سید امجد حسین، نیو ایج اسلام
4 جون 2025
بہار سے تعلق رکھنے والے 18ویں صدی کے ایک عظیم صوفی، اور اردو نثر کے علمبردار حضرت مخدوم شاہ حسن علی شیخپوروی فارسی علوم اور اردو زبان و ادب کے سنگم تھے، جنہوں نے اپنے پیچھے ایک شاندار روحانی اور ادبی میراث چھوڑی ہے، جس پر اب تک خوئی خاطر خواہ تحقیق نہیں ہو سکی ہے۔
اہم نکات:
1. حضرت شاہ حسن علی کا تعلق ایک عظیم فردوسی صوفی سلسلے سے تھا، جس کی جڑیں موجودہ شیخ پورہ ضلع بہار سے متصل ہیں۔
2. انہوں نے بہار میں ابتدائی اردو نثر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
3. آپ حضرت شاہ محمد منعم پاک پچنوی ثم عظیم آبادی کے مرید تھے، اور فردوسی تعلیمات کو فروغ دیا۔
4. آپ نے متوازن روحانی زندگی گزاری۔
5. آپ کے مخطوطات نئے سرے سے علمی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
The Dargah of Hazrat Makhdoom Shah Muhammad Munim Pak Pachnavi Summa Azeemabadi at Mitan Ghat, Patna.
-------------
تعارف
بہار کے متحرک ثقافتی اور مذہبی تانے بانے میں، چند ناموں کو اتنا ہی نمایاں مقام حاصل ہے، جتنا کہ حضرت مخدوم شاہ حسن علی شیخپوروی کو، جو ایک بزرگ عالم دین ہیں، جنہوں نے اپنی خدمات کے ذریعے تصوف اور ادب کو ایک کر دیا، خاص طور پر فردوسی صوفی سلسلے اور مشرقی ہندوستان میں ابتدائی اردو نثریات میں۔ آپ شیخ پورہ میں پیدا ہوئے، جو اس وقت منگیر ضلع میں تھا، آپ 18ویں صدی کے ایک عظیم انسان تھے، جن کی زندگی اور خدمات نے صوفی حلقوں اور ادبی مورخین دونوں کو متاثر کیا۔ آپ کی آخری آرام گاہ پٹنہ کے خواجہ کلاں گھاٹ کے قریب ہے، یہ وہ شہر ہے جو کبھی مشرقی ہندوستانی میں علم و دانش کا مرکز تھا۔
فردوسی اولیاء کی اولاد
حضرت مخدوم شاہ حسن علی کا روحانی اور خاندانی شجرہ نسب عظیم فردوسی صوفی روایت سے تھا۔ آپ حضرت مخدوم شیخ شاہ شعیب فردوسی شیخپوروی (بڑی درگاہ شیخ پورہ میں مدفون) کی اولاد کی حیثیت سے مدفون ہیں، جن کے آباؤ اجداد یروشلم سے منیر شریف تشریف لائے تھے۔ آپ کا شجرہ نسب اسلامی اسکالرشپ اور روحانیت دونوں کا سنگم ہے:
حضرت مخدوم شاہ حسن علی بن حضرت مخدوم شیخ شاہ شعیب فردوسی بن حضرت شاہ جلال منیری بن حضرت مخدوم شیخ شاہ عبدالعزیز بن حضرت امام تاج فقیہ ہاشمی رحمۃ اللہ علیہ۔ (تذکرہ الکرام: تاریخ خلفاء عرب والاسلام صفحہ 190، 291، 700)
جبکہ زبانی روایات، مخطوطات اور حضرت مخدوم شیخ شاہ شعیب اور حضرت شاہ حسن علی شیخپوروی کے درمیان عمر کے فرق سے معلوم ہوتا ہے، کہ حضرت شاہ حسن علی حضرت شیخ شاہ شعیب کی اولاد میں سے تھے۔
یہ سلسلہ انہیں اس سلسلہ طریقت میں ایک مضبوط مقام عطا کرتا ہے، جس کی شناخت حضرت مخدوم شاہ شعیب فردوسی شیخپوروی سے ہوتی ہے، جو کہ خود ایک عظیم فردوسی صوفی بزرگ ہیں۔ اس سے 13ویں صدی کے مشہور بزرگ حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری سے، ان کے خاندانی روابط کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے، جن کی تعلیمات نے مشرقی ہندوستان کے صوفی حلقوں پر اپنا ایک گہرا اثر چھوڑا۔
بلند پایہ اسکالر اور اردو نثریات کے مشعل بردار
بہار میں اردو نثری ادب میں حضرت مخدوم شاہ حسن علی کی خدمات تاریخی بھی ہیں اور بنیادی بھی۔ شیخ پورہ کے علاقے اور مشرقی مگدھ میں اردو نثریات کا ظہور، آپ ہی کی ابتدائی تحریروں میں ہوتا ہے۔ فارسی میں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود، اپنے زمانے کے اکثر علماء کی طرح اردو نثر، محاورات اور نظموں کے ٹکڑے اور مکمل اقتباسات آپ کے ادبی ذخیرے میں پائے جاتے ہیں۔ اس غیر معمولی دو لسانی خدمات نے، انہیں فارسی ادبی ورثے اور اردو کے مقامی اسلوب کے درمیان ایک رابطہ کار بنا دیا ہے، جو اس وقت بہار میں ترقی کے منازل طے کر رہا تھا۔
حضرت شاہ حسن علی کی زندگی کی اس اہم ادبی جہت کو پہلی بار رخشان ابدالی نے 1935، 1944 اور 1947 میں ندیم (گیا) میں شائع ہونے والی تین حصوں پر مشتمل سیریز میں "اردو نثر کے ارتقاء میں اربابِ بہار کا حصّہ" میں جامع طور پر دستاویزی شکل دی۔ ایک اور یادگار تحقیق بعد میں ڈاکٹر علی ابدالی اسلام پوری نے 1985 میں پیش کی، اس بات کو مزید یقینی بنایا کہ حضرت شاہ حسن علی کے سرخیل علم و ادب کے کردار کو مستقبل کے اسکالرشپ کے لیے محفوظ رکھا گیا۔
فردوسی صوفی بزرگ منعم پاک کے مرید
حضرت شاہ حسن علی کی روحانی زندگی بھی کم غیر معمولی نہیں ہے۔ شیخ پورہ میں رہتے ہوئے ہی، آپ کو خوابوں میں روحانی رہنمائی مخدوم جہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری سے حاصل ہوئی، جن کی آپ بڑی عزت اور قدر کیا کرتے تھے۔ مزید روحانی تعلیم کے لیے، آپ عظیم آباد (پٹنہ) گئے، جو اس وقت ایک عظیم مرکزِ تصوف و علم و فکر تھا۔
حضرت شاہ حسن علی نے پہلے قادریہ سلسلے سے وابستہ ہونے کا ارادہ کیا تھا، لیکن حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری نے خواب میں انہیں فردوسی سلسلہ میں بیعت ہونے کا مشورہ دیا، جس سے آپ نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ روحانی رہنمائی کا یہ انداز، ہند اسلامی تصوف میں سلسلہ طریقت کے انتخاب، اور خوابوں کے درمیان باہمی ربط کو اجاگر کرنے میں اہم ہے۔
پٹنہ میں انہیں اپنے وقت کے قطب حضرت مخدوم شاہ محمد منعم پاک پچنوی ثم عظیم آبادی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جہاں آپ نے ان کے دست حق پرست پر بیعت کی، اور انہیں سے آپ کو اجازت و خلافت بھی حاصل ہوئی۔
حضرت مخدوم شاہ محمد منعم پاک جن کا مزار میتن گھاٹ پٹنہ میں ہے، نے حضرت شاہ حسن علی کو مکمل اجازت اور روحانی وراثت سے نوازا۔ اسی تعلق کا نتیجہ تھا کہ نقشبندی سلسلے کی ابوالعلائی شاخ بہار کی خانقاہوں میں دور دور تک پھیلی۔
افراط و تفریط سے خالی ایک متوازن زندگی
جب کہ زیادہ تر صوفیاء تنہائی کو ترجیح دیتے تھے، حضرت شاہ حسن علی نے روحانی کفایت شعاری کو برقرار رکھتے ہوئے، دنیاوی معاملات کو بھی سنبھالا اور ایک متوازن نظامِ زندگی اپنایا۔
آپ نے حضرت شاہ محمد آغا کی صاحبزادی حضرت بی بی جین سے شادی کی، اور اس طرح علماء اور اولیاء کے خاندان سے اپنا تعلق مضبوط کیا۔ بنی نوع انسان کے لیے ان کی خدمت، اگرچہ آپ نے عاجزانہ اور فقیرانہ زندگی بسر کی، لیکن اپنی تعلیمات، خطوط اور روحانی سلسلہ کی صورت میں، آپ نے ایک پائیدار میراث چھوڑی، جو آپ کے خلفاء اور پیروکاروں کے ذریعے جاری رہی۔
خطوط اور ادبی مخطوطات: مزید تحقیقات کا موضوع
اسلام پورہ کی قادریہ خانقاہ میں حضرت شاہ حسن علی کے خطوط کا ایک منفرد ذخیرہ موجود ہے۔ ان خطوط کے مواد میں، اس دور کے ثقافتی اور روحانی حالات پر انمول معلومات موجود ہیں۔ خانقاہوں کے علماء اور متولیوں کا خیال ہے، کہ پٹنہ کی خانقاہوں اور کتب خانوں میں مزید مخطوطات موجود ہو سکتے ہیں، جن کو جمع کیا جانا اور تجزیہ کیا جانا ابھی باقی ہے۔ اس کے پیش نظر آپ کی خدمات اردو ادب اور بہار کی صوفی روایت پر مزید تحقیق و تجزیہ کے لیے مواد فراہم کرتی ہیں۔
ان کے مخطوطات میں فارسی زبان و بیان اور ابھرتے ہوئے اردو محاوروں کی ہم آہنگی، 18ویں صدی کے بہار میں زبان اور علم و دانش کے ارتقاء کے دور کے بارے میں، اہم معلومات فراہم کر سکتی ہے۔
تاریخ اور وفات
حضرت شاہ حسن علی کا انتقال 1224 ہجری (1809) میں پٹنہ میں ہوا، اور خواجہ کلاں گھاٹ کے قریب آپ کو مدفون کیا گیا، اور آپ کا مزار مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مورخین کے لیے بھی باعث کشش ہے۔ ان کے انتقال سے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا، لیکن ان کی ادبی اور روحانی خدمات زبانی روایتوں، مخطوطات اور بہار میں فردوسیہ سلسلے کے مسلسل اثرات کے ذریعے زندہ ہے۔
خلاصہ کلام
حضرت مخدوم شاہ حسن علی شیخپوروی کوئی عام صوفی بزرگ نہیں تھے۔ آپ زبان، ادب اور مذہب کا ثقافتی مجمع تھے۔ ابتدائی اردو نثر کی تاریخ میں، ان کا کردار قابل تحسین ہے۔ جب جب علمی حلقہ بہار میں علاقائی اردو نثر اور صوفی سلاسل کے ارتقاء پر نظر ڈالے گا، حضرت شاہ حسن علی کی زندگی کلاسیکی فارسی روایت اور ابھرتی ہوئی اردو زبان کے درمیان تسلسل کی ایک
کڑی کے طور پر نظر آئے گی، یہ سفر ہندوستان کی اپنی لسانی اور روحانی روح کے ارتقاء کا آئینہ دار ہے۔
آپ کی خدمات کی دستاویزی تحقیقات اور فلولوجیکل جانچ ازحد ضروری ہے، جس سے 18ویں صدی کے مشرقی ہندوستان پر مزید معلومات کا دروازہ کھلے گا۔ امید کی جانی چاہئے کہ عصری ادارے اور اہل علم اب اس ادھورے کام کا بیڑا اٹھائیں گے، اور ہندوستان میں علمی و روحانی خدمات کے حوالے سے، مخدوم شاہ حسن علی کا جو مقام ہے وہ انہیں دیا جائے گا۔
حوالہ جات
1. تذکرہ الکرام تاریخ خلفاء عرب والاسلام، صفحہ 190، 291، 700۔
2. رخشان ابدالی "ارباب بہار اور اردو نثر کی ارتقا میں انکا کردار" ندیم (گیا)۔ 1935، 1944، 1947۔
3. ڈاکٹر علی ابدالی اسلام پوری (1985)۔ "مجمع مقالات"
4. قادریہ خانقاہ، اسلام پور لائبریری کے مخطوطات ۔
5. ابوالکلام رحمانی (2005) "تذکرہ مشاہرِ ادب شیخپورہ" زینب نوناروی
6. پٹنہ اور شیخ پورہ میں زبانی روایات اور غیر مطبوعہ مخطوطات سے مستفاد۔
-----
نوٹ: یہ حضرت شاہ حسن علی شیخپوروی کے بارے میں دستیاب پہلا مضمون ہے۔
-------
English Article: Between Persian Grace and Urdu Roots: The Spiritual World of Hazrat Shah Hasan Ali Sheikhpurvi of Bihar
URL: https://newageislam.com/urdu-section/persian-grace-urdu-spiritual-roots-hazrat-shah/d/135853
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism