نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
25 نومبر،2024
پاکستان کے قبایلی خطے کرم ایجنسی کے صدر مقام پارا چنار میں جمعرات کونامعلوم سنی دہشت گردوں کے ذریعہ شیعوں کے قتل عام میں ایک سو سے زائد معصوم افراد شہید ہوچکے ہیں ۔ اس قتل عام کے بعد جوابی کارروائی میں خطے کے بگن بازار اور دوسرے قصبوں میں درجنوں افراد قتل کئے جاچکے ہیں اور کئی گاؤں کو تباہ کردیا گیا ہے۔دونوں طرف کے انتہا پسندوں نے ایک دوسرے کی عورتوں اور بچوں کو یرغمال بنا لیا ہے اور پولیس اور سیکیوریٹی فورس خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ تادم تحریر دونوں فریقوں کے درمیان قتل اور آگ زنی کا سلسلہ جاری ہے۔
جمعرات کو پارا چنار اور پشاور کے درمیان سو سو گاڑیوں کا کارواں سیکیوریٹی کی نگرانی میں پارا چنار اور پشاور سے روانہ ہوا تھا۔ سو گاڑیاں پشاور سے پاراچنار کے لئے اور سو گاڑیاں پارا چنار سے پشاور کے لئے روانہ ہوئی تھیں۔ ان گاڑیوں میں عورتیں بچے اور جوان سوار تھے۔کرم ایجنسی کے علاقے میں کئی دہائیوں سےشیعہ سنی کشیدگی ہے اور دونوں فرقوں کے درمیان کئی بار فرقہ وارانہ فسادات میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ کرم ایجنسی افغانستان سے ملحق ضلع ہے جہاں شیعوں کی اکثریت ہے۔ کرم ایجنسی کے جنوبی حصے میں سنیوں کی اکثریت ہے۔ لہذا ، پارا چنار کے عوام کو پشاور اور پاکستان کے دیگر علاقوں اور شہروں میں جانے کے لئے سنیوں کے علاقے سے گزرنا پڑتا ہے۔چونکہ کئی دہائیوں سے دونوں فرقوں کے درمیان کشیدگی ہے اس لئے پارا چنار سے پشاور جانے والی شاہراہ طویل مدت سے بند ہے۔ وقفے وقفے سے کسی مقررہ تاریخ کو حکومت کی طرف سے یہ راستہ کھولا جاتا ہے اور سیکیوریٹی کے ساتھ دونوں طرف سے گاڑیوں کو آنے جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔اس دن دونوں طرف پھنسے ہوئے لوگ سینکڑوں گاڑیوں میں سوار ہوکر پشاور سے پارا چنار اور پارا چنار سے پشاور جاتے ہیں۔ جمعرات کو بھی اسی طرح سو گاڑہاں پارا چنار سے پشاور کے لئے روانہ ہوئیں اور سو گاڑیاں پشاور سے پارا چنار کے لئے روانہ ہوئیں۔اس وافلے میں پارا چنار کے وہ لوگ بھی شامل تھے جو ملیشیا ، قطر وغیرہ میں ملازمت کرتے تھے اور چھٹیوں میں گھر لوٹ رہے تھے۔انہوں نے ہفتوں پشاور میں شاہراہ کے کھلنے کا انتظار کیا تھا۔
سو گاڑیوں کے قافلے کے سامنے بیچ میں اور آخر میں پولیس کی گاڑیاں کارواں کی حفاظت کے لئے چل رہی تھیں۔ لیکن پشاور سے پارا چنار آنے والی گاڑیآں جب بگن بازار علاقےمیں داخل ہوئیں توآس پاس کی پہاڑیوں سے قافلے پر اندھادھند فائرنگ ہونے لگی جس میں تقریبا سو افراد جاں بحق ہوگئے۔ ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ان میں ایک چھ ماہ کا بچہ بھی تھا جس کے دودھ کا بوتل بھی وہاں گرا ہوا ملا۔
چونکہ پاراچنار کو جانے والے قافلہ میں شریک تمام افراد شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے وہاں کے عوام سنی انتہا پسندوں کو اس قتل عام میں ملوث بتارہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ قافلے کے محافظ پولیس اور سیکیوریٹی اہلکار نے جوابی کارروائی میں ایک بھی گولی نہیں چلائی بلکہ فائرنگ شروع ہونے پر بھاگ کھڑے ہوئے۔
پاراچنار کے ایک صحافی محمد یاسر امامی نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اس علاقے میں سنی تکفیری عناصر سنی مسلمانوں کوشیعوں کے خلاف بھڑکاتے ہیں اور انہیں کافر کہتے ہیں۔ علاقے کا ایک شخص عید نظر سنی مسلمانوں سے کہتا ہے کہ جو بھی ایک شیعہ کومارے گا اس کے لئے میں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ علاقے کے سنی علماء بھی اسی نظرئے کی اشاعت کرتے ہیں کہ شیعہ کافر ہیں اور ان کا قتل کارثواب ہے۔
اس قتل عام کے بعد پارا چنار کے شیعوں کی طرف سے بھی سنیوں پر حملے ہوئے اور کئی گاؤں کو جلا دیا گیا۔ فوج کو علاقے میں اتار دیا گیا ہے لیکن تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔کل خیبر پختونخوا کے وزیراعلی کی طرف سے بھیجے گئے ایک وفد کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ ہوئی لیکن خوش قسمتی سے ہیلی کاپٹر بحفاظت واپس آگیا۔ریاستی حکومت کی طرف سے سیز فائر کی کوششیں جاری ہیں جو اھی تک ناکام ہیں کیونکہ پارا چنار کے عوام اس قتل عام میں ریاستی حکومت کو ملوث مانتے ہیں۔
کرم ایجنسی میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان کشیدگی کی ایک وجہ زمینوں کا تنازع بھی ہے۔ انگریزوں نے جانے سے پہلے خطے کے شیعوں اور سنیوں میں زمینوں کی غیر منصفانہ تقسیم کردی تھی۔ اس تقسیم کے مطابق شیعوں کو زیادہ زمین دی گئی اور سنیوں کو آبادی کے لحاظ سے کم زمین ملی۔ لہذا ، زمین کے تنازع میں بھی اکثر دونوں فریقوں میں لڑائی ہوجاتی ہے۔ لیکن حکومت پاکستان دونوں کے درمیان زمین کے تنازع کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھاتی۔ اور زمین کا جھگڑا شیعہ سنی فسادات کی وجہ بنتا ہے۔ اس کشیدگی کو مسلک پرست اور تکفیری علماء شیعوں کے خلاف کفر کے فتوے دے کر بڑھاوا دیتے ہیں ۔ وہ شیعوں کے سامان کو مال غنیمت قرار دے کر اسے لوٹ لینے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ لہذا ، محمد یاسر امامی کےمطابق ایک بار شیعوں کے آٹے کے ٹرک کو ایک سنی امام مسجد کی قیادت میں سنی مسلمانوں نے لوٹ لیا تھا۔ وہ امام مسجد خود آٹے کو لوٹنے کے لئے ٹرک پر چڑھ گیا تھا اور ٹرک سے گر کر زخمی ہوگیا تھا جس کا شیعوں نے خوب مذاق اڑایا تھا۔
پارا چنار کا قتل عام کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی آخری۔پاکستان میں مسلکی اور مذہبی منافرت پھیلانے میں وہاں کے تکفیری اور انتہا پسند طبقے کا نمایاں کردار ہے۔ اس مسلکی منافرت کو ختم کرنے میں وہاں کے علماء کوئی رول ادا نہیں کررہے ہیں۔ کسی بھی سرکردہ عالم دین یامفتی کا اس قتل عام کی مذمت میں کوئی بیان نہیں آیا ہے۔ اس مسلکی منافرت کی وجہ سے پارا چنار پورے پاکستان سے کٹ گیا ہے۔وہاں کے عوام پاکستان کے دوسرے شہروں تک جانے کے لئے افغانستان کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔انہیں علاج کے لئے یا سرکاری خدمات حاصل کرنے کے لئے اسلام آباد ، پشاور وغیرہ جانے کے لئے سرکاری تاریخوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے جب وہ اجتماعی طور پرقافلہ بنا کر پولیس سیکیوریٹی میں پاکستان جاسکتے ہیں لیکن وہ بھی اب محفوظ نہیں رہ گیا ہے۔پارا چنار کے لوگ پاکستان میں شیعہ ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں۔وہ ایک کھلی جیل میں رہنے کومجبور ہیں۔ مجموعی طور پر مسلک پرست اور تکفیری علماء نے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے بجائے اسے جہنم برروئے زمیں بنادیا ہے جہاں چھ ماہ کے بچے کو ہلاک کرنابھی جنت کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ یہ صورت حال مفتی تقی عثمانی ، ڈاکرذاکر نائک ، علامہ طاہرالقادری ، مفتی طارق مسعود اور مولانا طارق جمیل کے لئے لمحہء فکریہ ہے۔
------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/parachinar-massacre-sunni-takfirism/d/133813
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism