New Age Islam
Fri May 23 2025, 05:36 PM

Urdu Section ( 11 Aug 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Palestinians Still Living in Nakba Daily فلسطینی اب بھی روزانہ نکبہ کا مشاہدہ کر رہے ہیں

 مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

 2 اگست 2023

 نام کتاب: Understanding the Nakba: An Insight into the plight of Palestinians

 مصنف: نسیم احمد

 مطبوعہ:London, Palestinian Return Centre

 صفحہ 202۔ ISBN: N.B

------

مسئلہ فلسطین برطانوی استعماریت کی میراث ہے۔ عصری تاریخ میں یہ سب سے پرانے تنازعات میں سے ایک ہے اور ایک بین الاقوامی ادارے کے طور پر اقوام متحدہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت بھی، جس کا مقصد سیاسی تنازعات اور اختلافات کو حل کرنا ہے۔ فلسطینی تنازعہ بدستور عروج پر ہے اور اس میں بے دریغ بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے جب کہ بڑی طاقتیں فلسطینی باشندوں کی قیمت پر اسرائیل کی حمایت کر رہی ہیں۔ اس تنازعہ کی ابتدا اسی سے ہوتی ہے جسے فلسطینی ہر سال النکبہ (یوم آفت) کے طور پر یاد کرتے اور مناتے ہیں یعنی 15 مئی 1948 کو جب فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالنے اور انہیں بے کھر کرنے کے بعد اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی۔ زیر نظر کتاب میں النکبہ کے سانحے پر نظرثانی کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ نکبہ فلسطینیوں کے لیے کس طرح ایک حقیقت ہے اور وہ کس طرح پوری زندگی نکبہ سے گزرتے رہتے ہیں۔نکبہ کی عینک سے نوجوان مصنف نسیم احمد نکبہ اور فلسطینیوں کی زندگیوں، جدوجہد، مزاحمت اور مستقبل میں اس کی اہمیت پر نظرثانی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 کتاب کے پیش لفظ میں، رکیل ایم روڈولف، منیجنگ ایڈیٹر، انکمپاسنگ کریسنٹ، نکبہ کی اہمیت کو بخوبی بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ "تاہم، نکبہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے جس کا اثر بہت سے لوگوں کی زندگیوں پر ہے۔ بلکہ یہ ایک جاری حادثہ ہے جو وقت اور جگہ سے ماورا ہے اور ہر سانس، ہر کھوئی ہوئی زندگی اور وجود کے ہر لمحے کو گھیرے ہوئے ہے۔ نکبہ صرف 1948، 1967 یا دوسرے ادوار کا نہیں ہے جہاں فلسطینیوں کی بے دخلی، نسلی کشی، قتل، قبضے اور جبر کی مہمات چلائی گئیں۔ بلکہ، یہ اس ناانصافی کی داستان ہے جس نے انسانیت کو کئی دہائیوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ اس ناانصافی کو ایک ایسے بین الاقوامی نظام نے محفوظ رکھا ہے جس پر ریاستوں کا غلبہ بہت عرصے سے ہے جو سیاسی اور معاشی اشرافیہ کے نمائندے ہیں نہ کہ ان لوگوں کے جن کی نمائندگی ان کا مقصد تھا- عام آدمی، عورتیں اور بچے۔ ایک ایسے نظام اور قوم کی پالیسی سازی کے نظام میں بے آواز کی آواز خاموش رہتی ہے، جس کو انصاف کے لیے کھڑا ہونا چاہیے اور مظلوموں کے حقوق کا ان کے ظالموں سے دفاع کرنا چاہیے، بلکہ وہی خود ظالم کے حقوق کا دفاع کر رہی ہے۔

 نسیم احمد اپنے تعارف میں فلسطینیوں کے ساتھ نکبہ کے تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’کوئی ایک لفظ بھی ان فلسطینیوں کے دکھ کی بازگشت نہیں کر سکتا جن کی زندگی نکبہ کے زیر سایہ ہے۔ نکبہ ایک مستقل حالت بن گیا ہے جسے ایک نسل کے بعد دوسری نسل نے محسوس کیا ہے۔ پہلی اجتماعی بے دخلی کے بعد، فلسطینیوں نے بحیثیت ایک قوم کے اپنی تباہی کا انتہائی دلخراش منظر دیکھا ہے۔ انہیں پناہ گزین بنا دیا گیا ہے اور نسل کشی، قبضے، پرتشدد بے دخلی اور جنگوں کو برداشت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ فلسطینی ایک نسل پرست حکومت کے ہاتھوں ناانصافیوں کا شکار ہیں جس نے ان کی زندگیوں اور تقدیر کو قید کر رکھا ہے" (ص-12)۔ کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حصہ میں نکبہ کے مختلف پہلوؤں اور اثرات سے متعلق ہے۔

 نسیم نکبہ کی تاریخ کی ابتداء بیان کرتے ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نکبہ کے مظاہر کو سمجھنے کے لیے صہیونیت اور اس کی کارستانیوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے بعد وہ ان مختلف آلات کو بیان کرتے ہیں جو سچائی کو گڑھنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں جو کہ تاریخ لکھنے کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔ اس کے بعد وہ فلسطین کی رپورٹنگ کے دوران میڈیا کے تعصب سے متعلق بھی کچھ باتیں بیان کرتے ہیں، اور یہ واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح ڈیلیٹ پلان کو ایک ماسٹر پلان کے طور پر نافذ کیا گیا تاکہ فلسطین کو اس کی مقامی آبادی سے صاف کیا جائے۔ نسیم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ فلسطین جیسے تنازعہ میں کوئی بھی غیر جانبدار نہیں رہ سکتا، لیکن ایجاد کردہ خرافات کا جواب دینے کی ضرورت ہے اور جھوٹ کا رد ناقابل تردید حقائق کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے۔ نکبہ جیسی کہانی فلسطینیوں کی طرف سے اقوام متحدہ کی تقسیم کے منصوبے کو مسترد کرنے کا نتیجہ تھی، یا وہاں کوئی فلسطینی تھا ہی نہیں، اور جو لوگ فلسطین میں رہ رہے تھے وہ تمام حالیہ مہاجرین تھے، لہٰذا، یہ کسی مقامی آبادی کا اخراج نہیں تھا بلکہ یہ ایک خانہ بدوش قوم کی مزید ہجرت تھی۔ لیکن نسیم اس بات سے خوش نظر آتے ہیں کہ فلسطین پر نئی تحقیقات ان خرافات اور تاریخ کو چیلنج کر رہی ہے۔

 نسیم ثقافتی، مذہبی اور سیاسی صہیونیوں کے درمیان فرق کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’ثقافتی صہیونی جدید دنیا میں یہودیت کا مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے نہ کہ یہودیوں کا مسئلہ‘‘۔ ان کے خیال میں، یہودیت اور یہودی لوگوں کی بقا کو سامیت دشمنی سے کم خطرہ لاحق تھا، بجائے پاؤں پسارتی ہوئی سیکولر تہذیب کے، جس نے ان کو اینکرونزم بنا دیا۔ اصل خطرہ غیر یہودیوں کا مسترد کیا جانا نہیں تھا بلکہ انہی گلے لگانا تھا" (ص-44-43)۔

 اس کے بعد نسیم اس پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح فلسطینیوں کی آبادی کی منتقلی اور انخلاء کو فلسطینیوں کو بے گھر کرنے اور نئے مہاجر یہودیوں کے لیے راستہ بنانے کے لیے ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ جنگیں بھی لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے استعمال کی گئیں مثلاً 1967 کی عرب اسرائیل جنگ، حتیٰ کہ مقدس شہر یروشلم کو بھی ایک کالونی بنا دیا گیا۔ فلسطینیوں کو آبادیاتی مسئلہ بھی مانا جاتا ہے جسے ان کی آبائی سر زمین سے ہٹانا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ اسرائیل کا قانونی ڈھانچہ فلسطینیوں کی بے دخلی کو تقویت دیتا ہے۔ ویسے اسرائیل کا کوئی تحریری آئین نہیں ہے۔ نسیم لکھتے ہیں، "افغانستان یا کسی دوسرے تنازعے کے برعکس، فلسطینی پناہ گزینوں کی جاری نقل مکانی جنگ کا نتیجہ نہیں ہے" (ص-49)۔ اس بات سے اتفاق بھی کیا جا سکتا ہے اور اختلاف بھی، کہ افغانستان کے برعکس جس پر 9/11 کے حملوں کے نتیجے میں قبصہ ہوا تھا، فلسطین 1948 سے قبضے میں ہے اور جنگ اور فوجی طاقت کا استعمال اب بھی فلسطینیوں کو بے گھر کرنے اور ان کے وطن سے محروم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

 نکبہ کی مختلف بنیادی خصوصیات کو بھی بیان کیا گیا ہے، جن میں فلسطینی پناہ گزینوں کی مستقل حالت زار، اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کی سفارشات اور قراردادوں کو پامال کرنا اس کی اس تنظیم کی بے توقیری کی واضح عکاسی ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کا جنم ہوا۔ اسرائیل کے لیے امریکہ کی حمایت اور سلامتی کونسل کی ایسی کسی بھی قرارداد کے خلاف ویٹو استعمال کرنے کی پالیسی جو اسرائیل کے مفادات کے خلاف ہو۔ اسرائیل کی ریاست کو استثنیٰ کا کلچر حاصل ہے جو امن عمل کے تمام اقدامات کی ناکامی کی وجہ ہے۔ اسرائیل کے وجود کے غیر قانونی ہونے پر بین الاقوامی اتفاق رائے کے باوجود، یہ اب بھی مہذب اور جمہوری انداز میں برتاؤ نہیں کرتا، حالانکہ یہ پورے مشرق وسطیٰ میں ایک واحد جمہوریت ہونے پر فخر کا اظہار کرتا ہے۔ یہ اب بھی فلسطینیوں کے ساتھ نمٹنے میں بے طاقت اور دہشت گردانہ اقدامات کا استعمال کرتا ہے۔

 مجموعی طور پر، یہ کتاب فلسطین کے مسئلے میں دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کو پڑھنے کے لیے بہترین ہے اور نقبہ کا کردار، جیسا کہ مصنف نکبہ کو بہت اچھی طرح سے پیش کیا ہے، نہ زیادہ علمی ہے اور نہ ہی بہت آسان لیکن اگر کسی کے پاس سیاست اور مسئلہ فلسطین کا ابتدائی علم بھی ہے تو کتاب کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ مصنف کو اس کاوش پر مبارکباد دینے کی ضرورت ہے۔ یہ فلسطینی مطالعات میں ایک اچھا اضافہ ہے۔

English Article: Palestinians Still Living in Nakba Daily

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/palestinians-living-nakba/d/130427

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..