پرویز حفیظ
9 مارچ 2022
بلاشبہ بیرونی جارحیت کا
شکار مظلوم یوکرینی باشندے دنیابھر کی ہمدردی کے مستحق ہیں۔تاہم یوکرین کی صورتحال
پر ماتم کناں مغربی ممالک کے لیڈران اور میڈیا جس طرح کے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں
اس سے ان کی منافقت اور نسل پرستانہ ذہنیت پوری طرح بے نقاب ہوگئی ہے۔بی بی سی کو
انٹرویو دیتے ہوئےیوکرین کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا ’’ میرا دل بھر آیا کیونکہ میں
ہرروز جنہیں مرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں وہ شامی نہیں
بلکہ نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والےیورپی باشندے ہیں۔‘‘ امریکی ٹی وی سی بی
ایس کے غیر ملکی نامہ نگارچارلی ڈیاگاٹا نے یاد دلایا کہ یوکرین افغانستان یا عراق
نہیں ہے۔’’یہ مہذب یورپی ملک ہے۔‘‘دی ٹیلی گراف کے ایک فاضل تجزیہ کار کے مطابق
یوکرین پر حملے سے برطانیہ کے لوگوں کو شاک اس لئے لگا ہے کیونکہ’’یہ لوگ ہم (برطانوی)
لوگوں سے اس قدرملتے جلتے ہیں۔‘‘ ان کو اس بات کا بھی افسوس ہے کہ جنگ اب دور دراز
کی مفلس آبادیوں تک محدود نہیں رہی۔دراصل امریکہ اور یورپ کے باسیوں کا دل خون
کےآنسو اس لئے رو رہا ہے کیونکہ یوکرین میں بہنے والا خون بھی گوروں کا ہے اور اس
کو بہانے والے بھی گورے ہیں۔ عراق یایروشلم میں لاشیں گرتی ہیں توان کو اس لئے دکھ
نہیں ہوتا ہے کیونکہ ان کی نظر میں’’ غیر مہذب‘‘ مشرق وسطیٰ میں جنگیں اور ہلاکتیں
کوئی غیر معمولی بات نہیں ہیں۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ بم خواہ یمن میں گریں یا
یوکرین میں،ٹینکوں کے قافلے کابل کی سڑکوں کا سینہ روندیں یا کیف کی،گھربغداد میں
تباہ ہوں یاغزہ میں،انسانیت یکساں طور پر شرمسار ہوتی ہے۔ بچے یتیم اور عورتیں
بیوہ ہوتی ہیں ۔ جنگ کے نتیجے میں آزاد ریاست کی آزادی چھن جاتی ہے۔ یوکرینیوں
اور فلسطینیوں کا دکھ اور درد مشترک ہے۔کاش تنگ نظر اور نسل پرستانہ ذہنیت کےمالک
مغربی لیڈران اور ذرائع ابلاغ یہ آفاقی سچائی سمجھ لیتے تو آنکھوں اوربالوں کا
رنگ دیکھ کر مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی نہ کرتے۔ آنکھیں بھوری یا نیلی ہوسکتی
ہیں اور بالوں کا رنگ سیاہ یا سنہرا بھی ہوسکتا ہے لیکن فلسطینی، یوکرینی، عراقی،
برطانوی، یمنی، امریکی اورروسی ہر قوم کے لوگوں کی رگوں میں دوڑنے والے لہو کا رنگ
ایک ہی ہے۔
چوبیس فروری کو روس نے
یوکرین پر چڑھائی کی تو ایسا لگا گویا یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں
قیامت آگئی ہو۔ جو بائیڈن ہوں یا بورس جانسن مغرب کے تمام سربراہان یورپ کی ایک
آزاد ریاست کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کےخلاف روسی جارحیت اوراس کے نتیجے
میں ہونے والی بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نہ صرف کورس
میں مذمت کرنے لگے بلکہ ان پر فوری طور لگام لگانے کے لئے میدان میں اتر پڑے۔بلاشبہ
روس کا یوکرین پر حملہ ایک سنگین جارحیت ہے لیکن کیا امریکہ کو روسی جارحیت کی
مذمت زیب دیتی ہے؟جو امریکہ آج اقوام عالم کو روس کو اس کے جنگی جنون اور توسیع
پسندانہ عزائم کے لئے سخت سزا دینے کی تلقین کررہا ہے،اس نے اور اس کے ناٹو
حواریوں نے پچھلی تین دہائیوں میں دو درجن ممالک کو بلا وجہ اور بلا اشتعال تباہ
کیا ہے۔ صومالیہ، عراق، افغانستان، سوڈان، یمن،گریناڈا، پاناما، لیبیا، شام۔
امریکہ کے ہاتھوں تاراج ہونے والے ممالک کی فہرست طویل ہے لیکن میں اپنے نکتے کی
وضاحت کیلئے صرف عراق کا ذکر کروں گا۔
امریکہ اور اس کے ناٹو
اتحادیوں نے مارچ ۲۰۰۳ء
میں بے قصور اور بے بس عراق کا جو حشر کیا اس کی سزا عراقی عوام آج تک بھگت رہے
ہیں۔ نائن الیون سے بغداد یا صدام حسین کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا لیکن ان
پر القاعدہ سے ساز باز رکھنے اور اجتماعی تباہی والے ہتھیاروں کا ذخیرہ جمع کرنے
کے بے بنیاد الزامات لگاکر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔
۲۰۰۶ء
میں معتبر برطانوی جریدہ The Lancet نے یہ انکشاف کیا کہ
تین برسوں میں عراق جنگ میں ساڑھے چھ لاکھ عراقی ہلاک ہوگئے۔ اس غیر قانونی جنگ نے
بدنصیب ملک میں انتشار، عدم استحکام، غربت، بے روزگاری، فرقہ پرستی اورمسلکی تشدد
کاایسا طوفان برپا کیا جو آج تک نہیں تھما ہے۔
بش کا دعویٰ تھا کہ عراق
پر چڑھائی نہ صرف امریکہ کی قومی سلامتی کے لئے بلکہ عراقی عوام کو صدام حسین کی
جابرانہ حکمرانی سے نجات دلانے اور جمہوریت کا پرچم لہرانے کے لئے بھی ضروری تھی۔پوتن
بھی آج اصرار کررہے ہیں کہ یوکرین پر فوجی کارروائی روس کی قومی سلامتی کیلئے
ضروری تھی۔ آج یوکرین کو آس پڑوس کے تمام ممالک ہتھیار بھیج رہے ہیں۔ صدرزیلنسکی
کی اپیل پر نہ صرف یورپی ممالک سے بلکہ امریکہ سے بھی لوگ یوکرین کوچ کررہے ہیں
تاکہ یوکرینیوں کے شانہ بہ شانہ روسی فوج کا مقابلہ کرسکیں۔ یوکرین پر حملے کو
ابھی پندرہ دن بھی نہیں ہوئے ہیں۔ اب ذرا غور فرمائیے ان مظلوم فلسطینی باشندوں کی
حالت زار پرجو پچھلے پچاس برسوں سے غزہ، مغربی کنارہ اورمشرقی یروشلم میں اسرائیل
کے فوجی قبضے میں روزانہ ظلم و استبداد جھیل رہے ہیں۔ ان کے گھروں کو بلڈوزروں سے منہدم کردیا جاتا
ہے اور مسلسل ان کی زمین ہڑپ کر کے وہاں غیر قانونی یہودی بستیاں تعمیر کی جارہی
ہیں۔ یوکرین کے شہریوں کو روس کے خلاف ہتھیار چلانے کی تربیت دی جارہی ہے اور انہیں
فریڈم فائٹر کہا جارہا ہے۔ لیکن فلسطینی بچے غصے میں اگر قابض فوج پر پتھر بھی
پھینکتے ہیں تو انہیں فوراً دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ آج جو لوگ یوکرینی
شہریوں کے جذبہ مزاحمت کو سلام کررہے ہیں ان کی نگاہ میں فلسطینیوں کومزاحمت کا حق
ہی نہیں ہے۔ روسی قبضہ ناجائز ہے تو اسرائیلی قبضہ جائز کیسے ہوسکتا ہے؟
روس کے خلاف مزاحمت قابل
ستائش ہے تو اسرائیل ڈیفنس فورسز کے خلاف مزاحمت قابل مذمت کیوں ہے؟اگر یوکرینی
روسی فوج پر بم پھینکتے ہیں تو وہ ہیرو ہیں تو جوفلسطینی لڑکے جلتے ٹائروں اور
غلیلوں سے اسرائیلی فوج کا مقابلہ کرتے ہیں وہ تخریب کار کیوں ہیں؟ برطانیہ کی
خاتون رکن پارلیمنٹ کلاڈیا ویب نے عالمی ضمیرکو یہ کہہ کرجھنجھوڑا کہ جو درد مغرب کے لوگ یوکرین کے
مظلومین کے لئے محسوس کررہے ہیں ٹھیک اسی طرح کا درد انہیں فلسطین، یمن اور شام کے
مظلومین کیلئے بھی محسوس کرنا چاہئے۔ نیلی آنکھیں اور سنہرے بال دیکھ کر اگر
مظلوموں کی حمایت کی جائے گی اور ظلم کرنے والے کی مخالفت کرتے وقت یہ دیکھا جائے
گا کہ وہ ہمارا اتحادی ہے یا حریف تو دنیا میں کبھی امن اور انصاف قائم نہیں ہوسکے
گا۔ روس یوکرین میں جو کررہا ہے وہ بالکل غلط ہے اور اس کی جارحیت کو روکنے کیلئے
اور یوکرین کے بے گناہ شہریوں کو بچانےکیلئے عالمی برادری کو ہر ممکن اقدام کرنا
چاہئے۔ لیکن اگراسی طرح کی جارحیت کا شکار یورپ کے بجائے ایشیا یا افریقہ کا کوئی
ملک ہو اور ظلم کرنے والا امریکہ یا برطانیہ ہو اس وقت بھی ٹھیک یہی اقدام اپنانے
ہوں گے۔
9 مارچ
2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism