ودود ساجد
8دسمبر،2024
مشرق وسطیٰ کے حوالہ سے امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دھمکی ہر چند کہ انتہائی تشویشناک اور خوفناک ہے تاہم اس کے نتیجہ میں کچھ اچھی پیش رفت کی خبر بھی ملی ہے۔گزشتہ 9نومبر کو یہ اطلاع آئی تھی کہ خلیج کے امیر ترین ملک قطرنے حماس اور اسرائیل کے درمیا ن ثالثی کے کردار سے ہاتھ کھینچ لیاہے۔ قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی بتایا تھا کہ حماس کی اعلیٰ سیاسی قیادت اب اس کے ملک میں موجود نہیں ہے او ر یہ کہ وہ مختلف ملکوں کی راجدھانیوں کو منتقل ہورہی ہے۔ لیکن گزشتہ 5دسمبر کو یہ اطلاع آئی کہ قطر ثالثی کا یہ کردار دوبارہ شروع کررہاہے۔ظاہر ہے کہ اب حماس کی اعلیٰ سیاسی قیادت کوقطر میں واپس آنے کاموقع ملے گا۔ غزہ میں جنگ بندی اس لئے ضروری ہے کہ اسرائیل اپنی وحشیانہ فطرت کے مطابق غزہ کے ہسپتال ’مریضوں‘ عورتوں او ربچوں کو مسلسل نشانہ بنارہاہے او رچونکہ گزشتہ 27 نومبر کو حزب اللہ کے ساتھ 14 مہینے کی وحشیانہ جنگ کے بعد اسرائیل پوری قوت کے ساتھ غزہ کے نہتے عوام کو قتل کررہاہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ 3دسمبر کو دھمکی دی تھی کہ اگر اگلے برس 20 جنوری سے پہلے حماس نے اسرائیل کے یرغمال شہریوں کو آزادنہ کیا تو وہ مشرق وسطیٰ کو جہنم بنادیں گے۔20 جنوری 2025 کو ٹرمپ اپنے عہدہ کا حلف لیں گے۔
لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کو ممکن بنانے میں براہ راست امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکی ایوان صدر ’وہائٹ ہاؤس‘ میں اس کا اعلان بھی خود جوبائیڈن نے ہی کیا تھا۔ یہ واقعہ ایسے وقت ہوا جب نومبر میں ہی امریکہ کے صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن کی حمایت یافتہ امیدوار کملا ہیرس شکست سے دوچار ہوگئیں اور ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ جیت گئے۔ امریکی حکومت کے ذرائع نے بتایا تھا کہ لبنان کے ساتھ جنگ بندی کے فوراً بعد غزہ میں حماس کے ساتھ بھی جنگ بندی کے معاہدہ پر تیزی کے ساتھ کام شروع کردیا گیا ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ جوبائیڈن کے بار بار کہنے کے باوجود بھی اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے کیو ں غزہ میں جنگ بندی پر رضا مندی ظاہر نہیں کی اور کیوں لبنان میں محض دومہینے کی براہ راست اور دوطرفہ جنگ کے بعد جنگ بندی پرراضی ہوگیا۔ اس سوال کا پہلا جواب یہ ہے کہ حزب اللہ طاقت کے اعتبار سے حماس سے کئی گنا زیادہ مضبوط ہے۔
7اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے سرحدی علاقوں پر حماس کے حملے اور 8اکتوبر کو غزہ پر اسرائیل کی بمباری شروع ہونے کے بعد حزب اللہ نے بھی شمالی اسرائیل میں متفرق حملے شروع کردئے تھے۔ ایک سال تک اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے مقصد سے غزہ پر مسلسل حملے کرتارہا لیکن حزب اللہ کے حملوں کا براہ راست جواب نہیں دیا۔ حزب اللہ نے بھی حماس اوراہل فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے طور پر اسرائیل پر مسلسل حملے جاری رکھے۔یہاں تک کہ لبنان کی جنوبی سرحد سے متصل اسرائیل کے شمالی علاقوں میں آباد بستیوں کے ہزاروں اسرائیلی شہری اپنے گھروں کو چھوڑ کربھاگ گئے۔ اسرائیل کی واحد کوشش تھی کہ کسی طرح اس کے شمالی علاقوں کے شہریوں کے لئے اپنے گھروں کو لوٹنے کا پرامن انتظام ہوجائے۔ حزب اللہ کے ساتھ اس کی جنگ اس لئے آگے بڑھ گئی کہ پہلے اس نے حماس کے سیاسی قائد اسماعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کیا پھرلبنان میں پیجردھماکہ کئے او ر اس کے بعد جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ پر حملہ کرکے ان کا خاتمہ کردیا۔
