ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
1 ستمبر،2023
ملک ۱۴ ؍اگست
۱۹۴۷ ءکو مذہبی بنیاد پر
تقسیم کے نتیجے میں دو لخت ہو گیا۔ دو قومی وحدتوں کاجو تعلق ۱۴۰۰ ؍برس
پرانا تھا وہ پہلے تجارت، سیاحت اور اسکا لرشپ کے راستے جڑا، اسکے بعد اولیاء اللہ
کی کثیر تعداد میں آمد سے یہاں اسلام بحیثیت دین متعارف ہوا اور پھیلا- تیسرے
اقتدار کی غرض سےیکے بعد دیگرے حملہ آور عرب، ترک، ایرانی، افغان و مغل آئے
جنھوں نے لگ بھگ آٹھ سو برس حکومت کی مگر سب یہیں کے ہوگئے ،یہ سارا دور اقتدار
ہندو-مسلم حصےداری کے حوالے سے مشترکہ طور پر کہیں کم اور کہیں خوب کی بہترین مثال
رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انگریزحکومت کی بالادستی کے خلاف پہلی، دوسری اور تیسری جنگ مشترکہ طور پر بالترتیب
میسور میں ٹیپو سلطان، بنگال میں نواب سراج الدولہ اور تیسری و آخری لڑائی مغل
بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں مل کر لڑی گئی۔ صدیوں ساتھ رہنے والے اچانک دو
متصادم اور مخالف وحدتوں میں کیسے تبدیل ہو گئے؟یہ ایک اہم سوال ہے جس کو
ذہن میں رکھئے گا۔تقریباً آٹھ سو سالہ مسلم اقتدار میں باہمی اقتدار کے حصول یا
اس کی
بقا کے لئے کئی حصوں میں آپسی جنگیں ضرور ہوئیں مگر وہ ہندو مسلم کی بنیاد پر
نہیں تھیں ۔اس زمانے میں دونوں فریقوں کی افواج دونوں وحدتوں پر مشتمل ہوتی تھیں ۔ اورنگزیب
۲۵ برس مرہٹوں سے لڑے۔
مرہٹوں کی افواج میں کثیر تعداد میں مسلمان تھے، مورخین شیوا جی کی افواج میں ساٹھ
ہزارمسلمان فوجی بتاتے ہیں۔ اعلیٰ ترین سطح پر مسلم نمائندگی تھی ۔حتیٰ کہ ان
کی جان بچانے والا ایک وقت میں انکا اپنا
وفادار مسلم ساتھی مداری مہتر ہی تھا، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سپہ سالاروں میں
نمایاں نام جنرل الہٰی بخش، غوث خان اور امام شاہ وغیرہ کے آتے ہیں، ایک مسلم اکثریتی
ریاست کشمیر کا راجہ ہندو اور اکثریتی ہندو ریاست حیدرآباد کا حاکم نظام مسلم!
کہیں ہندو مسلم تھا ہی نہیں یہ تو جب انگریز کو اقتدار مل گیا تو اس نے دونوں کے
بیچ دانستہ ایک حکمت عملی کے تحت خلیج پیدا کی اور پھر اس کو ایسے آلہ کار و سہولت کار مل گئے
جنھوں نے اپنے ذاتی فوائد کے لئے ہندوستان کی صدیوں پرانے بھائی چارہ کو پارہ پارہ
کر د یا۔
۱۹۲۰
ءسے ۱۹۴۷
ءکے درمیان قومی سیاست کو دو قومی سیاست میں بدلنے میں انگریز کامیاب ہو گیا اور
ایسی آگ لگائی کہ وہ آج تک نہ بجھ سکی!آخر کار مذہب کے نام پر ہمارا سینہ، دل،
جگر، نفس و نفسیات سب کا قتل کر دیا گیا۔ ملک تقسیم ہو گیا، دس لاکھ بے قصور ہلاک
کر دیئے گئے، ہزاروں خاندان در بدر ہوئے، عصمتیں لٹیں، کاروبار تباہ ہوئے، محلوں
اور کوٹھیوں میں رہنے واے کیمپوں، خیموں اور سڑکوں پر آگئے۔ ہندوئوں کی اکثریت
مغربی پاکستان سے بڑی حد تک ہندوستان ہجرت کر گئی۔ البتہ مشرقی پاکستان میں بڑی
ہندو اکثریت وہیں رہی۔ وہ دو وحدتیں جن کے درمیان پورے مسلم دور اقتدار میں ایک
فرقہ وارانہ فساد نہیں، وہ اب ایک دوسرے سے دست و گریباں، ایک دوسرے کی جان کے
دشمن ۔یہ ہے وہ بیج جو انگریزوں نے ہمارے بیچ ڈالا، جس کی فصل آج بھی ہم سب کاٹ رہے ہیں ۔میرا
موقف اس حوالے سے یہ ہے کہ اگر اتنی صدیاں ہم مرکزی مسلم اور ریاستی سطح پر مخلوط
اقتدار میں پر امن طریقے سے ساتھ رہتے آ رہے تھے تو اب کیوں نہیں؟جو جواز بعد میں
نکالے گئے وہ تو روز اول سے اختلاف کی بنیاد قرار پا سکتے تھے۔
ہندو مسلم ساتھ نہیں رہ
سکتے ‘انکی تہذیب، تمدن، اخلاقیات، معاشرت، عقیدہ، پہناوا، زبان و بیان سب کچھ الگ
اور وہ اس وجہ سے ساتھ نہیں رہ سکتے تو اب تک کیسے رہ رہے تھے؟ یہاں ہر دلیل دم توڑ دیتی ہے ۔اگر تقسیم مذہبی
بنیاد پر ہونا طے ہی ہو گیا تھا تو پھر آدھی مسلم آبادی کے لئے علیحدہ وطن اور
باقی کے لئے اس الزام میں جینا کہ تم تو اپنے حصے کی زمین اور اپنا حق وحصہ لے چکے
اب پھر کس بات کی دعویداری پر کیوں چھوڑ دیا گیا؟ دلائل بہت دئیے جا سکتے ہیں مگر
ہندو نفسیات میں آج یہ بات بالکل اس طرح ہی پیوست ہے۔ تمام قربانیاں جن کا ذکر
آج مسلم نشستوں میں ہوتا ہے وہ ایک ہندو بچے‘ بڑے مرد و زن کو نہ متاثر کرتی ہیں
اور نہ ہی مطمئن!
یہ سچ ہے کہ پوری مسلم
آبادی کے اس ۱۴
فیصد حصے جس کو اس وقت ووٹ کا حق حاصل تھا محض
اسکی رائے کو بقیہ ۸۶
فیصد کا فیصلہ قرار دے دیا گیا۔ مسلم اکثریتی ریاستوں پر مشتمل قیام پاکستان کا
فارمولہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے ساتھ
ہوا ۔کشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہمارے ساتھ شامل رہی ۔ تقسیم بنگال و پنجاب میں قوم پرست
مسلم قیادت جس میں کلیدی کردار مولانا آزاد کاہے خصوصا” ضلع گروداس پور جو پنجاب
کا مسلم اکثریتی ضلع تھا اس کے ہندوستان میں شامل ہونے سے ہمیں
کشمیر کو راستہ ملا ورنہ کشمیر تو
جغرافیائی تقسیم میں پاکستان کوچلا ہی گیا تھا۔ یہ سب خدمات بھی تقسیم ہند
کی بھینٹ چڑھ گئیں ۔ مگر پھر بھی ہم آج مجرم کی زندگی جی رہے ہیں۔ پاکستان کا
مطلب کیا لا الہ الاللہ! ۲۴
؍برس میں وہ دو لخت ہو
گیا۔ سارے دعوے اور مدعے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ریاستی بنیادوں پر تعصب، علاقا ئیت
کا بول بالا، جمہوریت کا بار بار قتل، مقبول ترین عوامی قائدین کا قتل، پھانسی،
قید اور جب چاہے عوامی اکثریتی رائے کا ایک فوجی جنرل کے ہاتھوں قتل اور اقتدار پر
نا جائز قبضہ وہاں ایک معمول بن گیا۔ ۱۹۷۱
ءکے انتخاب میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کی جماعت عوامی لیگ اکثریت حاصل کرتی
ہے ،اقتدار نہیں سونپا جاتا باقی تاریخ ہے! آج بھی عمران خان جو ملک کی بھاری
اکثریت کی حمایت رکھتا ہے جس کا صاف اور شفاف انتخابات میں تمام
اندازوں کے مطابق جیتنا طے ہے وہ ایک جنرل کی وجہ سے دو سو مقد مات کا سامنا کر
رہا ہےاور ۶/۱۰
کی کوٹھری میں پا بند سلاسل ہے ۔یہ ملک اور اس کی قیادت کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتے
ہیں، بنیادی حقوق کی پامالی کا رونا روتے ہیں، کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات
کرتے ہیں، وہ جو خود سندھ اور بلوچی علیحدگی پسندگی کا سامنا کر رہا ہے کب تک
اکٹھا رہیگا کسی کو نہیں پتہ! نہ خود کسی لائق بنے اور نہ ہمیں کسی لائق ہی چھوڑا۔
عوام میں مقبول قیادت بر داشت ہی نہیں! بس ہند مخالف جذبات ہر وقت نفسیات پر حاوی!
کوئی مقابلہ ہی ہمارے اور آپکے درمیان نہیں۔ ہم پانچ سو بلین ڈالر سے زائد زر
مبادلہ رکھتے ہیں آپ کے پاس آٹھ بلین ڈالر اور وہ بھی ادھار کا ۔ آپ نے ثابت کردیا کہ آپ اسکے لا ئق ہی نہ تھے اور
کیا نتیجہ نکالا جائے؟ مسلمانان ہند اور ان کے حالات تقسیم ہند کے مضمرات کے
حوالے سے بڑے واضح ہیں۔ آزادی کے فورا” بعد ایک حکمت عملی تشکیل پانی تھی، ہندو
اکثریت نے تو ہندوستان کو سیکولر رکھ کر، آئین میں مساوی حیثیت دیکر اپنی دریا
دلی کا عملی مظاہرہ کر دیا،ہم ایسا کچھ نہ کر سکے جس سے تقسیم کے زخم بھرتے۔ ہمارے
لئے مذہبی و فرقہ وارانہ نفرت و منافرت کو زمین نہ ملتی۔ ہندو نفسیات کے زخموں کی
بھر پائی ہو تی، آپسی بھروسہ و اعتماد فروغ پاتا ۔ البتہ ان بنیادوں پر جو دائیں
بازو کی سیاست و معاشرت اپنی جڑ پکڑ رہی تھی اس پر کوئی کام ہی نہیں ہوا، اس کو
ہوا اور غذا ملتی رہی، بچپن سے جوانی اور جوانی سے شباب مل گیا آج ایسا ہی کچھ
جاری ہے، میں بار بار اپنی بات کو مختلف زاویوں سے یہاں لاتا ہوں کیونکہ زمین اور
دیوار پر لکھا ہی یہ سب ہے۔ کیسے حقیقت سے منہ موڑوں اور اس سے رو گردانی کروں؟من
حیث القوم ایک وحدت کے ہمیں ان تلخ حقائق کو تسلیم کرنا پڑیگا، کچھ بنیادی فیصلے
کرنے پڑینگے، اس مٹی اور زمین سے جڑنا پڑیگا جس میں کئی جھول کا ہمیں اور آپکو
ادراک ہے، ہمارے عمل اور رد عمل کی بنیاد کونئی جہتیں تلاش کرنی ہونگی، وطن پرستی
کے صحیح معنی‘ مفہوم و تقاضے دوبارہ پڑھنے اور سمجھنے ہونگے، کچھ نظریات سے
علیحدگی اختیار کرنی ہوگی، اس تاریخ سے جو حملہ آوروں کے اقتدار کی تاریخ ہے اس
کی اچھائی و برائی دونوں سے اپنا تعلق رسمی طور پر الگ رکھنا ہوگا ۔یہ تاریخ اب سر
حد پار جا چکی۔ ہماری تاریخ وہ ہے جو ہر
دور میں ہماری مٹی اور اس کے سپوتوں سے جڑی ہوئی رہی ہے۔ ہمارے
ہیرووہ ہیں جو ساجھے ہیں۔ ہم ہر حالات اور ہر مشکل میں ہم وطنوں کے حلیف ہیں۔ جو
دوریاں یا اختلاف ہیں ان کو امن و صلح کے ساتھ باہمی افہام و تفہیم سے اب بنا کسی
مزید تاخیر کے حل کر لینا چاہئے، کیونکہ فضا اتنی مکدر ہو چکی ہےکہ اب حالات اس سے
آگے جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ آخر میں توجہ اس طرف دلانا چاہتا ہوں کہ فکر ماضی
کی زنجیروں سے باہر لائی جائے، مستقبل کے آئینے میں خود کو دیکھا جائے، جذبات و
جذباتیت سے اوپر اٹھ کر علمیت، عقلیت، دلیل و منطق اور ادراک عمل کی دنیا میں قدم
رکھنے کا فیصلہ کیا جائے، اپنے رویوں اور اپنی اخلاقیات کی سمت کو موجودہ و مستقبل
کے چیلنجز کا احاطہ کرتے ہوئے کچھ نئی و ترقی پسند سوچ کی طرف منتقل کریں۔ اب یہ
سب کئے بغیر بند کنویں سے باہر آنے کا کوئی راستہ نہیں دکھائی دیتا۔ عقیدے اور
عاقبت و اپنی مخصوص اخلاقیات و تمدن پر آنچ لائے بنا آج بھی سب ممکن ہے ۔کل شاید
یہ لکھنا بھی آسان نہ رہ جائے۔ آج کل کی بنیاد ہے اور کل مستقبل کی! بیداری میں فرار اور قرار دونوں ہیں جبکہ
بیزاری اور دقیانوسیت میں نہ فرار ہے، نہ قرار اور نہ ہی عزت نفس اور اسکا دفاع و
بقا!
جو آپسی رشتے واعتمادسے
سے حاصل ہو جاتا ہے وہ آئین، قانون اور اداروں سے نہیں ہوتا!
1 ستمبر،2023،بشکریہ : انقلاب،نئی دہلی
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism