاستی پر یادو بہار میں 16اور اتر پردیش میں 19 فیصد کے ساتھ سالہا سال اقتدار میں رہے او ر ہم برابر کی آبادی کے باوجود کہاں ہیں؟
مسلمانان ہند 60 پارلیمانی حلقوں میں راست اپنے بل بوتے پر اور لگ بھگ 150 حلقوں میں ہار جیت میں فیصلہ کن کردار رکھنے کے باوجود بے دست و پا دوسرے کے در کے بھکاری او رجیتنے کے بعد بھی رسی سے بھی بندھا ہوا، دوچار کو چھوڑ دیجئے۔کئی ریاستوں جیسے کشمیر 68,31فیصد،آسام 34فیصد،بنگال 37فیصد،اتر پردیش 20 فیصد، بہار 18فیصد، جھارکھنڈ 15فیصد،اترا کھنڈ 14فیصد،کرناٹک 3فیصد، مہاراشٹر 12فیصد،گجرات،آندھرا،راجستھان،تریپورہ،منی پور،گوا میں 9فیصد کے آس پاس مگر کیرالا، تلنگانہ اور آسام چھوڑ کر بقیہ سب جگہ آزادانہ حیثیت سے محروم! آسام میں جماعت،قیادت اور خاصے اراکین کے باوجود بھی ریاستی سیاست میں بے دست و پا! یہ تفصیل بھی ذہن میں رکھ لیں۔
پچھلے جمعہ کے مضمون میں ایک جملہ تحریر کیا تھااس کو دوہراتے ہوئے بات کو آگے بڑھاتا ہوں۔ سیکولر سیاست اور ہندوتو کی سیاست ایک میں مسلم حمایت اور دوسر ے میں اس کی مخالفت ہار اور جیت میں فیصلہ کن کردار رکھتی ہے۔ البتہ اس کا استعمال جس طر ح ہورہاہے اس میں ہم مجبور، مفلوج اور معذور بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک کی ہم جیب میں پڑے ہوئے ہیں اور دوسرا اپنی جیب سے باہر رکھ کر اقتدار میں آرہاہے۔
ہماری قومی سیاست کی روز اوّل سے دودھارا ئیں رہی ہیں ایک سیکولر جو گاندھی او رانڈین نیشنل کانگریس کی شکل میں اور دوسری نظریہ ہندوتو جو آر ایس ایس او ربی جے پی یا سنگھ پریوار کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ یہاں ساورکر، گولوالکر، ہیکڑیوار اور آج موہن بھاگوت ہندوتو سے راست او راٹل بہاری واجپئی،لال کرشن اڈوانی،مرلی منوہر جوشی، کشا بھاؤ ٹھاکرے اور آج نریندر مودی بی جے پی کی مقتدر شخصیات ہیں۔
مسلمانان ہند پہلی دھارا سے ہی جڑارہا اورآج بھی ایسا ہی ہے۔دوسری سے براہ راست کبھی نہیں جڑا! ہاں بالواسطہ بی جے پی کے سیکولر اتحادیو ں کے ذریعہ این ڈی اے کی شکل میں ضرور! سیدھا کوئی تجربہ مسلمانان ہند کے ساتھ نہ بی جے پی نے کسی ایجنڈے کے ساتھ کیا اورنہ ہی مسلمان ہند نے اجتماعی طور پر کبھی اس طرح کی کوئی پہل کی یہ الفاظ دیگر یکطرفہ صورتحال حد تک جھک گئی کہ جس نے ہم کو اس حد تک معذور بنادیا کہ آج ہم سیاسی،سماجی واقتصادی پسپائی کے آخر ی کنارے پر کھڑے ہیں۔ اس لمحہ فکر یہ میں اب جب کہ عام انتخابات ہوچکے ہیں تو اگلے ساڑھے چار برس کا وقت کسی نئی سمت طے کرنے کے لئے کافی ہے۔
آج کا عنوان خالصتاً مسلم سیاست اور اس کا مستقبل ہے۔ جس میں تین نکات آتے ہیں۔اوّل قومی سطح پر مسلم قیادت، دوسرے مسلم سیاسی جماعت اور تیسرے 20کروڑ مسلمانان ہند۔ ہر تنگ نظری سے اوپر اٹھ کر، ہر طرف سے اپنے کو فارغ کرکے جو متفقہ طو رپر ملی نظم تشکیل پائے اس کے پیچھے آہنی دیوار کی طرح کھڑاہوجائے، قائد کی رائے کا اپنے کو پابند بنائیں، یہ نظم اور اس کا قائد اگر کہے کھمبے کو ووٹ دو۔خالص مسلم اکثریتی حلقے ہوں تب اس کے نامزد امیدوار وں کی سیدھی حمایت دیگر میں جہاں جس کے ساتھ وہ معاملہ طے کرے اس کے ساتھ اگر ایسا آپ کرسکیں تو وطن عزیز کا سیاسی منظر نامہ ہی بدل جائے گا، آپ کی یکطرفہ حمایت اور مخالفت،سمجھوتے پر مبنی سیاست کو یقینی بنادے گی۔ رہا سوال کہ سارا ہندو سماج ایک ہوجائے گا۔اکثریت کبھی ایک طرف نہیں رہ پاتی۔فریقین کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اس خوف ونفسیات سے باہر آنا ہوا۔ ادھر یہ اصول بھی پیش نظر رہے کہ سیاست میں نہ کوئی مستقل دوست ہوتاہے اور نہ ہی دشمن۔ معاملہ او رصرف معاملہ مسلم نوجوان کاعملدار آمد میں بنیادی کردار رہے گا۔
