نصرت زہرا حسین
7 مئی 2023
پروین شاکر کی شاعری میں
موجود درد مندی اور کھرا پن ان کو ایک رجحان ساز شاعرہ بناتے ہیں حالانکہ ان کی
شاعری ایسی نہیں جسے چوراہوں پر پڑھا جائے یا جلسوں کی زینت بنایا جائے اور جسے
سننے کے بعد اہل جلسہ اور مجمع میں جوش و خروش پیدا کیا جائے تاہم اس کے باوجود ان
کی شاعری ایک طلسم ہے۔ جسے آپ جب پہلی بار پڑھتے ہیں تو تاعمر اس کے حصار سے باہر
نہیں آ سکتے۔ ہم نے ان کے فن پر۔ ایک تحقیقی مقالے کے دنوں میں ان کی شاعری کے ان
پہلووں کو بھی دیکھا کہ جو وطن، زمین اور اس کی اساس میں پیوست ہیں جو غالباً ان
کے فنی ارتقا کے لیے محققین کا موضوع بنیں گے۔ ان کا اخری مجموعہ انکار اپنے اندر
ماہ تمام کی سی حیثیت رکھتا ہے جسے انہوں نے 1990 میں طبع کیا۔ اس کتاب کے طبع
ہونے کے دو برس بعد وہ مزید تعلیم کے لئے امریکہ گئیں جہاں فاضل وقت میں وہ دو
یونیورسٹیوں اور ایک کالج میں جنوبی ایشیا کا ادب پڑھاتی رہیں۔ اس دوران ان کے ایک
کورس انچارج پروفیسر مارون کالپ جو پریس، سیاست، اور پبلک پالیسی کے مضامین پڑھاتے
تھے وہ پروین کی بہت قدر کرتے تھے اور انہیں بہت ذہین سمجھتے اپنے ایک حوالہ جاتی
مضمون میں انہوں نے لکھا کہ پروین سیاسیات میں گہری دلچسپی لیتی اور جلد تصورات کو
سمجھ جاتی اس کے ساتھ آپ کسی بھی موضوع پر بات کریں تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے
کہ وہ دنیا کے بیشتر ممالک کی سیاحت کر چکی ہے اور اس کا مطمح نظر واضح اور صاف
ہوتا ہے جس میں ابہام نام کی کوئی چیز دریافت نہیں کی جا سکتی۔
یہی وجہ ہے کہ وہ جو
لکھتی اسے فوراً پذیرائی اور توجہ حاصل ہوتی اس کا بیشتر کلام اجتماعی حافظوں کا
حصہ بن چکا ہے۔ پروین شاکر کی زیر نظر نظم سندھو دریا کی محبت کئی حوالوں سے اہم
ہے ایک حوالہ تو یہ کہ ان کا اپنا تعلق سندھ سے ہے اور دوسرے یہ کہ اس میں انہوں نے
سندھ کے باسیوں کو درپیش مشکلات کو بڑی خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے۔ ایک انٹرویو میں
انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں قومیت کی بنیاد پر بہت سے مقامات پر مشکلات کا سامنا
کرنا پڑا۔ انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تو اس وقت بھی انہیں بڑے صوبے سے
تعلق نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی تعصب کا نشانہ بنایا گیا تاہم انہوں نے اپنے ٹیلنٹ
کی بنیاد پر کامیابیاں حاصل کیں اس ضمن میں ان کی محنت ہی ان کا سب سے بڑا میرٹ
رہی۔
سندھو دریا کی محبت میں
ایک نظم
ہریالی دریا کے دونوں
جانب ہوتی ہے
وہ پہاڑوں اور میدانوں
میں بہتے ہوئے
پتھروں اور پھولوں سے
یکساں سلوک کرتا ہے
مچھلیاں پکڑتے ہوئے
کبھی کسی مچھیرے سے اس کا
ڈومیسائل نہیں مانگتا
بلکہ شکریے کا انتظار کیے
بغیر آگے بڑھ جاتا ہے
ہوا اور بادل کی طرح
مہربان اور بے نیاز
مگر جب اس کے کنارے پر
رہنے والے
اس کے پانیوں میں نفرتیں
ملانے لگیں
اور بچوں اور پھولوں کو
والیوں اور مالیوں کا
شجرہ دیکھ کر
پانی کا پرمٹ جاری کرنے
لگیں
اور یہ سلسلہ بہت دیر تک
چلتا رہے
تو تاریخ ہمیں یہ بتاتی
ہے
کہ ایسے موقعوں پر
دریا اپنا جغرافیہ تبدیل
کر لیتے ہیں
میرا خیال ہے
ہمارے لیے
فی الحال ایک موہنجوداڑو
کافی ہے۔
ان کی وطن پرستی اور
وفاداری پر ایک مہر اثبات ان کی محبانہ نظمیں پڑھ کر بھی ثبت ہوتی ہے۔
7 مئی 2023،بشکریہ:روزنامہ چٹان سری نگر
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism