New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 01:32 PM

Urdu Section ( 11 Dec 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Political Authority in Islamic Communities in Ibn Taymiyyan Discourse ابن تیمیہ کے مطابق مسلمانوں کی سیاسی اتھارٹی کا مسئلہ: اسلامی دہشت گردی کا ایک نسخہ ہرکارہ

 گریس مبشر، نیو ایج اسلام

 26 ستمبر 2023

 اسلامی دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا سب سے بڑا محرک مسلمانوں کے ہاتھوں میں سیاسی اقتدار دینے کا ناکام تصور ہے۔ القاعدہ، بوکو حرام اور طالبان کے سیاسی نظریات اس تصور کی حمایت کرتے ہیں۔ ہندوستان میں سرگرم دہشت گرد جماعتیں اور تنظیمیں بھی مسلمانوں کو سیاسی اقتدار دلانے کے تصور کے نشے میں مست ہیں جو نادانستہ طور پر سیکولر معاشروں کے ساتھ تصادم کا باعث بنتے ہیں۔

 اس دور جدید میں، اس تصور کو ابن تیمیہ نے اور بعد میں ابن عبدالوہاب، اور اخوان المسلمین جیسے اسلام پسند/ سلفی رہنماؤں نے اختیار کیا۔ یہ نظریہ اس بے بنیاد تصور پر مبنی ہے کہ شریعت اسلامیہ کے نفاذ کے لیے مسلمانوں کا سیاسی طور پر با اقتدار ہونا ناگزیر ہے۔ اس خیال کے حامی افراد سیکولر اور تکثیری معاشرہ پر زبردست حملے کرتے ہیں کیونکہ اس میں اسلام کے سیاسی اور قانونی مقاصد کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

 اسلام بطور ایک معاشرہ

 اسلامی سوسائٹی پر بحث کے دوران بنیادی مدعا یہ ہوتا ہے کہ آیا مسلمان ایک سیاسی برادری ہیں یا مذہبی برادری۔ دونوں تصورات کے درمیان فرق یہ ہے کہ اسلام کا تعلق سیاست سے ہو۔ جو مسلمانوں کو ایک سیاسی برادری مانتے ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ سیاسی طاقت کے بغیر اسلام کی کوئی شناخت نہیں ہے۔ ایک مذہبی نظریہ کے طور پر اسلام کے ساتھ سیاسی طاقت کا ہونا ناگزیر ہے۔ ہندوستان میں مودودی نے اخوان المسلمین کے خطوط پر اس نظریے کی حمایت کی۔

 وہ علماء جو مسلمانوں کو ایک مذہبی کمیونٹی مانتے ہیں وہ مذہب کے سیاسی عزائم کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ اگر اسلام پر عمل کرنے کی آزادی میسر ہو، خواہ انفرادی طور پر ہی سہی، تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سیاسی نظام کی اتباع کریں۔ مثال کے طور پر، ہندوستان میں یہاں کا آئین مسلمانوں کے سماجی اور مذہبی حقوق کا تحفظ کرتا ہے لہٰذا ہندوستان میں سیاسی اسلام کی جدوجہد ممنوع ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں اکثر ہندوستانی آئین کی پاسداری کرنے والے مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہیں کیونکہ بنیاد پرست مسلمان شریعت کو چھوڑ کر آئین ہند پر متفق نہیں ہو سکتے۔

مسلمانوں کو ایک مذہبی معاشرہ ماننا میثاق مدینہ میں پایا جا سکتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا بنیادی مقصد صرف ایک مذہبی معاشرہ قائم کرنا تھا جس میں تنوعات کی گنجائش ہو اور جو سیاسی مسائل کا حل پیش کرتا ہو، نہ کہ بالکلیہ ایک خودمختار سیاسی اتھارٹی ہو۔ میثاق کی اصول وضوابط سے اسلام کی سیاسی شکل بالکل واضح ہے۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو مسلمانوں کو ایک مذہبی معاشرے کی شکل میں جمع کرتا ہے۔ اسلام پر بطور مذہب کے ایسے کسی بھی سیاسی نظام میں اس وقت تک عمل کیا جا سکتا ہے جب تک اسلام کو عبادت کے لیے سیکولر اور معروضی آزادی حاصل ہو۔

 ابن تیمیہ اور اسلام بطور سیاسی طاقت کے

 ابن تیمیہ اپنے زمانے کے بڑے عالم تھے۔ اسلام کے حوالے سے ان کا علمی مقام ومرتبہ اپنے دور میں مذہب کی اصلاح اور تجدید واحیاء کی ان کی کوششوں سے عیاں ہے۔ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب بدلے ہوئے ماحول اور جغرافیائی وسیاسی حالات کی ذرا بھی پرواہ کیے بغیر ان کے نظریات کو نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قرون وسطی کے کسی بھی عالم کی طرح انہوں نے اپنے زمانے کے مسائل کا بہترین انداز میں حل پیش کیا، لیکن آج کے دور جدید میں ان کے نظریات افادیت بخش نہیں رہے۔ آج کے بدلے ہوئے عالمی تناظر میں ان کے افکار وخیالات فرسودہ ہو گئے ہیں۔ لیکن بنیاد پرست جماعتیں ان سب کے باوجود اپنے موقف کی تائید کے لیے ان کی علمیت کا سہارا لیتی ہیں۔

 تقی الدین ابن تیمیہ (1328-1263) اسلامی تاریخ کے انتہائی متنازعہ فیہ اسلامی مفکرین میں سے ایک ہیں۔ آج وہابی تحریک اور سلفی جماعتیں جو اسلام کے سنہرے دور کے احیاء کا دعوی کرتے ہیں، ابن تیمیہ کی خوب تعظیم کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں بنیاد پرست جماعتوں کے حق میں تشدد اور مسلح تصادم کا جواز فراہم کرنے کے لیے تحریک وترغیب کا مصدر منبع رہی ہیں۔

 جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ان کا دور ایک نازک ترین دور تھا جب منگولوں نے مسلمانوں کو کچل اور مسل کر رکھ دیا تھا۔ ان کے سیاسی خیالات مسلمانوں کے زوال اور ان کی تباہی وبربادی کا ردعمل تھے۔ 1258ء میں بغداد کو منگولوں نے فتح کیا اور پورے شہر کو تہس نہس کر دیا اور خلافت اسلامی کے دارالحکومت ہونے کی اس کی حیثیت کو بھی ختم کر دیا۔

سیاسی اسلام پر ان کی سب سے پہلی تحریر 1293 میں منظر عام پر آئی۔ اسی سال شائع ہونے والے ایک مقالے میں انہوں نے کہا کہ ’’طاقت واختیار کا کوئی بھی استعمال، خواہ سیاسی ہو خواہ مذہبی، اللہ کے قانون پر مبنی ہونا چاہیے‘‘۔ انہوں نے منگولوں کے حملے کے بعد اسلامی اصلاحات کی ذمہ داری سنبھالی۔ 1315 میں جب انہیں قاہرہ میں گرفتار کیا گیا تو انہوں نے اسلامی سیاست پر ایک جامع کتاب تصنیف کی۔

ان کے بنیادی دلائل یہ تھے:

 1. دین، سیاسی اسلام کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا

 2. اسلامی قانون کا نفاذ ناگزیر ہے۔

 3. مسلمانوں کا جائز سیاسی اقتدار قرآن و حدیث پر مبنی ہونا چاہیے۔

 4. انہوں نے دارالاسلام اور دارالحرب کے تصورات کو واضح کیا اور اسلامی سیاست سے خالی روئے زمین کے تمام خطوں کو دارالحرب قرار دیا۔

 5. کہا کہ مسلمانوں کی سیاست کی بنیاد اللہ کی حاکمیت پر یقین ہونا چاہیے۔

 مختصر یہ کہ وہ جدید دور کے اسلام پسندوں کے دلائل کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ انہیں اسلام میں داخل ہونے والے نئے نظریات پر سخت اعتراض تھا اور انہیں غیر اسلامی کہہ کر یکسر مسترد کر دیا۔ انہوں نے صوفی اسلام کی بھی مخالفت کی اور پوری دنیا میں مسلمانوں کی سیاسی بالادستی کے حصول کے لیے سیاسی اسلام کی حمایت کی۔ ان کے دلائل اس تاریخی تناظر میں افادیت بخش تھے جب مسلمانوں کو منگولوں کے ہاتھوں سیاسی پسپائی ملی تھی۔ اس کے علاوہ وہ چاہتے تھے کہ مسلم معاشرے کی تعمیر نو قرآن و سنت کی تعلیمات کی بنیاد پر کی جائے۔ ان کے مطابق تمام مخلوقات کو چیزوں کا حتمی راز اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے اور اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر لینا چاہیے۔

 وہ بدعات کے بھی خلاف تھے اور اسلامی معاشرے میں کسی نئی ثقافت کے بھی خلاف تھے۔ انہوں نے اسلام کو ایک خالص معاشرے کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی جسے بعد میں سلفی تحریکوں نے ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ انہوں نے دفاعی جہاد کی حمایت کی اور تمام مسلمانوں سے منگولوں کے حملوں کا دفاع کرنے کی اپیل کی۔ ان کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول کے قانون کا نفاذ ہی سیاسی اور مذہبی اتھارٹی اور مسلم معاشروں کی اصلاح کی بنیاد تھا۔

 آج کے دور جدید میں ان کے سیاسی نظریات کے مضمرات

 ابن تیمیہ کو بہت سی اسلامی دہشت گرد جماعتوں کا فکری سرچشمہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسامہ بن لادن نے انکے فتووں کو امریکہ کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کے لیے استعمال کیا۔ بوکو حرام کی نظریاتی جڑیں اب بھی ابن تیمیہ کے سیاسی نظریات میں پیوست ہیں۔ دور جدید کے مسلم دہشت گرد گروہ سیکولر سیاست اور تکثیری معاشرے کے جواز کو مسترد کرتے ہیں اور اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں، جیسا کہ تیرہویں صدی میں ابن تیمیہ نے مطالبہ کیا تھا۔

 انہوں نے نظریاتی طور پر جمہوریت کو مسترد کیا جہاں انسان اپنے مطالبات اور ضروریات کے مطابق قانون سازی کرتا ہے۔ انہوں نے اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے مذہبی آمریت کی بھی حمایت کی، جو کہ ایک ایسا نظریہ ہے جس کی بہت سے مسلم دہشت گرد گروہ حمایت کرتے ہیں۔ مودودی نے جس ’’تھیوکریسی‘‘ کی وکالت کی ہے وہ جدید رنگ وآہنگ میں ابن تیمیہ کی ہی تعلیمات ہیں۔ دہشت گرد گروہ ریاست اور مذہب کی علیحدگی کے نظریہ کے خلاف ہیں، کیونکہ یہ ابن تیمیہ کی تعلیم کے خلاف ہے۔

بہت سے علماء کے مطابق القاعدہ کا نظریہ ابن تیمیہ کے نظریے سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ یہ اس طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے جو اکثر اسلام پسندوں کے ہاتھوں شریعت اسلامیہ کے نفاذ میں پایا جاتا ہے، کیونکہ وہ نہ صرف اسلامی قانون کے نفاذ کی کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ دوسروں کو اسے قبول کرنے پر مجبور کیا جائے اگرچہ اس کے لیے تشدد کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

اصل مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب قرون وسطیٰ کے ایک عالم کے نظریات کو اس دور جدید میں کسی بھی تنقیدی مطالعہ کے بغیر نافذ کیا جائے۔ اب حالات مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں کیونکہ قرون وسطیٰ کی سیاست کی اس دور جدید میں کوئی افادیت باقی نہیں رہی۔ فقہ اسلامی کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ حالات کے بدل جانے سے فتوے کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ابن تیمیہ کے سیاسی نظریات کی اب کوئی شرعی حیثیت نہیں رہتی۔

 مسلم دہشت گرد تنظیموں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قرون وسطیٰ کے سنہرے دور کا خواب دیکھتے ہیں جب مسلمانوں کو سیاسی بالادستی حاصل تھی۔ وہ سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے جدید نظریات سے مطمئن نہیں ہیں۔ قرون وسطی کے کسی عالم کے نظریات کا اس دور جدید میں اس کی عصری معنویت کا تجزیہ کیے بغیر استعمال کر کے۔ قرون وسطی کے علماء کے نظریات کی ازسر نو تعبیر وتشریح کرنا ضروری ہے، تاکہ عسکریت پسند گروہ ان کا غلط استعمال نہ کر سکیں۔

English Article: Political Authority in Islamic Communities in Ibn Taymiyyan Discourse: A Hot Recipe for Islamic Terrorism

URL: https://newageislam.com/urdu-section/political-authority-ibn-taymiyyah-islamic-terrorism/d/131290

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..