اگر آج نتیش 12 /اور چندر بابو نائیڈو 16/ سیٹ سے 240 /والی قومی سیاست جماعت کو یرغمال بناسکتے ہیں۔مایاوتی ایک ووٹ سے مرکز میں سرکار گراسکتی ہیں، چھوٹی علاقائی جماعتیں دس بیس سیٹیں حاصل کرکے مرکز میں سرکار یں بناتی اور توڑتی رہی ہیں توکیا آپ اس کے متحمل نہیں ہوسکتے؟ آپ میری کئی تحریروں کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں۔ آج میں آپ کو اسی کٹہرے میں کھڑا کررہا ہوں، کیا ایسا کرسکتے ہو؟ جو اب آپ کے پاس ہے میرے پاس نہیں ہے۔ میں نے 1996 میں مسلم سیاسی جماعت او رطریقہ کارکر کے عنوان پر قلم اٹھایا تھا۔ اس کاایک اقتباس ملاحظہ کریں:”اگر ہندوستان کا مسلمان اور اس کے ذمہ داران اس اصول پر متفق ہیں کہ مسلم سیاسی جماعت، قیادت اور سیاسی نظریہ ہی سارے مسائل کا حل ہے اور آپ سب کی ملت پرستی مفروضہ نہیں ایماندارانہ ہے تو کیرالا میں مسلم لیگ، سلیمان سیٹھ اور غلام محمود بنات والا جیسی ایماندار قیادت موجود، اقتدار میں حصے داری، اہم ترین وزارتیں بطور مثال موجود،تمام مقتدرمسلم شخصیات،چھوٹی بڑی جماعتیں اور وحدتیں ان آزمودہ کے پیچھے بنا شر ط کھڑی ہوجائیں۔ ہوگیا مسئلہ حل“۔
جو آج سے 28/برس قبل کہا اب پھر دوہرا رہا ہوں اگر ہمت ہے ایماندار ہو واقعی وہ چاہتے ہو جو کہہ رہے ہو، اسی کو حل مانتے اور گردانتے ہو تو بنا شرط پور ی قوم آج کے بنات والا اور سلیمان سیٹھ،بیرسٹر اسدالدین اویسی کو اپنا قومی قائد ما ن کر سب ان کے پیچھے کھڑے ہوجائیں۔ علمیت، لیاقت، سیاسی بلاغت، آئین وقانون کو سمجھ او راپنے موقف کابرملا اظہار کرنے اور اس پرجمنے پر کوئی سوال نہیں او رکیا چاہئے؟
مجھے معلوم ہے آپ ایسا نہیں کریں گے صرف باتیں بناتے ہیں۔میرا جیسا پھر کچھ دیگر سجھائے گا تووہ جوٹکے ٹکے بکتے ہیں، سودا کرتے ہیں، پیسہ لے کر اخبار میں اپیلیں جاری کرتے ہیں، جذباتی تقریریں اور شعلہ بیانی کرتے ہیں، روز نئی تنظیمیں بناتے ہیں، معصوم مسلمان کا خون گرم کرتے ہیں۔ ان سے ہوشیار ہوجائیں؟
میر ا موقف نرسمہاراؤ کے وقت تھا کہ کانگریس کو بچا لو فرد آتے جاتے رہتے ہیں، اگر آج ایسا نہ کیا تو جنہیں تم روکنا چاہ رہے ہو پہلے وہ آئیں گے، جائیں گے اور پھر آجائیں گے۔ اس کے بعد 1998 میں کہا کہ اٹل بہاری واجپئی سے بہتر بی جے پی کے ساتھ معاملہ کبھی ممکن نہ ہوگا۔ موقع غنیمت ہے میری ایک نہ مانی پھر جو ہوا وہ سامنے ہے۔ نریندر مودی نے پہلے پانچ سالہ دور میں پورا موقع دیا۔
دوسرے دور کی شروعات جیت کر آئے لوک سبھا اراکین سے پہلے خطاب میں کہا ہم کو مسلمانو ں کادل جیتنا ہے۔اپنے نعرے میں سب کا وشواس جوڑا۔کہیں جو ں نہیں ر ینگی۔ اب پانی کتنا بہہ گیا؟ اکیلے اکیلے سب ملنے جارہے ہیں۔کون نہیں نام بتائیے، آر ایس ایس کی قیادت سے کون نہیں ملا او رمل رہا ہے؟ جس کو ایک فون چلاجائے اورکہا جائے تقریر اور وعظ کچھ بھی کرتا ہو دوڑا چلا جاتا ہے۔ یہ کڑوی سچائیاں ہیں۔ باتیں سخت ہیں مگر کرنی ضروری ہے۔ میرا جس سے جو تعلق رہا ،ڈنکے کے چھوٹ پر رہا اور آج بھی الحمد الله ایسا ہی ہے۔منافقت اور شرک جہاں ہوگا، وہاں ہوگا، میرے یہاں نہیں ہے۔ اسی لئے آزادانہ طور پر جو صحیح سمجھتا ہوں وہ لکھتا ہوں اور آگے بھی ایسا ہی رہنے والا ہے۔ حقائق سامنے رکھ دیئے ہیں فیصلہ آپ کو کرناہے؟
27 ستمبر،2024،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/politics-future/d/133332
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism