پیٹر جیکوب
26 فروری، 2018
اسما جہانگیر نے آخری سانسیں اپنے میدان عمل میں متعدد قانونی شخصیات کے ساتھ ٹیلی فون پر قانونی معاملات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئی لیں۔ وہ ہمیشہ ظالمانہ معمولات کے خلاف مزاحمت کی ایک علامت کے طور پر زندہ رہیں گی اور ان کے کام کا نمونہ تحقیق و تفتیش کا موضوع بنا رہے گا۔ اس موقعہ پر انسانی حقوق کے محافظ اور ایک انسان کی حیثیت سے انہوں نے جو روایات اور معیار قائم کی ہیں وہ نظریہ سازوں اور عملی کارکنوں کی یکساں طور پر حوصلہ افزائی کریں گے۔
انہوں نے سماجی عمل میں مصروفیت کے قواعد و ضوابط کو ایک سیاق و سباق کے تحت منظم کیا جن کی کوششیں انسانی حقوق کی تحریک کے دوران دنیا کے دیگر حصوں میں کی گئی تھیں۔ انہوں نے جن اصولوں اور حکمت عملی کو اپنا یا ان سے اوامر و نواہی کے درمیان واضح فرق پیدا ہوا جو نظریاتی مہارتوں کے باوجود اپنی سماجی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں سماجی کارکنوں کے لئے رہنما ثابت ہو سکتے ہیں۔
اولاً، انہوں نے ایک کارکن کے طور اپنی ذمہ داری کو قربان کئے بغیر براہ راست اور اور بالواسطہ طور پر ارباب اقتدار کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا۔ مثال کے طور پر 1992 کے بینڈڈ لیبر (تنسیخ) کا مسودہ تیار کرنے میں ان کا کردار اور 1997 میں خواتین کی حیثیت پر سرکاری تحقیقاتی کمیشن کے رکن کے طور پر ان کا کردار حکومت کے ساتھ معقول انداز میں بات چیت کرنے کی ایک شہادت ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے کسی بھی سیاسی عہدے کی خواہش نہیں کی اور خود کو ادارہ جاتی طور پر غیر جانبدار رکھنے کے لئے حکومت کے مالی امداد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لہذا، جمہوری اقدار کےفروغ کے لئے اہم جدوجہد میں حصہ لیتے ہوئے وہ سیاسی طور پر خود کو غیر جانبدار رکھنے میں کامیاب رہیں۔
اسی طرح، جس انسانی حقوق کے نظام کے قیام میں انہوں نے اپنا تعاون پیش کیا اس میں سیاسی غیر جانبداری کو ایک نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے تقرری اور تنظیمی ڈھانچے سے لیکر انسانی حقوق کی رپورٹنگ کے دفاتر تک غیر جانبداری کے معیار کو قائم رکھا۔ ان کے ساتھیوں اور جانشینوں نے بھی اس روایت کو برقرار رکھاہے۔
ثانیاً، ضروریات کے تحت اپنے مخالفین اور بد گوؤں کو انہوں نے قانونی اور اخلاقی معاونت فراہم کرنے میں جس اعلیٰ ظرفی کا مظاہر کیا ہے اس سے انسانی عظمت پر امید اور یقین کی ایک اعلیٰ ترین مثال کی یاد تازہ ہوتی رہے گی۔ اخلاقی قدر نے ان کی باتوں پر ان کے مخالفین کو زیادہ قائل کیا۔
ثالثا، اسماہ نے مثالیت اور حقیقت پسندی کے درمیان توازن یا ان دونوں کے ایک سنگم کو قائم رکھا۔ انہوں نے انسانی حقوق کی حفاظت میں مثالیت پسندی کا راستہ اختیار کیا جبکہ انہیں وکالت میں عملیت پسندی کا بھی شدید احساس تھا۔ مثال کے طور پر 2006 میں بلوچستان کے دورے کے لئے ان کی حکمت عملی اور تدبیر منکسر المزاج نقطہ نظر اور باشعور اعتراضات کی مثالیت پسندی کے سنگم کی ایک مثال ہے۔
رابعاً، پیشہ وارنہ نقطہ نظر، صرف وہی ایک ایسی فرد ہیں جو مسلسل 20 سالوں تک اقوام متحده کے خصوصی رپورٹر کے طور پر تین عہدوں پر مستقل قائم رہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وسیع پیمانے پر بین الاقوامی اداروں نے ان کی سالمیت اور اعتماد کے علاوہ انسانی حقوق کے تحفظ کے مختلف شعبوں میں ان کی مہارت کو تسلیم کیا تھا۔ ان ملازمتوں پر تقرری وسیع پیمانے پر مشاورت اور شراکت داری کے عمل کے ذریعے کی جاتی ہے اور اس کا کوئی معاوضہ بھی ادا نہیں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر کے طور پر حقائق کی تلاش میں کئی ممالک کا دورہ کیا ، ایک غیر جانبدار اور آزاد انسانی حقوق کے ماہر کی حیثیت سے ان کی ساکھ اس قدر مسلم تھی کہ ان کی رپورٹ کو کبھی کسی ایک ملک نے بھی چیلنج نہیں کیا، حالانکہ ان کی رپورٹوں میں حکومتوں کی کارروائی یا بے عملی کی تنقید بھی تھی۔ گوانتاناموبے جیل کے مشاہدین کے مشن کا حصہ ہونا کسی کے لئے کوئی معمولی کام نہیں ہے ، خاص طور پر جب وہ ایک پاکستانی ہو۔
خامساً، انہوں نے اپنی سرگرمی کو فروغ دینے کے لئے اپنی قیمتی شہرت کا استعمال کیا، تاہم، انہوں نے اقوام متحدہ وغیرہ میں اپنی حیثیت کی بنیاد پر اپنے ملک سے کسی تعاون کی درخواست نہیں کی۔ لہٰذا، انسانی حقوق پر ان کا موقف ایک ایسی خوبی کا حامل تھا جس سے ہر سطح کی قیادت فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
سادساً، انہوں نے ایک ایسے نقطہ نظر پر پختہ اعتماد برقرار رکھا جس میں عوام کو مرکزیت حاصل تھی، لہذا انہوں نے انسانی حقوق کے دفاعی کارکنوں کو منظم کرنے اور انہیں تعلیم دینے میں اپنی توانائی صرف کیں، اور ایسے اداروں کی تعمیر کی جن سے انسانی حقوق کے لئے تحریک اور مہم چلانے میں ضروریات کی تکمیل ہو سکے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ انہوں نے خود کو پورے ملک کے لوگوں کے ساتھ وسیع پیمانے پر ذرائع ابلاغ کے لئے قابل رسائی بنایا، جنہوں نے اکثر بغیر کسی اجرت کے مقدمہ بازی کے لئے ان سے رابطہ کیا۔
آخر میں، سوچنے والے دماغ کے علاوہ ان کے پاس ایک حساس دل بھی تھا۔ وہ ایک بہتر وکیل تھیں کیونکہ وہ سن سکتی تھیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے متاثرین کے درد کو محسوس کر سکتی تھیں۔ ان کی وراثت اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی معاشرہ معاملہ فہم، با کردار اور نظریہ مساوات کے حامل افراد پیدا کرسکتا ہے۔
ماخذ:
tribune.com.pk/story/1644953/6-legacy-asma-leaves-behind
URL for English article: http://www.newageislam.com/islam,-women-and-feminism/peter-jacob/the-legacy-asma-leaves-behind/d/114425
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism