پرویز ہودبھائی
19 جولائی، 2015
اس مہینے کے اوئل میں ریاضی، سائنس، اور انگریزی جیسے بنیادی مضامین کی تعلیم کے بغیر ہی محض دین کی تعلیم دینے والے اداروں کو مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت نے تعلیمی ادارے کے زمرے سے خارج کر دیا ہے۔
اگر چہ اس بات کے آثار ظاہر ہوتے ہیں کہ چند ویدک اسکولوں کو بھی 'غیر اسکول' قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن حکومت مہاراسٹر نے یہ قدم بنیادی طور پر مدارس اسلامیہ کے لیے اٹھایا ہے۔
ریاستی حکومت سے گرانٹ حاصل کرنے کا اہل ہونے کے لئے اب انہیں روایتی اسلامی مضامین کے علاوہ ان بنیادی مضامین کی تعلیم دینا بھی ضروری ہے۔
اب اس فیصلے سے ان تمام بچوں کو ناخواندہ اور اسکول سے باہر تصور کیا جائے گا جو ایسے اداروں میں داخلہ لیں گے جو اپنے نصابی مضامین میں ریاست کے رسمی اسکولی نصاب کو شامل نہیں رکھتے۔
یہ اچھا ہے یا برا ہے؟ ظاہر ہے، ہندوستانی مسلمانوں نے اسے مسلم مخالف قرار دیکر اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ بے شک، بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے کے پیش نظر ان خفیہ محرکات کا شک پیدا ہونا معقول ہے۔
لیکن ہم ان تمام باتوں کو ایک طرف رکھ کر اس نئے اقدام کی اہمیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو بچے انگریزی، ریاضی، یا سائنس نہیں جانتے وہ ملازمت کے میدان میں آگے نہیں بڑھ سکتے اور یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
مسلمان سازشی نظریات اور مختلف غلط فہمیوں شکار ہو جاتے ہیں۔ مدرسے کے فارغ التحصیل صرف مولوی اور قاضی ہی بن سکتے ہیں لیکن وہ انجینئر، سائنسدان یا ڈاکٹر نہیں بن سکتے۔ حکومت ہند کا ماننا ہے کہ مدارس سے اس ملک کو سنگین تعلیمی مسائل در پیش ہیں لیکن کم از کم سرکاری طور پر اس ملک کو مدارس سے دہشت گردی کا کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔
یہ نقطہ نظر پاکستانی نقطہ نظر کے خلاف ہونا چاہیے کیوں کہ پاکستان اب اپنے مدارس کو مکمل طور پر سیکورٹی کے تناظر سے دیکھتا ہے۔
1980 کی دہائی سے ان اداروں کو افغانستان اور پھر بعد میں کشمیر میں استعمال کیے جانے کے لیے جنگجو فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اگر چہ پاکستان میں حکومت کی سرپرستی میں بنیاد پرستی کے عمل میں 9/11 کے بعد تزلی واقع ہوئی ہے، لیکن جنن کو واپس بوتل میں ڈالنا مشکل ثابت ہوا ہے۔ اب درجنوں، اور شاید سینکڑوں مدرسے اکثر پاکستانی آرمی اور عام پاکستانیوں کے خلاف عسکریت پسند افراد پیدا کر رہے ہیں۔
پنجاب میں مارے جانے والے خود کش بمباروں کے پروفائل کا تجزیہ کرنے کے بعد پنجاب پولیس کا یہ کہنا ہے کہ ان میں سے دو تہائی سے زیادہ لوگ مدرسے کے تعلیم یافتہ تھے۔
ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں جن میں مدرسے کے احاطے کے اندر حادثاتی طور پر دھماکوں میں خودکش حملہ آور مارے گئے ہیں۔
اسپیشل برانچ نے درجنوں ایسے مدرسوں کی نشاندہی کی ہے جن کا تعلق عسکریت پسند گروپوں سے تھا۔
ان سب کے باوجود غفلت کا ایک ماحول قائم تھا اور عوام کا رجحان ان مدرسوں کو پرامن مذہبی اداروں کے طور پر دیکھنے کی طرف زیادہ مائل تھا۔
جب تک مدارس میں سیکولر مضامین بھی شامل کر کے اس میں وسعت نہیں پیدا کر دی جاتی تب تک یہ مدارس دائمی طور پر خطرناک ادارے رہیں گے۔
16دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول میں قتل عام کے بعد، کم از کم کچھ دیر کے لئے ہی سہی اس میں تبدیل پیدا ہوئی تھی۔ جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے احتجاج پر پارلیمنٹ نے ایک ماہ بعد قومی ایکشن پلان (این اے پی) کو منظوری دے دی تھی۔
اس منصوبہ میں مذہبی انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے کے کے لیے مدرسوں کی اصلاحات پر اصرار کیا گیا تھا۔ اب تک غیر رجسٹرڈ مدرسوں کو رجسٹرڈ ہو جانا تھا، نفرت انگیز تقریر اور عسکریت پسند سرگرمیاں رک جانی تھیں اور ان کی فنڈنگ کے ذرائع کا بھی پردہ فاش کر دیا جانا تھا۔
لیکن اس قومی ایکشن پلان (این اے پی) میں مدارس میں پڑھائے جانے والے مواد کی تبدیلی کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی اس میں بنیادی مضامین کو شامل کیے جانے پر زور دیا گیا تھا۔ یہ ایک سنگین خطا ہے۔
اگر کسی کرشمائی طریقے سے مدرسہ اصلاحات کو انجام دے دیا جائے تب بھی عسکریت پسندی کو پرکشش بنانے والے نظریہ کو تبدیل کرنامشکل ہو گا۔
جب تک سیکولر مضامین کو مدارس کے نصاب تعلیم میں شامل کر کے ارباب مدارس کے نقطہ نظر میں وسعت نہیں پیدا کر دی جاتی ہے تب تک یہ مدارس ریاست اور معاشرے کے لئے ایک مستقل خطرہ بنے رہیں گے۔ حیرت کی بات ہے کہ مدرسہ اصلاحات کے لیے بی جے پی کا نقطہ نظر سے زیادہ وسعت اور روشن خیالی پر مبنی ہے!
بہر حال، مجھے اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ یہ کام کتنا مشکل ہوگا۔ اس وقت کے وزیر تعلیم دار آصف احمد علی کی دعوت پر ک پاکستان کی اوقاف (مدرسہ بورڈ) کے پانچوں سربراہان اور ان کے نائبین ایک کانفرنس میں جمع ہوئے تھے۔
اوقاف کی تقسیم سیاسی اور فرقہ وارانہ خطوط پر کی گئی ہے۔ اور مجھے ان اداروں میں سائنس اور ریاضی کی تعلیم دینے کی ترغیب و تحریک دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
لاکھوں طالب علموں کی تعلیم کو کنٹرول کرنے والے ان طاقتور لوگوں کے تئیں جذبہ احترام کے اظہار کے بعد میں نے ان کے سامنے اس موضوع پر 20 منٹ کا ایک خطاب پیش کیا کہ کس طرح سنہرے دور میں مسلمانوں کی سائنسی حصولیابیوں نے اسلام کو ایک عظیم عالمی تہذیب بنا دیا تھا۔
داڑھی والے حضرات بھی موجود تھے۔ اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ اپنی یونیورسٹیوں میں سائنس اور انجینئرنگ کی تعلیم دینا چاہتے ہیں تو یہ آپ کا کام ہے، لیکن مذہبی مسائل کو ہمارے اوپر چھوڑ دیں۔
وقف کے ایک سربراہ نے کہا کہ مدرسے کی ان کی شاخ میں پہلے سے ہی سائنس اور ریاضی کی تعلیم دی جاتی ہے، لہٰذا مزید تبدیلی میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
لیکن جب وزیر نے ان کے نصاب پر نظر ثانی کرنے کے لیے ایک بڑی رقم کی پیشکش کی تو انہوں نے متفقہ طور پر یہ کہا کہ وہ ان روپیوں کا خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن صرف اس صورت میں کہ یہ غیر مشروط ہو۔ اس طرح یہ اجلاس ناکام ثابت ہوئی۔
لہٰذا، اس صورت میں کیا کیا جائے؟ نیشنل ایکشن پلان کے مطالبہ کے باوجود مدرسہ کے سربراہوں نے صاف طور پر حکومت کو اپنی فنڈنگ کے ذرائع بتانے یا اپنے اکاؤنٹس کے تعلق سے بات چیت کرنے سے انکار کر دیا ہے، اور امکانات اس بات کے ہیں کہ پاکستان میں رجسٹرڈ سے زیادہ غیر رجسٹرڈ مدارس موجود ہیں۔
16 جولائی کو ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں 579 غیر رجسٹرڈ مدرسوں میں سے ایک کو بھی بند کرنے میں قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں نے اپنی بے بسی کا اعتراف کیا ہے، اور اس کی وجہ ان ارباب مدارس کا غیر معمولی اثر و رسوخ اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی بھی ہے۔
لہٰذا، نصاب میں اصلاحات کرنا ان کے لیے اور بھی زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ حکام کو ایسے مواقع دستیاب ہیں جن کو انہوں نے اب تک استعمال نہیں کیا ہے۔
1981ء میں جنرل ضیاء الحق نے مختلف سطحوں کے مدرسوں کے اسناد (سرٹیفکیٹ) کو باقاعدہ سرٹیفکیٹ اور ڈگری (بیچلر، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی) کے مساوی کرنے کا حکم دیا تھا اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (جسے اب ایچ ای سی کہا جاتا ہے) کو انہیں مساوی قرار دینے کے لیے ضروریات و شرائط کا تعین کرنے کا اختیار دیا تھا۔
اس سے HEC کو معیار پر برتری حاصل ہوتی ہے: اگر ان مدرسوں کو انگریزی، ریاضی، اور سائنس پڑھانا ہے تو ان مدرسوں کو وہی معیار عطا کیا جانا چاہیے جو سرکاری اسکولوں میں موجود ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایچ ای سی نصاب میں تبدیلی کے لیے ان مدارس پر دباؤ ڈال سکتی ہے، اور اس بات کا مطالبہ کر سکتی ہے کہ ان میں کم از کم کچھ ایسے مضامین پڑھائے جائیں جن سے ذہن و دماغ کو وسعت حاصل ہو۔
یہ کام خواہ مشکل ہو یا آسان لیکن بالآخر حکومت پاکستان کے پاس مدارس اور مساجد کو اپنے کنٹرول میں لانے کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں۔ محض پالیسی سازی سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
پاکستان کو ان کے غیر معمولی اثر و رسوخ اور ان عرب ممالک کی نامنظوری کے باوجود ایسا کرنا ہی ہو گا جو ان مدارس کی فنڈنگ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ان کے حقیر نظریاتی مفادات کو پورا کریں۔
لہذا، مدارس کے نصاب میں شدید عوامی ردعمل پیدا کیے بغیر ایک بڑے پیمانے پر فوراً اصلاحات کرنا ناگزیر ہے۔
پرویز ہود بھائی لاہور اور اسلام آباد میں ریاضی اور طبیعیات کی تعلیم دیتے ہیں۔
ماخذ:
http://www.dawn.com/news/1195133/math-in-our-madressahs
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/madrasas-reform-be-done-incrementally/d/103953
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/madrasas-reform-be-done-incrementally/d/104006