پرویز حفیظ
7مئی،2017
وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کے لیڈروں کو حال میں خاموش رہنے کا قیمتی مشورہ دیا۔ پارٹی لیڈروں کے متنازع بیانات سے شاید تنگ آکر مود ی نے انہیں ’ خاموشی کا فن‘ اپنانے کی ہدایت دی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ بی جے پی لیڈر وں پر اس ہدایت کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ مسلسل زہر اگل رہے ہیں اور ملک میں دہشت پھیلارہے ہیں ۔ تاہم گزشتہ چند ماہ میں ملک میں سنگھ پریوار کی سازشوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں نے جس طرح چپی سادھ رکھی ہے ، اس سے یہ ثاثر ضرور ملتا ہے کہ گویا انہوں نے مودی کا ’ حکم‘ پوری طرح مان لیا ہو۔ کانگریس ہو یا عام آدمی پارٹی ، ملائم سنگھ ہوں یا لالو پرساد جو پارٹیاں او ر سیاستداں سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے تھے، آج بالکل خاموش ہیں۔
میڈیا جس پر جمہوری اور سیکولر اقدار کے تحفظ کی بڑی ذمہ داری تھی اور جس نے ماضی میں بارہا فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف زبردست محاذ آرائی کی تھی، وہ بھی سماج کے واچ ڈاگ ہونے کا اپناکردار نہیں نبھا رہا ہے ۔ سنگھ پریو ار کے لیڈروں اور کارکنوں کے ذریعہ جس مذموم طریقہ سے اقلیتوں کے خلاف مورچہ بندی کی جارہی ہے،اس پر بھی اخبارات او رٹی وی چینلوں کے ذریعہ جس بھرپور طریقے سے مخالفت کی جانی چاہئے تھی وہ ندارد ہے بلکہ اب تو میڈیا کا ایک بڑاحصہ حکمراں پارٹی کا ترجمان بن گیا اور گؤ کشی ، رام مندر،تین طلاق، مسلم پرسنل لاء اور دہشت گردی جیسے امور پرڈیبیٹ کے بہانے مسلمانوں کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ کرکے سیکولر او رکشادہ ذہن ہندوؤں کے ذہن بھی مذہبی منافرت کا زہر بورہا ہے۔
تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ عام ہندوستانی شہری جو بنیادی طور پر امن اور انصاف پسندہیں ا و رجو پہلے ظلم اورعدم رواداری کے خلاف آواز بلند کرتے تھے ، وہ بھی اب خاموش رہنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں ۔ قصہ مختصر یہ کہ فرقہ پرست طاقتوں کے منظم او رمسلسل یلغار کے سامنے سیکولر مزاج او رجمہوریت پسند شہریوں ، پارٹیوں ،اداروں اور ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں ۔
اچانک اتر پردیش ، راجستھا ن ، ہریانہ ، مدھیہ پردیش ، کرناٹک او رملک کے متعدد صوبوں میں راتوں رات ’ خدائی فوجداروں‘ کے گروہ تیارہوگئے ۔ ان خود ساختہ واہنیوں کا بس ایک ہی کا م ہے کمزور اقلیتوں پر مظالم ڈھانا ۔ کبھی یہ قانون شکن گروہ گؤ رکشک کا چولا پہن لیتے ہیں توکبھی اینٹی رومیو اسکواڈ بن کر معصوم او رمظلوم نوجوان لڑکے او رلڑکیوں پر قہر ڈھاتے ہیں ۔ ان کو ناتوپولیس کا خوف ہے او رنہ ہی عدلیہ کی پرواہ۔ اپنے سیاسی آقاؤں کی پشت پناہی کی بدولت ان کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اگر کبھی پولیس غلطی سے اپنی ڈیوٹی نبھانے کی کوشش میں ان کے غیر قانونی حرکتوں کے خلاف ایکشن لیتی ہے تو یہ تھانوں پر حملہ کر کے قانون کے رکھوالوں کی مرمت کردیتے ہیں ۔ سہارن پور او رآگرہ جیسے مقامات پرسنگھ پریوار کے غنڈوں کے ہاتھوں جس ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ یقیناًخاکی وردی کی توہین ہے۔
تین سال قبل نریندر مودی ’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کے رتھ پر سوار ہوکر اقتدار میں آئے تھے لیکن بہت جلد سارے ملک کو اور خصوصاً اقلیتوں او ردلتوں کو یہ پتہ چل گیا کہ یہ محض ایک دلفریب نعرہ تھا ۔ مودی آر ایس ایس کے ہندوتوکے ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر دہلی کے مسند پر بیٹھے ہیں ۔ آر ایس ایس 1925ء میں مسلم دشمنی کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا ۔ 2014ء میں مودی جیسے سخت گیر سنگھی لیڈر کا ملک کا وزیر اعظم بننا اور 2017میں یوگی آدتیہ ناتھ جیسے متعصب مہنت کا اتر پردیش جیسے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنناسنگھ پرویوار کے خوفناک منصوبے کا حصہ ہے۔ منظم طریقے سے ہندوستان کو دیرینہ ہندو مسلم یکجہتی کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ۔ فرقہ پرستی کے زہرسے ملک کے کونے کونے کو مسمور کیا جارہا ہے ۔ صاف لگ رہاہے کہ آر ایس ایس کے 100سالہ سالگرہ کے قبل ہندوستان جنت نشان کی ہندوراشٹریہ میں تبدیل کرنے کا بلیو پرنٹ تیار کرلیا گیا ہے۔
گؤ کشی کو بہانہ بنا کر بے گناہ انسانوں کا خون بہایا جارہا ہے ۔ قاتل آزاد گھوم رہے ہیں اور مقتول او راس کے گھر والوں کے خلاف پولیس مقدمہ درج کررہی ہے ۔ ہریانہ کے پہلو خان کے سفاکارنہ قتل کامنظر سارے ملک نے دیکھا لیکن کہیں سے کوئی صد ائے ا حتجاج بلند نہیں ہوا۔ راجستھان میں الور کے ہائی وے پر درجنوں جنونیوں نے ایک نہتے بے بس انسانوں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا او رپولیس خاموش تماشائی بنی رہی ۔ راجستھان اور ہریانہ کی حکومتوں نے نہ تواس جرم کی مذمت کی او رنہ ہی مہلوک کے رشتہ داروں کے کانوں میں ہمدردی کے دو بول بولے۔ مودی ’ من کی بات‘ میں دنیا جہاں کے موضوعات پر بے تکان بولتے ہیں لیکن اس سانحہ پر بالکل اسی طرح خاموش رہے جیسے 2015میں دادری میں اخلاق کے قتل کے بعد خاموش تھے ۔
ہزاروں میل دور اسٹاک ہوم میں ہونے والے ایک دہشت گردانہ حملے کی مودی نے مذمت تو کی لیکن دہلی کے قریب ایک بے گناہ انسان کے وحشیانہ قتل کے خلاف ان کی زبان سے ایک لفظ تک نہ نکلا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہندوستان دکھ کی اس گھڑی میں سوئیڈن کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے لیکن ایسا کوئی دلاسہ انہوں نے ایک ہندوستانی مقتول کے گھر والوں کو دینا ضروری نہیں سمجھا ۔ حد تو یہ ہے کہ مختار عباس نقوی نے پارلیمنٹ میں اس بات ہی سے انکار کردیا کہ الور میں کسی بے گناہ کو گؤرکشکوں نے مارا ہے۔ حکمراں بی جے پی کی لیڈروں نے اپنے رد عمل اور بیانات سے یہ واضح کردیا کہ وہ ظالم اور قاتل کے ساتھ ہیں، پہلو خان کے مظلوم بیوی بچوں کے ساتھ نہیں ۔
دادری سانحہ کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا ایک طوفان برپا ہوگیا تھا ۔ میڈیا اور دانشوروں نے انٹولیرنس یا عدم رواداری کی سخت مذمت کی تھی ۔ سیکڑوں ادبیوں ، شاعروں ، فلم کاروں اور دیگر فنکاروں نے احتجاج کے طور پر مرکزی حکومت کے ذریعہ دیئے گئے انعام اور اعزازات جن میں پدم شری اور ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈزبھی شامل تھے، سرکار کو لوٹا دیئے تھے ۔ آج جب انٹو لیرنس اتنابڑھ گیا ہے کہ ملک کی راجدھانی میں میٹرو ریل کے ڈبے میں دو نوجوان ایک باریش بزرگ کوپاکستان چلے جانے کامشورہ دیتے ہیں، تب ہمارے سماج میں پوری طرح سے خاموشی ہے۔
ایوارڈ ز واپسی نے مودی او ران کے ساتھیوں کی نیند اڑادی تھیں۔ انہیں یہ ڈر لگنے لگا تھا جیسے ملک بھر میں ان کی فسطائی حرکتوں کی مخالفت میں ایک طوفان سا آجائے گا ۔ بہار اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو ذلت آمیز ہار کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ تاہم گزشتہ 18ماہ میں صورتحال بالکل بدل گئی ہے۔ حال کے اسمبلی انتخابات میں چار صوبوں خاص کر اتر پردیش میں ملنے والی بھاری فتح نے بی جے پی کے حوصلے کافی بڑھادیئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سارے ملک میں پارٹی لیڈروں او رکیڈروں نے اقلیتوں کے خلاف حملے تیز کردیئے ہیں ۔ حیرت اور تاسف کا مقام یہ ہے کہ جب ملک کے افق پر فاشزم کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں ۔ تو ایسے نازک وقت میں کوئی احتجاج کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ چاروں طرف ایک بے بس سی خاموشی کیوں چھائی ہوئی ہے؟ ہر طرف ایک ہولناک سناٹاکیوں پھیلا ہوا ہے؟
7مئی،2017 بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/this-deafening-silence-brother-/d/111125
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism