New Age Islam
Mon May 12 2025, 05:12 PM

Urdu Section ( 8 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Political Proximity of BJP towards Backward Muslims پسماندہ مسلمانوں کےتئیں بی جے پی کی سیاسی قربت

  کرسٹاف جیفریلو، کلیا رسن اے

2 ستمبر،2023

چند ماہ قبل، بھوپال میں بی جے پی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ان کی پارٹی کے جانب سے غریب مسلمانوں کو فراہم کردہ سیاسی قربت کو اعلیٰ برادری کے مسلمانوں کے ذریعہ غریب و پسماندہ مسلمانوں کے سنگین استحصال اور دیگر سیاسی پارٹیوں کی ووٹ بینک والی سیاست کے بیانیہ سے تقویت ملے گی۔ وزیر اعظم کی اس تقریر اور بی جے پی کے حالیہ دنوں میں پسماندہ مسلمانوں کو اپنانے کے واقعات نے ہندوستانی مسلمانوں میں ذات پات کی بحث کو تیز کر دیا ہے ۔ حالانکہ ہندوستانی مسلمانوں میں ذات پات کی موجودگی کی نفی نہیں کی جا سکتی، البتہ ان ذاتوں کے مابین سماجی و معاشی نابرابری کی سنگینی ہندو قوم کے بالمقابل برائے نام ہے۔

ہمارے ملک میں مسلمانوں کی وسیع تر درجہ بندی تین ذاتوں میں کی جاسکتی ہے۔ اشراف،اجلاف اور ارذال ، جن کا تقابل بالترتیب اعلیٰ ذاتوں، دیگر پسماندہ طبقات )او بی سی( اور دلتوںسے کیا جاسکتاہے۔ بحیثیت مجموعی دلت مسلمان خود کو سروے رپورٹوں میں درج فہرست طبقات )ایس سی( کے طور پر متعارف نہیں کراتے ہیں کیونکہ انہیں ایس سی ریزرویشن سے باہررکھا گیا ہے۔ ان کی ذاتیں عمومی طور پر او بی سی فہرست میں شمار کی جاتی ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں میں او بی سی ۶۰ فیصد، اعلیٰ ذاتیں ۳۸؍فیصد اورایس سی ؍ ایس ٹی ۲؍فیصد ہیں۔ یہ ساری برادریاں مختلف غیر مرکوزجغرافیائی علاقوں میں آباد ہیں۔ مثال کے طور پر اتر پردیش اور بہار کے ۷۶؍ فی صد مسلمان پسماندہ ہیں جن میں او بی سی اور دلت شامل ہیں۔ حالیہ دنوں میں جاری کردہ سروے رپورٹس سے حاصل شدہ کثیرجہتی تغیرات  جیسےدولت کا تصرف، نوکریوں تک دسترس اور تعلیم کی حصولیابی کو استعمال کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں میں واقع سماجی عدم مساوات کا جائزہ لیا اور اس کا موازنہ ہندو آبادی میں موجود سماجی عدم مساوات کی صورتحال سے کیا۔

۲۰۱۹ءمیں ہندو اعلیٰ ذاتوں کی فی کس دولت کمانے کی شرح۸۶۴۹۸۴ روپے تھی جبکہ ہندو اوبی سی میں یہ شرح۴۲۷۱۴۹ روپے اور دلتوں میں۲۲۸۴۳۷ روپے تھی۔ مسلمانوں میںاعلی ذاتوں کی فی کس دولت کمانے کی شرح ۳۴۳۰۱۴روپے اور مسلم او بی سی میں۳۱۰۹۲۲ روپے تھی۔ معلوم یہ ہوا کہ اوسطاً ہندو اعلیٰ ذاتوں کی دولت دلتوں سے تین گنا زیادہ تھی جبکہ یہ شرح او بی سی کی دولت سے دوگنی تھی۔ مسلمانوں میں یہ فرق صرف دس فیصد کا ہے۔ بہار جہاں پسماندہ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی رہتی ہے، مسلم ذاتوں کے مابین دولت کی نا برابری کا فرق بالکل معمولی ہے، صرف دو فیصد جبکہ مدھیہ پردیش میں پسماندہ مسلمانوں کی دولت کمانے کی صورتحال اشراف سے۱۴؍ فیصد بہتر ہے۔اس کے برعکس اتر پردیش میں( جہاں ابھی بھی زمیندار اشرافیہ کے باقیات موجود ہیں) یہ فرق ۴۳؍فیصد ہے۔ جبکہ اگر ہم یوپی میں ہندو ذاتوں میں دولت کے فرق کا موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندو اعلیٰ ذاتیں او بی سی سے دوگنی اور دلتوں سے تین گنی زیادہ دولت کی مالک ہیں۔ یہی رجحان اخراجات کے معاملے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔۲۲ ۔۲۰۲۱ کے اعداد و شمار کے مطابق مسلم اعلیٰ ذاتوں میں ماہانہ فی کس اخراجات۲۱۸۰ روپے تھے اور اس کےبالمقابل پسماندہ مسلمانوں میں یہ شرح ۲۱۵۱ ؍روپے تھی، صرف ۱ء۴؍ کا معمولی فرق۔ ہندو ذاتوں میں متعلقہ اعداد و شمار قدرے مختلف تھے: ۳۳۲۱ ؍روپے کے ساتھ اعلی ذاتیں، او بی سی(۲۱۸۰ ؍روپے) کے بالمقابل۴۰ ؍فیصد اور دلتوں( ۲۱۲۲ روپے) کے مقابلے میں۵۷ ؍فیصد زیادہ خرچ کررہی تھیں۔ یوپی کے مسلمانوں میں یہ فرق کافی کم تھا، صرف۶ء۲؍فیصد اور بہار میں یہ فرق۱۰ ؍فیصد کا تھا۔ جبکہ یہ فرق یو پی کی ہندو اعلیٰ ذاتوں اور او بی سی کے درمیان۴۸ ؍فیصد اور دلتوں کے بیچ ۶۰  ؍فیصد رہا ہے۔ بہار میں یہ فرق بالترتیب۲۷ اور۴۸ ؍فیصد تھا۔

تعلیم کی حصولیابی کے اعتبار سے بھی اشراف اور پسماندہ برادریوں کے مابین کوئی قابل ذکر۲۲ فرق نہیں پایا جاتا ہے ۔۲۲۔۲۰۲۱میں اعلی تعلیم حاصل کررہے اعلی ذات کے مسلم نوجوان(۱۸۔۲۳سال) کا فیصد۱۹ء۸؍فیصد تھا جو کہ پسماندہ نوجوانوں کے برابر تھا۔ اس کے برعکس،ہندو اعلی ذات کے نوجوانوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصد۴۶ء۵فیصدتھا جبکہ اس کے اعداد و شمار او بی سی میں۳۶ ؍اور دلتوں میں۲۶ ؍فیصد تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مدھیہ پردیش اور یو پی میں پسماندہ مسلمان اپنے ہم منصب اعلیٰ برادریوں سے بہتر حالت میں ہیں۔درحقیقت، یو پی میں مسلمانوں کی اعلی برادریوں کے تعلیمی اندراج میں منفی ترقی دیکھی جارہی ہے۔ نتیجہ۲۲۔۲۰۲۱میں ان کے اندراج میں۱۲ ؍فیصد تک گرگئی تھی جو کہ۱۲۔۲۰۱۱ میں ۱۴ ؍فیصدتھی۔ ہمارے علم کے مطابق یہ صورتحال ہندوستانی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی کیونکہ اب تک ہر سماجی گروہ کو وقت گزرنے کے ساتھ اعلی تعلیم کے مزید بہتر مواقع حاصل ہوئے ہیں۔

 مسلمانوں کی تعلیم تک کم رسائی کا اثر باقاعدہ نوکریوں کے حصول میں ہورہا ہے۔ تنخواہ دار ملازمین کی تعداد مسلمانوں میں۱۹ء۳؍ فیصدہے جبکہ اس کے مقابلے ہندوؤں میں ۲۱ء۵؍ فیصد ہے۔ حالانکہ مسلم اعلیٰ برادریوں اور پسماندہ آبادی میں اس معاملے میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، ہندو اعلیٰ ذاتوں میں تنخواہ دار ملازمین کی تعداد ۳۳ ؍فیصد ہے،۔او بی سی میں ۱۹ء۸؍فیصد اور دلتوں میں ۲۱ء۵؍ فیصد ہے۔ یوپی، بہار، راجستھان، مہاراشٹر، آندھراپردیش، اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں پسماندہ مسلمانوں کی حالت اعلیٰ برادریوں سے بہتر ہے۔ جب کہ ہندو اعلیٰ ذاتیں آج بھی اچھی نوکریوں میں اپنا دبدبہ رکھتی ہیں۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ، غیر مسلموں کے مقابلے میں مسلمانوں میں ذات اور برادری کے خطوط پر کوئی قابل ذکر امتیاز نہیں دیکھا جاتا ہے، جب کہ ہندو ایک انتہائی غیر مساوی کمیونٹی ہیں جن میں صرف ان کی اعلیٰ ذاتیں نفع میں ہیں اور مسلمان اجتماعی محرومی کا شکار ہیں۔ ان سب کے باوجود بی جے پی کے قائدین، پسماندہ مسلمانوں کو قریب کرکے 'تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل در آمد کریں گے، ٹھیک ویسے ہی جیسا کہ انہوں نے شیعہ اور بوہرہ سماج کےساتھ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مسلمانوں کے درمیان موجود ناقابل انکار طبقاتی تگ ودو(جو کہ باوجود اس کے کہ ہندوؤں کے طبقاتی امتیاز کے مقابلے میں ناقابل ذکر ہے) کا فائدہ اٹھائیں گے۔یوپی میں حالیہ لوکل باڈی انتخابات میں بی جے پی نے۳۹۵ مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے جس میں ۶۱ ؍نے جیت درج کرائی تھی۔ ۳۹۵ ؍میں سے تین چوتھائی امیدوار پسماندہ برادریوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے برعکس گزشتہ لوکل باڈی انتخابات میں پارٹی نے صرف ۱۸۰؍ امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں صرف ایک نے جیت درج کرائی تھی۔

 کلیاسرن، مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اسٹڈیز، چنئی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ پیرس میں سینئر ریسرچ فیلو رہے ہیں، ساتھ ہی ساتھ انڈین جیفریلو پالیٹکس اینڈ سوشیالوجی، کنگس انڈیا انسٹیٹیوٹ، لندن میں پروفیسر بھی ہیں۔

2ستمبر،2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

---------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/political-bjp-backward-muslims/d/130626

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..