ظاہر ہے کہ اس واقعہ کے بعد حزب اللہ کی طرف سے سخت رد عمل آنا ہی تھا۔ ہمیں بار بار ایک بات دوہرانی پڑتی ہے کہ ہر چند کہ اسرائیل کی وحشیانہ جنگ میں اہل غزہ کا ہی سب سے بڑا جانی ومالی نقصان ہورہا ہے لیکن اسرائیل کا بھی کچھ کم نقصان نہیں ہورہاہے۔ اس کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ اپنے اولین ہدف میں ہی کامیاب نہیں ہوسکاہے۔نتن یاہو نے 8اکتوبر 2023 کو حماس کے خلاف جنگ شروع کرتے وقت یہی بات کہی تھی کہ حماس کا ایک ہفتہ میں ہی صفایا کردیں گے۔ لیکن وہ ایک سال بعد تک بھی حماس کو ختم نہیں کرسکا ہے۔ یہی نہیں وہ بزورطاقت اپنے باقی ماندہ یرغمال شہریوں کا سراغ تک نہیں لگاسکا ہے۔ اس پہلو پر بھی بار بار بات کرنے کی ضرورت ہے کہ حماس یا حزب اللہ نے اسرائیل کے اندر جہاں جہاں بھی حملے کئے ہیں شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا ہے۔ جب کہ اسرائیل نے غزہ اور لبنان کے شہریوں پر ہی بم برسائے ہیں۔ اسی نکتہ کے سبب پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف نفرت اور غم وغصہ کا ماحول بن گیا ہے۔ہمیں اپنی موجودہ نسلوں کوبار بار یہ بتانے کی بھی ضرورت ہے کہ اس قضیہ میں ظالم اسرائیل ہے جس نے اہل فلسطین کی سرزمین کا بڑا حصہ غصب کرکے ایک ناجائز ملک تعمیر کیا ہے اور اس پر بھی اس نے بس نہیں کیا ہے بلکہ فلسطین کے محصور علاقوں کے اطراف میں دنیا بھر سے شر پسند یہودیوں کو لاکر ان کی بستیاں بسادی ہیں۔ یہ شرپسند اور سخت گیر یہودی غنڈے رہ رہ کر فلسطینیوں پر نہ صرف حملے کرتے ہیں بلکہ ان کے گھروں پر قبضے بھی کرلیتے ہیں۔7اکتوبر 2023 کو ہونے والا حماس کا حملہ اسی ظل وستم کاشاخسانہ تھا۔ یہاں تفصیل بتانے کاموقع نہیں ہے لیکن پچھلے ایک سال سے زیادہ عرصہ سے اسرائیل جس طرح کے اجتماعی بربادی والے حملے مسلسل کررہاہے اس طرح کے متفرق حملے وہ گزشتہ نصف صدی سے کرتا آرہاہے۔2022 میں ہی اس نے غزہ کی متعدد مسجدوں اور اسکولوں پر حملے کرکے انہیں تباہ کردیا تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ 17سالوں سے اس نے غزہ کے 23 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کا محاصرہ کرکے ان پرعرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔
لبنان یا حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کے جواز کے طور پر اسرائیل کہتا ہے کہ اس سے کئی کام بن گئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ حماس کو الگ تھلگ او رتنہا کردیا گیا ے لہٰذا اب وہ جلد جنگ بندی پر رضا مند ہوجائے گی۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔حماس نے غیر مساوی سلوک کرنے والی جنگ بندی کی مختلف تجویز وں کو ایک سے زائدبار مسترد کیا ہے۔ اسرائیل نے سمجھا تھا کہ حماس کے سیاسی قائد اسمائیل ہنیہ کا کام تمام کرنے کے بعد حماس کے حوصلے پست ہوجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ا س کے بعد حماس کی مسلح ونگ کے سربراہ یحییٰ سنوار کو شہید کیا گیا۔ اسرائیل کو پختہ یقین تھاکہ یحییٰ سنوار کے خاتمہ کے بعد حماس کے پاس ا س کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا کہ وہ ہتھیار ڈال دے اور اسرائیل کے تمام یرغمال شہریوں کو بلا شرط رہا کردے۔ قسام کے جانباز ابھی تک غزہ کے مختلف مقامات پر مکانات کے ملبہ سے اچانک نکل کر آتے ہیں اور اسرائیل کے فوجیوں کو ٹھکانے لگادیتے ہیں۔پچھلے دنوں اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو نے اپنے یرغمال شہریوں کے عوض حماس کے لاکھوں ڈالر کو پیشکش کی تھی لیکن حماس نے اسے حقارت کے ساتھ مسترد کردیا۔شاید اسی لئے امریکہ کے وزیر دفاع جان کیربی نے کہا ہے کہ حما س ہی جنگ بندی کے معاملہ میں سب سے بڑی روکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ایسے تمام نامساعد حالات میں وہی نفوس اس طرح کے مواقع کو مسترد کرسکتے ہیں جن کے پاس دنیاوی طاقت نہ سہی لیکن جذبہ ایمانی کی دولت ہو۔کیا ایسے جانبازوں پر ٹرمپ کی اس احمقانہ دھمکی کا کوئی اثر ہوگا کہ اگر یرغمالوں کو 20جنوری سے پہلے رہا نہ کیا گیا تو میں مشرق وسطیٰ کو جہنم بنادوں گا؟ کیا اس وقت بھی غزہ اور اس کے حوالہ سے مشرق وسطیٰ کسی جہنم سے کم ہے؟
ٹرمپ کی اس دھمکی کے بعد مشرق وسطیٰ میں ان کے نومنتخب خصوصی سفیر ’اسٹیووٹکاف‘ نے بھی اسرائیل اورقطر کا دورہ کیا ہے۔ وٹکاف دراصل ایک بہت بڑے بلڈر ہیں جنہو ں نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ خلیج کے بہت سے (عرب) ممالک میں سرمایہ کاری کررکھی ہے۔اندازہ ہے کہ ٹرمپ اگلے برس عہدہ کاحلف لینے سے پہلے سرتوڑ کوشش کریں گے کہ کسی طرح حماس کی قید میں موجود اسرائیل شہری بھی رہا ہوجائیں اور غزہ میں جنگ بندی بھی ہوجائے۔’جہنم بنادینے‘ کی مذکورہ بالادھمکی بھی اسی کوشش کی شدت کامظہر معلو م ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قاتل نتن یاہو کو حماس کے ساتھ جنگ بندی کی خواہش نہ ہو۔ بس وہ اسے اپنی سبکی کے خوف سے ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ حزب اللہ نے اسے جو عسکری نقصان پہنچایا ہے وہ تو ہے ہی اس کے علاوہ شمالی اسرائیل میں بھی کم نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ خود اسرائیلی ذرائع کے حوالہ سے اسرائیل کے میڈیا نے جو اعداد وشمار شائع کئے ہیں ان کی رو سے حز ب اللہ کے خوف سے شمالی اسرائیل سے اجڑنے والے اسرائیلی شہریوں کو ابھی تک 39ملین ڈالر کا معاوضہ دیا جاچکا ہے۔ اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کے مطابق شمالی اسرائیل میں 8800 مکانات پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں۔ سات ہزار گاڑیاں تباہ ہوگئی ہیں۔ تین سوز رعی مقامات ناقابل کاشت بن گئے ہیں۔ مہنگائی اپنی بالائی سطح کی حد سے آگے جاچکی ہے۔ شرح نمو انتہائی نچلی سطح پر آگئی ہے۔ نتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے جو مقدمات چل رہے ہیں ان میں عدالت نے کوئی چھوٹ دینے سے انکار کردیا ہے۔آئندہ 10دسمبر کو نتن یاہو کو عدالت میں پیش ہونا ہے۔
ادھر دنیا بھر میں اسرائیل اور یہود مخالف مہم میں شدت آگئی ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں یہودیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے ہوئے ہیں۔گزشتہ دنوں ایمسٹرڈم میں کھیل کے دوران یہودیوں پر جو حملے ہوئے تھے ان میں معلوم ہوا ہے کہ 200سے زیادہ یہودی شدید طور پر زخمی ہیں۔ یورپ بھی اب اسرائیل کی مسلسل حمایت کے سوال پر تقسیم ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کئی بار جنگ بندی کی تجویز پاس کرچکی ہے۔نتن یاہو کے خلاف عالمی عدالت انصاف نے جو وارنٹ جاری کیا تھا اس کے پیش نظر اسرائیل نے اپنے کئی سینئر حکام کو بھی متنبہ کیاہے کہ وہ دوسرے ملکوں کا دورہ نہ کریں بلکہ انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔عرب ثالثین کاکہناہے کہ جنگ بندی کے معاملہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نتن یاہو ہے جو غزہ سے مکمل انخلاء کی بات کو تسلیم نہیں کررہا ہے۔ حالانکہ ایک سروے رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے شہری غزہ سے مکمل انخلاء اور حتمی جنگ بندی کے حق میں ہیں لیکن یاہو کے سخت گیر اتحادی لیڈر س غزہ پرمستقل قبضہ رکھنے کیلئے وہاں یہودی نوآبادکاروں کو بسانے کامنصوبہ رکھتے ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نے نہ صرف اس منصوبہ کی مخالفت کی ہے بلکہ نتن یاہو کو غزہ میں نسل کشی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ مختصر یہ کہ نتن یاہو سیاسی، سفارتی، قومی اور بین الاقوامی ہرمحاذ پرناکام وپسپا ہورہا ہے۔ اس نے اسرائیل کے ہر شہری اور اسرائیل کی ہر بستی کو معرض خطر میں ڈال دیا ہے۔ ایسے میں لگتا کہ حماس کے جانباز ٹرمپ کی دھمکی سے خوف زدہ ہوکر ان کے ہاتھ پربیعت کرلیں گے۔
8 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/passion-making-hell/d/133985
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism