New Age Islam
Tue Jun 24 2025, 12:14 PM

Urdu Section ( 3 Jun 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Political Status of Studying Religions مطالعہ مذاہب کی سیاسی حیثیت

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

3 جون 2025

مذاہب و ادیان اور افکار و نظریات کے عروج و ارتقا اور نشوونما کے احوال کی  جانکاری کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت کے سیاسی حالات سے بھی واقفیت ہونی چاہیے ۔  اس کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مذاہب کی متعلق اسی وقت درست تجزیہ کیا جاسکتا ہے جب تجزیہ نگار اور محقق و مصنف کو یہ پتہ ہو کہ اس مذہب کی بالادستی یا زوال کے اسباب و عوامل سیاست تو نہیں ہے اگر سیاست کی حصہ داری ہے تو کس قدر ہے۔ یہ سچ ہے کہ بھارت کی سرزمین پر کئی مذاہب وجود میں آئے اور انہوں نے نشونما بھی پایا  اور کسی نہ کسی شکل میں آج بھی یہ  مذاہب وافکار اور ادیان و نظریات اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ موجود بھی ہیں ۔ جن میں ہندو مذہب کے ساتھ ساتھ جین دھرم اور بدھ دھرم شامل ہیں آخر میں سکھ دھرم نے اپنے پاؤں پسارے۔

ایک محقق کی ذمہ داری ہے کہ وہ جب بھی ہندوستانی مذاہب کی تاریخ پر روشنی ڈالے تو اسے ان مذاہب کی حقیقی تاریخ اسی وقت معلوم ہوگی یا ان مذاہب کی بابت وہ صحیح بات اسی وقت پہنچا سکتا ہے جب کہ اس دور کے سیاسی حالات کو بخوبی سمجھ سکتا ہو ۔

چھٹی صدی عیسوی میں جب بھارت میں جین دھرم وجود میں آیا اور اس کے بانی مبانی مہاویر جین نے اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج کی تو اس وقت بھارت میں موریہ سلطنت کا قائم تھی ۔ اس لیے مذاہب کے طالب علم پر یہ جاننا واجب ہوجاتا ہے کہ وہ  اپنی تحقیقی کاوش میں اس بات کو بتائے کہ موریہ سلطنت کا جین مت کے عروج و ارتقا میں کوئی عمل دخل تھا یا نہیں؟  حکومت موریہ کا جین مت کے عروج و ارتقا میں کیا رول ہے ؟   ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ جین دھرم کی  ابتداء کے متعلق روایات حتمی نہیں ہیں ہاں جین مت کے آثارِ قدیمہ متحدہ  بھارت موجودہ پاکستان کے  سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں خاص طور پر پائے جاتے ہیں۔ ان میں نگر پارکر، تھر پارکر اور دیگر مقامات پر واقع  جین دھرم کی عبادت گاہیں اور دیگر آثار شامل ہیں. ان آثار قدیمہ کو دیکھ کر  یہ قیاس کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جین دھرم کی بقاء اور ارتقاء میں اس وقت بھارت میں موجود موریہ حکومت کا تعاون ضرور رہا ہو گا۔

اسی طرح جب کوئی محقق بدھ دھرم پر تحقیق کرنا چاہے تو اس کی تحقیق جامع اسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ وہ بدھ دھرم کے وجود میں آنے اور اس کے عروج و ارتقا تک پہنچنے میں سیاسی طور کیا تعاون رہا ہے اس کا تفصیلی جائزہ پیش کرے ۔

مثلآ جس وقت بدھ دھرم نے اپنا وجود قائم کیا اس وقت بھارت میں اشوک اعظم کی حکومت تھی اور اشوک اعظم نے بدھ دھرم کو اختیار بھی کرلیا تھا ۔ اب اندازہ لگایئے کہ جب اس وقت کی سیاسی طاقت کا تعاون بدھ دھرم کے ساتھ تھا تو اس کے لیے حکومت کا رویہ کس قدر روادار رہا ہوگا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ اس لیے محقق جب تک بدھ دھرم کے ساتھ حکومت کے تعاون کا تذکرہ نہ کرے تو یہ تحقیق ادھوری ہوگی اور عوام تک صحیح پیغام نہیں جاسکتا ۔ بدھ دھرم کے کثرت سے موجود آثار قدیمہ بھی بتاتے ہیں کہ اس مذہب کواشوک اعظم کی حکومت کا خاصا تعاون تھا کیوںکہ اس نے خود بدھ دھرم کو قبول کرلیا تھا ۔

متذکرہ بالا دونوں مذاہب نے جنم ہندو دھرم کی کوکھ سے ہی لیا ہے اس کی وجوہات مؤرخین اور محققین نے یہ لکھی ہے کہ ہندو دھرم میں ذات پات کے نظام نے عوام کو کافی رنجیدہ کردیا تھا اس لیے ہندو دھرم میں موجود ذات پات کے نظام سے دل برداشتہ ہوکر یہ دو تحریکیں وجود میں آئیں جن میں سے پہلی تحریک نے جین دھرم کو وجود بخشا اور دوسری تحریک بدھ مت کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔

اسی طرح سکھ دھرم کی اصل تاریخ اور اس کے جغرافیہ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت کے سیاسی احوال سامنے رہیں جس وقت سکھ دھرم نے بھارت کی سرزمین پر اپنا وجود قائم کیا ۔سکھ مذہب پنجاب میں نمودار ہوا اور سہ طرفی سماجی ،سیاسی اور مذہبی سطح پر برہمنی مت کے اثرات اور رسوم و روایت پر مبنی نظام کے خلاف محاز آرائی کا علم اٹھایا۔ سکھ دھرم کے طالب علم کو چاہیے کہ وہ سکھ دھرم کی ابتداء کے سیاسی احوال کو پیش کرے تاکہ حقائق کا انکشاف ہوسکے ۔ جب سکھ دھرم نے اپنا وجود قائم کیا تو تاریخ کے مطابق  لودھی خاندان کی حکومت تھی ۔ البتہ بارہویں صدی کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب مذہب اسلام کے علمبرداروں کے ہاتھوں دہلی سلطنت کی بنیاد پڑ چکی تھی ۔یہی وہ انقلابی عہد ہے جبکہ وسط ایشیا اور ایران پر منگولوں کے حملے کے نتیجے میں یہاں کے مسلمانوں نے ہندوستان کو اپنا ٹھکانہ بنایا تھا ان دو وقتی مگر مستحکم بنیادوں سے مستزاد ہندوستانیوں میں اسلام کی اشاعت و تبلیغ وہ محرک  خاص تھی جس نے تہذیبی لین دین اور باہمی اشتراک و تعاون کی فضا کو سازگار بنا دیا تھا ۔

متذکرہ حقائق و شواہد کی روشنی میں یہ بات کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذہب و دھرم اور  کسی بھی تحریک و نظام کے عروج و زوال اور اس کے فروغ و ترویج میں سیاست کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے۔ یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر کوئی نئی تحریک سماج میں اٹھ رہی ہے ، حکومت چاہے تو فوری طور پر اس کو ختم کرسکتی ہے اور اگر اس تحریک کے مشمولات سے رواں حکومت متفق ہے تو وہ تحریک اپنا اثر سماج پر ڈالتی ہے ۔

رواں حالات میں جس تیزی سے ہندوتوا اور ان کے افکار و نظریات کا فروغ ہورہا ہے اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ اس نظریہ کو فی الحال حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ  آج ہندوتوا کے  علمبرداروں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ملک آزاد 2014 میں ہوا ہے ، ان کا اشارہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف ہوتا ہے کیوںکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت 2014 میں  آئی ہے ۔

تحریکوں اور مذاہب و ادیان کی روح اور ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ  اس وقت کے سیاسی حالات کو باریکی سے سمجھا جائے ۔ سیاسی فضاء کے بدلنے سے سماج کے ہر پہلو پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اس لیے مذاہب کی تاریخ و تہذیب اور ان کی تعلیم و تمدن کو سمجھنے کے لیے سیاسی احوال کو سمجھنا ناگزیر ہے ۔

بھارت میں پیدا ہونے والی تحریکیں اور ادیان و مذاہب اپنی ایک زمین رکھتے ہیں، جن سے تاریخ کے واقعات بھی وابستہ ہیں اور سیاسی و سماجی جغرافیہ بھی وابستہ ہے ، ان کی صحیح صورت حال اور جغرافیہ سے مکمل جانکاری بے حد ضروری ہے ،اس سے صرف علمی تشنگی ہی دور نہیں ہوتی ہے بلکہ ان معاشروں اور قوموں کے مزاج کو سمجھنا بھی آسان ہوتا ہے جو قومیں اور معاشرے ان تحریکوں اور مذاہب و ادیان کے حاملین کہے جاتے ہیں ۔ جب مذاہب و ادیان کی مکمل معلومات سے واقفیت پیدا ہو جاتی تو سماج میں  علمی و تحقیقی بنیادوں پر ان خطوط پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے جن کی بدولت سماج میں یکجہتی کا نظام قائم کیا جاسکے ۔

آج بھارت کو جو چیزیں پر افتخار بناتی ہیں ان میں نمایاں طور پر وہ روایات و اقدار ہیں جن پر تکثیری سماج کا ایمان و یقین ہے جو تمام معاشروں کے لیے یکسانیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس لیے مجموعی طور پر تمام مذاہب کے حاملین اور متبعین کو چاہیے کہ وہ مشترکہ اقدار کی بقاء و سالمیت کے لیے مل جل کر سعی کریں تاکہ ہم ایک صحت مند سماج تشکیل دے سکیں ۔

-------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/political-status-studying-religions/d/135763

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..