New Age Islam
Fri May 16 2025, 07:18 PM

Urdu Section ( 17 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Pir Muhammad Munis: The Pen That Fought for India’s Freedom پیر محمد مونس: وہ قلم جس نے ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کی

سید امجد حسین، نیو ایج اسلام

 15 مارچ 2025

ایک صحافی اور کارکن، پیر محمد مونس نے چمپارن میں برطانوی مظالم کو بے نقاب کیا، گاندھی جی کو جنگ آزادی میں شامل کیا، اور ہندی صحافت، کسانوں کے حقوق، اور سماجی انصاف کی حمایت کی، جس کے ہندوستان کی تحریک آزادی پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے۔

 اہم نکات:

 1. ایک صحافی اور استاد، مونس نے چمپارن میں برطانوی جبر کو بے نقاب کرنے کے لیے ہندی میں لکھا۔ پرتاپ میں اپنی تحریروں کے ذریعے کسانوں کی جدوجہد کو اجاگر کیا، جس کی وجہ سے وہ تدریسی خدمات سے برطرف کر دیے گئے۔

 2. برطانوی باغ بانوں نے کسانوں کو تنکٹھیا نظام پر مجبور کیا، اور سخت حالات میں نیل اگانے پر مجبور کیا۔ مونس نے ان کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کو دستاویزی شکل دی، اور اس استحصال کے خلاف جدوجہد کے لیے لوگوں کی حمایت اکٹھا کی۔

 3. مونس اور راج کمار شکلا نے گاندھی جی کو 1917 میں چمپارن کا دورہ کرنے پر راضی کیا، اور ستیہ گرہ شروع کیا جس کی وجہ سے تنکٹھیا نظام کا خاتمہ ہوا۔

 4. مونس نے کسانوں کے حقوق، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہندی کو قومی زبان کے طور پر فروغ دیا۔ وہ بہار ہندی ساہتیہ سمیلن کے بانی رکن تھے۔

 5. ہندوستان کی تحریک آزادی میں ان کے اہم کردار کے باوجود، مونس کو فراموش کر دیا گیا۔ صحافت، سماجی انصاف، اور مہاتما گاندھی کے چمپارن ستیہ گرہ میں ان کی خدمات زیادہ قابل تعریف ہیں۔

 --------

پیر محمد مونس

----------

تعارف

 1917 کے چمپارن ستیہ گرہ کی بطن سے جنم لینے والی انگریزوں کے خلاف بڑے پیمانے پر ترکِ موالات کی تحریک، جس میں مہاتما گاندھی براہ راست شامل تھے، ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں ایک اہم موڑ تھا۔ اس تحریک کے رہنما کے طور پر گاندھی جی کے کردار کو اچھی طرح سے درج کیا گیا ہے، لیکن بہار کے صحافی، استاذ اور کارکن پیر محمد مونس کی شخصیت کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ہندی صحافت اور سماجی انصاف کے فروغ، اور ساتھ ہی ساتھ چمپارن کے نیل کے کاشتکاروں کے مصائب کو اجاگر کرنے میں ان کی انتھک کوششوں کا، تاریخ کی سمت متعین کرنے میں اہم کردار تھا۔

 ابتدائی زندگی اور ادبی خدمات

 پیر محمد مونس 1882 میں بہار کے چمپارن ضلع کے ایک قصبے بیتیہ میں پیدا ہوئے۔ مونس نے نوآبادیاتی استحصال کے عروج کے دور میں پرورش پائی، اور انگریزوں کے ہاتھوں کسانوں پر ہونے والے مظالم کو قریب سے دیکھا۔ ان کے ہم عصروں میں سے زیادہ لوگ تر فارسی، اردو یا انگریزی کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے، لیکن مونس نے عام لوگوں کے ساتھ ہم کلام ہونے کی صلاحیت پر یقین رکھتے ہوئے ہندی میں لکھنے کا فیصلہ کیا۔

 ان کی ابتدائی زندگی ادب اور تعلیم و تعلم کے ساتھ مضبوط وابستگی سے عبارت تھی۔ انہوں نے بیتیہ راج ہائی انگلش اسکول میں بطور استاذ کے خدمات انجام دیں، جہاں انہیں ترقی پسند کے طور پر خوب شہرت ملی۔ تاہم، اپنی تحریروں کے ذریعے انہوں نے برطانوی مظالم کو پورے جوش و جذبے کے ساتھ طشت از بام کیا، جس کے سبب وہ انگریزی حکومت کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔ 1915 میں، چمپارن میں برطانوی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف، ان کی واضح صحافت کی وجہ سے انہیں تدریسی خدمات سے برطرف کر دیا گیا۔

 مونس نے پرتاپ جیسے ہندی اخبارات میں بہت کچھ لکھا، جس کے ایڈیٹر عظیم قوم پرست صحافی گنیش شنکر ودیارتھی تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں نیل کے کاشتکاروں کے ظلم و ستم کا واضح طور پر خاکہ پیش کیا، انگریزی حکومت کے جابرانہ اقدامات کے حوالے سے عوامی بیداری پیدا کی۔ ان کی غیر مصالحت پسند صحافت نے برطانوی حکمرانوں کو غضبناک کیا، جو انہیں اپنی سلطنت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔

 چمپارن: استحصال کا مرکز

 20 ویں صدی کے اختتام پر، چمپارن کے نیل کے کاشتکار یورپی باغبانوں کی طرف سے مسلط کردہ، ظالمانہ معاشی نظام کے بھنور میں پھنس گئے۔ کسان زمین کے ہر بیس میں سے تین حصوں پر نیل اگانے پر مجبور تھے، جس کے سبب تنکٹھیا نظام کے تحت خوراک کی فصلوں کی بھاری قلت ہو جاتی تھی۔ یہ استحصالی نظام ڈرانے دھمکانے، جسمانی تشدد اور معاشی بھتہ خوری کے ذریعے چلایا جاتا تھا۔

 مونس نے ان کسانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو چھاپنے کا ذمہ اٹھایا۔ اپنی تحریروں میں، انہوں نے یہ اجاگر کیا کہ کس طرح برطانوی باغ بانوں نے من مانا ٹیکس لگایا، زمینیں ضبط کیں اور مخالفت کو دبانے کے لیے تشدد کا استعمال کیا۔ ان کی تفصیلی رپورٹیں تنکٹھیا نظام کے خلاف رائے عامہ کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔

اس عرصے کے دوران، مونس نے ایک مقامی کسان راج کمار شکلا کے ساتھ قریبی تعلق قائم کیا، جو چمپارن کے کسانوں کی حالت زار کو ختم کرنے کے لیے پوری سرگرمی کے ساتھ کوشش کر رہا تھا۔ قومی مداخلت کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے، مونس اور شکلا نے مہاتما گاندھی کو چمپارن لانے کا عزم کیا۔

 گاندھی کو دعوت: تاریخ کا ایک اہم موڑ

 مونس نے شکلا کے ساتھ مل کر دسمبر 1916 میں انڈین نیشنل کانگریس کے لکھنؤ اجلاس میں گاندھی جی سے رابطہ کیا۔ شکلا نے گاندھی سے چمپارن کا سفر کرنے، اور کسانوں کے دکھوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے پر زور اصرار کیا۔ مونس نے تحریری دستاویزات اور ذاتی شہادتیں فراہم کیں، جس کے سبب گاندھی جی اس مسئلہ کی سنگینی سے آگاہ ہو گئے۔

 مہاتما گاندھی اپریل 1917 میں چمپارن پہنچے اور تاریخی ستیہ گرہ شروع کیا۔ وہ منظم انداز میں ہو رہے کسانوں کے استحصال سے فوراً متاثر ہوئے، اور برطانوی حکومت کو چیلنج کرنے کی ٹھان لی۔ مونس نے میٹنگوں کا انعقاد کرنے، شکایات ریکارڈ کرنے، اور گاندھی اور لوگوں کے درمیان ایک رابطہ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

 جب تحریک شروع ہوئی، گاندھی جی کو چمپارن چھوڑنے کا نوٹس دیا گیا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے ان کی گرفتاری ہوئی۔ مونس اور دیگر مقامی کارکنوں نے عوامی حمایت اکٹھا کی، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اس سے گاندھی جی کے مقصد کو تقویت ملے گی۔ اس مزاحمت کے نتیجے میں برطانوی حکومت نے باقاعدہ تحقیقات کیں، جس کے نتیجے میں بالآخر تنکٹھیا نظام کا خاتمہ ہوا۔

 چمپارن ستیہ گرہ ہندوستان کی آزادی کی لڑائی کا ایک اہم موڑ تھا، جس سے لوگوں کو یہ معلوم ہو گیا کہ انگریزی حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے، عدم تشدد کا راستہ ایک مناسب ذریعہ ہے۔ اگرچہ مہاتما گاندھی اس تحریک کے رہنما بن گئے، لیکن مونس جیسے افراد نے ہی اس تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔

 سماجی اصلاح کے لیے وقف ایک زندگی

 چمپارن ستیہ گرہ کی کامیابی کے بعد، مونس نے صحافی اور سماجی مصلح کے طور پر اپنا کام جاری رکھا۔ وہ کسانوں کے حقوق، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور لوگوں کو لسانی طور پر بااختیار بنائے جانے کے پرزور وکیل رہے۔

 مونس نے ہندی کو قومی یکجہتی کی زبان کے طور پر فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ وہ 1919 میں بہار ہندی ساہتیہ سمیلن کے بانی رکن تھے، اور 1937 میں اس کے 15ویں اجلاس کی صدارت بھی کی۔ ایک ایسے وقت میں جب ہندی، قومی زبان کے طور پر پہچان حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی، مونس کی خدمات نے ہندوستانی ادب اور سیاست میں ہندی کو وہ پہچان دلانے میں کافی مدد کی۔

 تاہم، انہوں نے اپنی خدمات کی ایک قیمت بھی چکائی۔ برطانوی حکومت نے انہیں ایک "خطرناک" فرد قرار دیا، اور ان کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی گئی۔ ان چیلنجوں کے باوجود، مونس اپنے مشن میں ثابت قدم رہے، اپنے قلم کو ناانصافی کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے۔

میراث اور پہچان

 ان کی انمول خدمات کے باوجود، پیر محمد مونس ہندوستان کی تحریک آزادی میں فراموش کر دیے گئے۔ ضرورت ہے کہ چمپارن ستیہ گرہ میں ان کا کردار، ہندی صحافت میں ان کی خدمات، اور سماجی انصاف کے لیے ان کی زندگی بھر کی لگن کو وہ پہچان ملے جس کے وہ حقدار تھے۔

 2015 میں، ایک ہندی سوانح عمری جس میں ان کی زندگی اور خدمات کی تفصیل تھی، بہار کے بیتیہ میں اس کا اجراء کیا گیا، جس میں ان کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔ مورخین اور اسکالرز نے ان کی خدمات پر روشنی ڈالی، خاص طور پر گاندھی کو چمپارن لانے میں ان کے کردار کو سراہا۔

 مونس کی کہانی ان لاتعداد گمنام ہیروز کی یاد دہانی ہے، جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کی راہیں ہموار کیں۔ سچائی اور انصاف کے لیے ان کا اٹوٹ عزم، ان کی نڈر صحافت، اور مظلوموں کے لیے ان کی حمایت انھیں تاریخی اہمیت کی حامل شخصیت بناتی ہے۔

 نتیجہ

 پیر محمد مونس صرف ایک صحافی ہی نہیں تھے۔ بلکہ وہ تبدیلی کی ایک لہر بھی تھے۔ ان کی تحریروں نے نوآبادیاتی مظالم کو بے نقاب کیا، ان کی سرگرمی نے مہاتما گاندھی کو متحرک کیا، اور ان کی قیادت نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں ایک اہم ترین تحریک کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

 جب کہ تاریخ اکثر عظیم شخصیات کو نمایاں کرتی ہے، لیکن مونس جیسی شخصیات ہیں — جنہوں نے پردے کے پیچھے انتھک محنت کی — جنہوں نے واقعی ہندوستان کی آزادی کی راہیں ہموار کیں۔ جیسا کہ قوم اپنے آزادی کے پروانوں کو یاد کرتی ہے، مونس کی خدمات کا اعتراف اور جشن منایا جانا چاہیے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ان کی میراث آئندہ نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی۔

 ---------------

English Article: Pir Muhammad Munis: The Pen That Fought for India’s Freedom

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/pir-muhammad-munis-fought-india-freedom/d/135199

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..