ادیس دودیریجا، نیو ایج اسلام
22 اپریل 2025
اسلامی تھیولوجی کی عمارت، بشمول اس کے فطرتِ الٰہی کے حوالے سے شاندار بیانات، صفات الہیہ کے حوالے سے پیچیدہ تفہیم، اور جامع عالمی نظریہ کے، قرآن و سنت کے دو ستونوں پر مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے۔ مذہب کے اندر بہت سے لوگ، خاص طور پر وہ جو بنیاد پرست ہیں یا سخت روایت پسند تشریحات پر عمل پیرا ہیں، ان کا یہ ماننا ہے کہ صرف یہ مقدس متون ہی ایک مکمل مذہبی نظام کے لیے کافی اور معروضی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، اسلامی فکر کو تشکیل دینے والے، تاریخی اور فکری دھاروں کا قریب سے جائزہ لینے سے، ایک گہری اور ایسی بنیاد کا پتہ چلتا ہے، جس کی طرف اب تک کسی کی توجہ ہی نہیں گئی: اور وہ ہے فلسفہ اور مابعدالطبیعات کا ناگزیر کردار۔ یہ تصور کرنا کہ خدا اور دنیا کے ساتھ اس کے تعلق کے حوالے سے ایک منظم اور نفیس تفہیم، صرف قرآن و سنت سے ہی اخذ کی جا سکتی ہے، جو فلسفے سے نکلنے والے سخت تصوراتی آلات اور فریم ورک سے خالی ہو، ایک نادانی کی بات ہے۔ مذہبی متون کی تشریح و ترتیب کا عمل، خاص طور پر جب وہ تجریدی تصورات مثلا صفات الہیہ کے ساتھ متعلق ہو، فطری طور پر فلسفیانہ مفروضات اور مابعدالطبیعاتی معروضات پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اسلامی تھیولوجی میں سب سے بنیادی تصور، جو تصورِ توحید کہلاتا ہے، وہ بھی مختلف تشریحات اور تصورات کا حامل ہے۔
خدا کی صفات کے بیان کا چیلنج توحید پرست مومنین کے لیے ایک آفاقی چیلنج ہے۔ جہاں قرآن اور سنت میں خدا کی صفات کا بیان متنوع اور مسحور کن انداز میں موجود ہے، وہیں وہ تشریحی چیلنجوں کے منفرد امکانات سے بھی پُر ہیں۔ اب مومنین کے لیے یہ چیلنج ہے کہ وہ بظاہر بشری صفات کو صفات خُداوندی کے بنیادی اصول کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کرتے ہیں؟ عدل و رحمت، قدرت اور علم کی خدائی صفات کو، اس طرح سے کیسے سمجھا جا سکتا ہے، جو قرآن و سنت سے ہم آہنگ بھی ہو اور عقلی طور پر قابل قبول بھی؟ یہ وہ سوالات نہیں ہیں جن کا جواب صرف تلاوت یا لفظی طور پر قرآن و سنت کے اطلاق سے دیا جا سکتا ہے۔ اس کے بجائے، اس کے لیے زبردست استدلال اور فلسفیانہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔
اسلام کی ابتدائی صدیوں سے ہی مسلم دانشوروں نے اس فطری ضرورت کو تسلیم کر لیا تھا۔ ایک بھرپور فکری منظر نامے کا سامنا کرتے ہوئے، جس میں قدیم یونان کا نفیس فلسفیانہ اصول شامل تھا، مفکرین نے فکری ترکیب و تنظیم کے منصوبے کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنی مذہبی تفہیم کو واضح کرنے کے لیے، مادہ اور حادثہ، جوہر اور وجود، صلاحیت اور حقیقت جیسے تصورات کو بروئے کار لاتے ہوئے، ارسطو اور نوافلاطونی فکر سے بڑے پیمانے پر استفادہ کیا۔ یہ محض اجنبی افکار وخیالات مستعار لینا نہیں تھا۔ بلکہ یہ ایک دانستہ کوشش تھی، کہ وحی کی روشنی میں خدا کو سمجھنے کے لیے ایک مضبوط، اور عقلی طور پر قابل دفاع فریم ورک تیار کیا جائے۔ اسلامی مابعد الطبیعیات کی ترقی، وجود کی نوعیت، اسباب، اور وجود کی درجہ بندی پر اس کے پیچیدہ مباحث کے ساتھ، وہ خدا کی فطرت اور صفات کے بیان کے ساتھ پیچیدہ طور پر مربوط ہو گیا۔
مثال کے طور پر، علمِ الٰہی سے متعلق اہم مباحث پر غور کریں۔ قرآن اور احادیث واضح طور پر خدا کے ہمہ گیر علم کی تصدیق کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، اس علم کی قطعی نوعیت - خاص طور پر خدا کا خاص واقعات، مستقبل کے حالات، اور انسانی آزادی و اختیار کا علم - شدید مذہبی اور فلسفیانہ بحث کا موضوع بن گیا۔ ان پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے، مفکرین نے خود علم کی نوعیت پر فلسفیانہ بحث کا سہارا لیا۔ انہوں نے ان سوالات کی کھوج کی کہ علم کا اپنے مقصد سے کیا تعلق ہے، عالمگیر اور خاص علم کے درمیان فرق، اور بدلتی ہوئی دنیا کے بارے میں اس کے علم کے لیے خدا کی ابدی اور غیر متغیر فطرت کے مضمرات۔ فلسفیانہ روایات کے اندر پیدا ہونے والے تصورات، جیسے جاننے کے مختلف طریقوں، اور جوہر اور وجود کے درمیان تعلق نے، علمِ الٰہی پرمحتاط مذہبی نقطہ نظر کی تعمیر کے لیے، ایک فکری سہارا فراہم کیا۔ یہ کہنا کہ یہ پیچیدہ تھیولوجکل اصول و مباحث، فلسفیانہ تصورات اور منطقی استدلال کے اثر سے خالی ہیں، اور خالصتاً قرآن و حدیث کی لفظی تعبیر و تشریح پر مبنی ہیں، اسلامی فکر کی واضح تاریخی اور فکری رفتار کو نظر انداز کرناہے۔
اسی طرح، تبسیط الٰہی کا نظریہ اسلامی تھیولوجی میں فلسفے کے بنیادی کردار کی ایک زبردست مثال ہے۔ یہ خیال کہ خدا بسیط ہے، اور کسی بھی مادی ترکیب، ساخت یا کثرت سے خالی ہے، ابتدائی اسلامی فلسفیانہ حلقوں میں ایک مقبول تصور تھا، جو مبداء اول کی حتمی وحدت کے حوالے سے، نوافلاطونی نظریات سے کافی حد تک ماخوذ تھا۔ صفات الٰہیہ کی تفہیم میں تبسیط الٰہی کے اس فلسفیانہ تفہیم کے بڑے گہرے اثرات تھے۔ اگر خدا بالکل بسیط ہے تو ہم اس کے بارے میں کیسے کہہ سکتے ہیں، کہ وہ قدرت، حکمت اور رحم جیسی متعدد صفات کا مالک ہے؟ ابتدائی مسلم فلسفی اور تھیولوجین متعدد صفات الٰہیہ کے اثبات کو، تبسیط الٰہی کے نظریے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے، جدید ترین مابعد الطبیعاتی استدلال کا سہارا لیا کرتے تھے، اور اکثر یہ دلیل دیتے تھے کہ یہ صفات خدا کے جوہر کے اندر الگ الگ ہستی نہیں ہیں، بلکہ اس کے یکتا ہونے کے مختلف پہلو ہیں۔ تبسیط الہٰی کی فلسفیانہ تفہیم کے خلاف، جو تنقیدات کی گئی ہیں ان میں بھی، فلسفیانہ دلائل پر بہت زیادہ انحصار کیا گیا ہے، جن میں اس طرح کے نظریے کی معقولیت اور نتائج پر سوال اٹھایا گیا ہے۔ یہ بحثیں واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں، کہ بظاہر بنیادی مذہبی اصول بھی، فلسفیانہ اور مابعدالطبیعیات نظریات کے ساتھ گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔
یہ کہنا کہ قرآن اور حدیث کی بنیاد پر، ایک منظم اور معروضی اسلامی نظریہ تیار کیا جا سکتا ہے، تشریح کی فطری ضرورت، اور پہلے سے موجود فلسفیانہ اور مابعدالطبیعات تصوراتی ڈھانچے کے ناگزیر اثر کو نظر انداز کرنا ہے۔ مقدس نصوص کا اظہار انسانی زبان میں ہوتا ہے، اور اسے احتیاط کے ساتھ سمجھنے اور استعمال میں لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض قرآنی آیات یا احادیث کو کسی خاص مذہبی نقطۂ نظر سے زیادہ متعلقہ قرار دینے، یا مختلف صحیفوں کے اقتباسات کے درمیان ربط پیدا کرنے کے عمل میں، تشریحی انتخاب کی ضرورت پیش آتی ہے، جو اکثر ہم آہنگی، مستقل مزاجی، اور حقیقت کی نوعیت کے بارے میں بنیادی فلسفیانہ مفروضوں پر مبنی ہوتی ہے۔
مزید برآں، اسلامی فقہ اور تھیولوجی کی تاریخی ترقی، استدلال اور منطقی طرز فکر کے ساتھ مسلسل مشغولیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر قانونی ماہرین نے قرآن و سنت سے احکام اخذ کرنے کے لیے ایک نفیس طریقہ کار وضع کیا، اور قیاس، اجماع اور استصلاح کا استعمال کیا۔ یہ طریقہ کار خود منطق اور استدلال کے اصولوں پر مبنی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ روایتی طور پر ان شعبوں میں بھی، جنہیں براہ راست قرآن و حدیث سے ماخوذ مانا گیا ہے، عقلی تحقیقات ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
یہ دعویٰ کرنا کہ خالصتاً صحیفائی نقطہ نظر سے ایک معروضی تھیولوجی حاصل ہو سکتی ہے، اسلام میں ہمیشہ سے موجود تشریحات کے تنوع کو بھی نظر انداز کرنا ہے۔ ایسے مختلف مکاتب فکر اور ایسی مذہبی روایات ابھری ہیں، جن میں سے ہر ایک قرآن و سنت کی اپنی تفہیم پیش کرتے ہیں ۔ یہ اختلافات اکثر مختلف فلسفیانہ مفروضوں اور مابعدالطبیعات تشریحات سے پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اسلامی تھیولوجی کے اندر آزاد مرضی بمقابلہ تقدیر کے بارے میں بحثیں، علت اور انسانی اختیارات پر مختلف فلسفیانہ تفہیم سے گہرے طور پر متاثر ہیں۔ فکری تحقیق و تفتیش کی اس بھرپور تاریخ کو نظر انداز کرنا، اور صرف اور صرف نصوص سے ماخوذ واحد اور معروضی تھیولوجی تجویز کرنا، اسلامی فکر کی ایک سادہ اور بالآخر غلط تصویر پیش کرنا ہے۔
مزید یہ کہ مذہبی تصورات پر بحث میں استعمال ہونے والی زبان اکثر فلسفیانہ رنگ رکھتی ہے۔ اصطلاحات مثلا "جوہر،" "وجود،" "مادہ،" اور "حادثہ"، جو اکثر مذہبی گفتگو میں استعمال ہوتے ہیں، فلسفیانہ روایات کے اندر مخصوص معنی اور تاریخ رکھتے ہیں۔ ان اصطلاحات کو ان کے فلسفیانہ اصولوں کو تسلیم کیے بغیر استعمال کرنے میں غلط فہمی کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔ حقیقی معنوں میں سخت تھیولوجکل تحقیقات میں اس کے استعمال کردہ فلسفیانہ مضمرات، اور ان مفروضات سے آگاہ ہونا ضروری ہے، جو اس کے تصوراتی ڈھانچے کی بنیاد ہیں۔
خلاصہ یہ کہ، اگرچہ قرآن بلاشبہ مذہب اسلام کا ایک بنیادی ماخذ ہے، ایک منظم اور نفیس اسلامی تھیولوجی کی تشکیل کا، ہمیشہ سے فلسفہ اور مابعدالطبیعات کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔ صحیفے کی تشریح کرنے، صفات الٰہیہ کی نوعیت جیسے پیچیدہ مذہبی سوالات سے نمٹنے، اور مربوط مذہبی نظام کی تشکیل کے لیے، عقل و استدلال، منطق اور فلسفیانہ تصورات کا استعمال ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ ماننا کہ فلسفیانہ مباحث کے بغیر، معروضی تھیولوجی براہ راست مقدس نصوص سے اخذ کیے جا سکتے ہیں، ان کے تشریحی چیلنجوں کو کم سمجھنا، اسلامی فکر کی تاریخی ترقی کو نظر انداز کرنا، اور معرفت الٰہی کے حصول میں عقل کے ناگزیر کردار کو نظر انداز کرنا ہے۔ فلسفہ اور مابعدالطبیعات، یہ دونوں اسلامی تھیولوجی میں کوئی بیرونی اضافہ نہیں ہیں۔ بلکہ یہ وہی فکری آلات ہیں، جنہوں نے مومنوں کو معرفت الٰہی حاصل کرنے، اور دنیا کے ساتھ خدا کے تعلقات کو سمجھنے کے قابل بنایا ہے، اور اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے۔ اسلامی روایت میں داخلی اور خارجی دونوں سطح پر، جاری فلسفیانہ تحقیق و تفتیش، اسلامی نظریاتی گفتگو کی اہمیت و افادیت اور فکری پائیداری کے لیے اہم ہے۔
------
English Article: The Indispensable Foundation: Philosophy and Metaphysics as the Bedrock of Islamic Theology
URL: https://newageislam.com/urdu-section/philosophy-metaphysics-islamic-theology/d/135531
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism