خواجہ عبدالمنتقم
27 نومبر،2024
اشتعال دلانا اور مشتعل ہونا دونوں ہی کام بہت آسان ہیں لیکن ناموافق صورت حال میں بدتر حالات سے محفوظ رہنے کے لئے صبر وتحمل یعنی صبر ایوب کا مظاہرہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔حالانکہ یہ بڑا مشکل کام ہوتاہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف پہنچائی جاتی ہے یا پہنچتی ہے تو اس کے دل میں سب سے پہلے جذبہ انتقام پیدا ہوتاہے۔ مگر مہذب شہری کبھی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرتے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ کبھی کبھی بحالت مجبوری،خاص طور سے اس صورت میں جب فریق ثانی لکشمن ریکھا کو ہی پار کرجائے، کچھ ایسا کر بیٹھتے ہیں یا ان سے منسوب کردیا جاتا ہے کہ شرارتی عوامل اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے آگے آجاتے ہیں۔
ہمارے ملک کے عوام کے مختلف طبقات بشمول مسلمانان ہند و دیگر کمزور طبقات کو ہر دور حکومت میں اعلیٰ سطحی ارباب حکومت کے ذمہ دارانہ رویہ کے باوجود بھی وقتاً فوقتاً ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کتنے ہی فسادات اور دیگر ناخوشگوار واقعات پیش آتے رہے ہیں جن سے مختلف فرقوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ر ہے ہیں اور ایسے تنازعات کا فیصلہ، جن کا فیصلہ عدالت میں ہونا ہے، سڑکوں پر ہونے لگاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے مہذب شہری ایسے معاملات میں ہر طرح کی احتیاط برتتے ہیں لیکن سماج ہر طرح کے لوگوں پر مشتمل ہوتاہے او رہمیں یہ قیاس نہیں کرنا چاہئے کہ سماج کا ہر شخص مہذب اور قانون کا پابند ہوگا۔
سنبھل ہویا کسی اور علاقہ کی صورت حال یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔’اب کوئی گلشن نہ اجڑے اب وطن آزاد ہے‘ جیسی یقین دہانی کے باوجود آزادی کے بعدبھی یہ سلسلہ جاری رہااور جاری ہے۔ ان سب باتوں کو دوہرانا سماج میں ارتعاش پیدا کرنے کا سبب بن سکتاہے۔ یہ مانا کہ ہمارا ماضی ہمارے مستقبل کے حوالے سے ایک دریچے کا کام کرتاہے اور اگر ہم اپنے ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو ہمارے علم میں ایسی بہت سی باتیں آئیں گی جو ہمیں ناپسند یا ناگوار ہوں اور یہ بھی مانا کہ انہیں بھلا نا آسان کا م نہیں، جیسا کہ خودرامائن (بک2) میں کہا گیا ہے، لیکن اگر ہمیں اپنے ملک میں امن و امان قائم رکھنا ہے اور عوام کے مابین میل جول اور محبت کا ماحول پیدا کرنا ہے تو اس طرح کی باتوں کو بھلانا ہی ہوگا۔
فسادات میں کم وبیش سب کا ہی جانی ومالی نقصان ہوتاہے۔ خون تو خون ہے، عبدالرشید کا ہویا رام پرشاد کا، کسی عام آدمی کا یا کسی سرکاری ملازم کا۔ والدین بچوں کو پڑھا لکھا کر اس لیے بڑا نہیں کرتے کہ وہ اپنی مغموم آنکھوں سے ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھیں۔ ہاں اگر ان کا وہی بیٹا یا بیٹی دشمن سے جنگ کے دوران شہید ہوجائے یا کسی عہدے پر فائز ہوکر اپنے فرائض کی ادائیگی میں اپنی جان قربان کردے تو ایسی صورت حال ان کے لیے فخر کی بات ہوگی۔ اب ہم سب کے لیے یہ امر قابل غور ہے کہ ایسا ہوتا ہی کیوں ہے؟ اگر تمام شہری، منتخب نمائندے اور سرکاری افسران، حسب صورت، اپنے شہری ومنصبی فرائض ایمانداری سے انجام دیں اور انہیں انجام دینے دیا جائے اور انہیں ذمہ داری کا مکمل احساس ہوتو ایسی صورت حال کے پیدا ہونے کا ا مکان بہت کم ہوتاہے۔کہیں نہ کہیں تو نشیب یا Grey Areas ضرور ہیں۔ ان کی نشاندہی اور عقبی کارروائی ضروری ہے۔ خاطیوں کو سزا دینا ایک قانونی مجبوری ہے۔ اس سے زیادہ ضرورت ہے اصلاح معاشرہ کی۔
ا ب مسلمانوں اور ہندوبھائیوں کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ دونوں مل جل کر رہیں۔ہندو بھائی اپنے مسلم بھائیوں کو چھوٹا بھا ئی سمجھ کر گلے لگائیں اور مسلمان بھائی ہندؤ کا اتنا احترام کریں جتنا بڑے بھائی کا کیا جاتا ہے۔ ان دونوں کے بیچ اٹوٹ رشتہ ہے۔ اگر ملک کے 140 کروڑ لوگوں کو اتناسکون حاصل نہ ہوجتنے کے کہ وہ حقدار ہیں تو اس خلیج کو پاٹنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا ہی۔
رہا مذہبی جنون کا سوال تو تاریخ اس با ت کی گواہ ہے کہ جہاں جہاں بھی لوگوں پر مذہبی جنون حاوی ہواہے وہاں سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں ہوا۔اگرہم مختلف بڑاعظموں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو مذہب کے نام پر جتنا قتل عام ہواہے شاید کسی اور بنیاد پر نہ ہواہو۔ امریکہ جسے آج انسانی حقوق کا عظیم علمبردار کہا جاتا ہے وہاں اب سے 100سال پرانے فسادات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ وہاں ایسے ایسے فسادات ہوئے کہ جن کی تفصیل اگر آج کے نوجوانوں کوبتائی جائے تو وہ اپنے دانتوں کے نیچے انگلیاں دبالیں گے۔ تقسیم ہند کے وقت کتنی خطرناک خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اسپین میں کیا نہیں ہوا؟ مشرقی وسطیٰ میں کیا نہیں ہوا اور کیا نہیں ہورہاہے؟ ایسی صورت میں ہندوستان کے دونوں بڑے فرقوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اعتدال پسندی سے کام لیں اور مذہبی جنون کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں۔اس بات کو تو سبھی مانتے ہیں کہ کوئی بھی مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ کسی دوسرے مذہب کوبڑا سمجھا جائے۔ مذہب جوڑنے کا کام کرتاہے نہ کہ توڑنے کا۔جہاں تک برسراقتدا جماعت کی بات ہے تو اس کے تئیں پسندیدگی یا سرے سے ناپسندیدگی جیسی بات کرنا ایک غیر منطقی اورغیر جمہوری عمل ہوگا۔ جب کوئی بھی جماعت جمہوری طریقے سے جیت کر آتی ہے تو شہریوں کا یہ فرض ہوتاہے کہ وہ اس حکومت کو اپنی حکومت سمجھیں، اس کے ساتھ تعاون کریں اور حکومت بھی سب کا پورا پورا خیال رکھے۔
اگر اکثریتی فرقے نے مسلمانان ہند کو برادر اصغر نہیں سمجھا او رمسلمانان ہند نے اپنے ہندو بھائیوں کو برادر اکبر نہیں سمجھا توفتنہ، فساد، شورش، بدامنی ہم سب کا مقد ر بن جائے گی۔جو لوگ بھی ہندوؤں او ر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں یا انہیں کسی بھی مذہب یا جماعت سے ہو اور وہ اپنے آپ کوکتنے ہی اعلیٰ درجے کا دانشور سمجھتے ہوں۔
ایک جانب مسلمان اس رسول کے پیروکار ہیں،جس نے ظلم برداشت کرکے اور پتھر وگالیاں کھا کے بھی ظالموں کو دعائیں دیں اور ان کااسوہئ حسنہ آج بھی اقوام عالم کے لیے مینارہ نور ہے تو دوسری جانب ہمارے ملک کے عوام اس قدیم فلسفے کے حامی ہیں جس میں پوری دنیا کو ’وسودھیو کٹمبکم‘ یعنی پوری دنیا ایک خاندان سے کہا گیاہے اور اس ملک کا اکثریتی فرقہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جن میں بیشتر لوگ انسان تو انسان چڑیا کو بھی مارنا گناہ سمجھتے ہیں۔مسلمانان ہند کوبھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اقلیتی یا اکثریتی دونوں فرقوں میں سے کسی کے ساتھ جب بھی کوئی زیادتی ہوتو انہیں چاہیے کہ وہ انتظامیہ اور عدالت سے رجوع کریں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں ورنہ قانون پر عمل کرنے والوں اور قانون توڑنے والوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟
27 نومبر،2024،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/patience-alternative-violent-environment/d/133849
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism