New Age Islam
Wed May 31 2023, 06:28 AM

Urdu Section ( 20 Aug 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Petrodollar Islam Working To Destroy Moderate Ethos پیٹرو ڈالر اسلام اعتدال پسند اقدار کو تباہ کرنے میں سر گرم عمل

 

محمد وجیہ الدین

11،نومبر ، 2012

( انگریزی سے ترجمہ ۔ نیو ایج اسلام)

صوفی سنت جنہوں نے ساتھی انسانوں کے خلاف امتیازی سلوک کرنے سے گریز کیا، انہوں نے اپنے متبعین کو  صلح کل  یا سب کے ساتھ امن کے اصول پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ اس ہفتے اس پیغام کو ایک بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب حاجی علی اور مخدوم ماہمی  سمیت ممبئی کے بہت سے اہم  مقدس درگاہوں (صوفی سنتوں کے مزارات) میں ، خواتین کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ۔ ایک ہی جھٹکے میں، صوفی اسلام کی جامعیت کو اس کی قدر شناسی سے اوپر اٹھ کر ظلم کا نشانہ بنا دیا گیا ۔

جبکہ لبرل لوگ  درگاہ جیسی سیکولر جگہوں میں صنفی انصاف کے اس انکار پر جوش و خروش دکھا رہے ہیں ، اس طرح کے اقدام اس بات کی طرف بھی واضح  نشان دہی کرتے ہیں کہ کس طرح وہابیت مسلم معاشرے کو متاثر کر رہی ہے۔ درگاہ  کی انتظامیہ  کمیٹیوں نے دعوی کیا کہ وہ سنی ہی ہیں، اس وجہ سے وہ وہابیت سے نفرت کرتے ہیں ، جو مزارات پر حاضری کی  حوصلہ شکنی کرتی ہے ، تاہم، کمیونٹی کے بہت سارے لوگ،  سعودی عرب کی حمایت یافتہ، پیٹرو ڈالر اسلام سے خوف کھاتے ہیں ، جو کہ وہابیت کا  ایک دوسرا نام ہے، اور اعتدال پسند اسلام پر غالب آرہا ہے ۔

" بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن  ‘‘وہ تنظیم جو اس پابندی پر احتجاج کر رہی ہے ’’ (BMMA)کے فاؤنڈنگ ممبر نور جہاں صافیہ ناز کا کہنا ہے کہ، درگاہ جیسے مقدس  مقامات میں خواتین کے داخلے پر پابندی صرف جنسی ناانصافی ہی نہیں ہے۔ بلکہ تصوف کو ہندوستان سے مٹانے کے لئے  ایک بہت بڑا اور  برا  لائحۂ  عمل تیار کیا جا رہا ہے ۔ سرگرم کارکنوں اور علماء کرام کا ماننا  ہے کہ کے تیل سے مالا مال سعودی ریاست جارحانہ انداز میں جنوبی مشرقی ایشیا میں وہابیت یا سلفیت  (یہ اصطلاحات  باہم قابل تبادل ہیں ) کو برآمد کر رہی ہے ۔ ہندوستان ، ایک بڑی مسلم آبادی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے، ظاہر ہے کہ ایک آسان ہدف ہے ۔ وہابیت  کے بانی، 18ویں صدی کے عالم دین ابن عبد الوہاب نے مسلمانوں کے لئے رسومات سے آزاد نصاب کا ایک خاکہ پیش کیا تھا ،جس میں تصوف یا اسلام کے دیگر سنتوں کے لئے تھوڑی سی جگہ تھی ۔

ہندوستان میں وہابیت کے سرایت کرنے کی بہت ساری ظاہری نشانیاں ہیں۔ مسلم فار سیکولر ڈیموکریسی کے  جاوید آنند کا کہنا ہے کہ،ایک واضح نشانی، مسلمانوں کے سلام کا خدا حافظ سے اللہ حافظ میں بدل جانا ہے ۔ آنند کا کہنا ہے کہ " ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان خدا حافظ سلام کرنے  کی زیادہ مقبول شکل تھی۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں یا اس سے زیادہ کے در میان میں ، جب سے ہندوستانی مسلمانوں نے ملازمتوں کے لئے سعودی عرب جانا شروع کیا تب سے، اللہ حافظ سلام کرنے کی مقبول صورت بن گئی ہے۔ "یہ ایک اجنبی ثقافت کا پر اسرار حملہ ہے۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے مسلمان صرف اچھی رقم ہی نہیں بھیجتے بلکہ  اپنے ساتھ وہابی اثرات بھی لاتے ہیں ۔"

آنند برطانوی اسکالر اکبر احمد کی کتاب The Struggle Within Islam کا حوالہ  دیتے ہیں ،جو ،وہابیوں کی تعلیمات  کے برعکس، ہم آہنگی کے ان اقدار کی اشاعت کرتا ہے جنہیں صوفی مزارات اور آستانے فروغ دیتے ہیں۔ مارچ 2006 میں، احمد نے ، ہندو، مسلم، عیسائی اور سکھ کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے اپنے طالب علموں کے ہمراہ، اجمیر درگاہ پر حاضری دی۔ ہیلی، ایک عیسائی لڑکی کو ، قبروں  پر پھول برسانے کے لئے منتخب کیا گیا ۔ "ایک عیسائی خاتون کو ایک مسلم سنت کی تعظیم کے لئے منتخب کیا گیا ۔ یہ اجمیر کی زندہ مثال تھی ،" احمد لکھتے ہیں۔ آنند نے کہا کہ ‘‘ جیسے جیسے ہندوستان میں وہابیت پھیل رہی ہے  اجمیر  کی اس مثال کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے۔’’

اس لئے کہ وہابیت کا  فروغ سعودی کی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے اس کی مذہبی پولیس یونٹ کو the Commission for the Promotion of Virtue and Prevention of Vice (کمیشن برائےامر بالمعروف   و نہی عن المنکر) کہا جاتا ہے، اس  نظریہ کو  مختلف چینلز کے ذریعے برآمد کیا جاتا ہے۔ دعوہ (مذہب کے فروغ) مراکز پورے سعودی عرب میں پھیل گئے ہیں ، اور ہندوستان میں بہت ساری تنظیمیں ان کے محاذوں کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ وہابی مبلغین کو،   وہابیت  کو فروغ دینے کے لئے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ نیاز کا کہنا ہے ، جن کے ساتھی مسلم خواتین کے درمیان بنیادی طور پر کام کرتے ہیں، کہ  "وہاں خواتین کی خاص جماعتیں  ہیں  جہاں ، باقاعدہ اجلاس کے دوران، خواتین سے درگاہوں پر حاضری نہ دینے  کی درخواست کی جاتی ہے۔

چونکہ وہابی کثیر  ثقافتی نظریہ کو قبول نہیں کرتے، اسی لئے وہ  اپنے فرقہ پرست  کے خیالات کی تبلیغ پر خاص  توجہ دیتے ہیں۔

باندرا کے تاجر  ظفر سریش والا  کہتے ہیں،  جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے  تبلیغی جماعت سمیت بہت سی تحریکوں میں شمولیت اختیار کی لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ وہ "صرف ایک مسلمان" ہیں ، کہ "ان کے مبلغین اسلام کو فروغ نہیں دیتے، بلکہ وہ وہابی فرقے کو فروغ دیتے  ہیں، وہ ایک فرقہ وارانہ ایجنڈا کے حامی ہیں اور سیکولر، کثیر الثقافتی مرکزی دھارے میں شامل ہونے سے مسلمانوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

سریش والا اور بہت سے دوسرے، ممبئی کے ایک  ایسے مشہور مبلغ کا نام بتاتے ہیں، جو ہندوستان میں  وہابی تحریک کے قائد ہیں ۔ مولانا برہان الدین قاسمی، مرکز المعارف  این جی او کے ڈائریکٹر، چند سال پہلے شمال مشرقی علاقے کے دورے پر اس مخصوص تبلیغ میں حصہ لیتے وقت تردید کرتے ہیں ۔ گواہاٹی میں مبلغ کی اس تقریر کے بعد، قاسمی بتاتے  ہیں، جب کسی نے ان سے  پوچھا کہ کیا وہ تصوف اور مزارات پر حاضری میں یقین رکھتے ہیں ۔ "انہوں نے کہا کہ تصوف  کی  اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے، اور مزارات پر حاضری دینا ایک غیر اسلامی عمل ہے۔ اسٹیج پر بہت سے سینئر علماء دنگ رہ گئے، میں نے مداخلت کی اور یہ قرار دیا  کہ ، تصوف کے بارے میں اس  مبلغ نے جو کچھ بھی کہا وہ ان کا ذاتی نقطہ نظر تھا " قاسمی، وضاحت کرتے ہیں ، تب سے ان کی  تنظیم نے  متنازعہ فیہ  مبلغ سے خود کو دور کر دیا ہے۔

وہابیوں  کی نظر میں ، مزارات گناہ کی جگہیں ہیں، جیسا کہ  مکہ اور مدینہ میں اسلامی ورثے کا انہدام اس کا ثبوت ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ سنی بھی اسی جال میں پھنس رہے ہیں۔

ماخذ:  http://timesofindia.indiatimes.com/city/mumbai/Petrodollar-Islam-working-to-destroy-moderate-ethos/articleshow/17175220.cms

URL for English article:

 https://newageislam.com/islamic-culture/‘petrodollar-islam-working-destroy-moderate/d/9272

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/petrodollar-islam-working-destroy-moderate/d/13113

 

Loading..

Loading..