قطب اللہ
8 جولائی،2024
فلسطین تباہ ہوگیا، اب وہا ں مٹھی بھر لوگ باقی بچے ہیں جو
حماس کے مخالف بن چکے ہیں۔ اسرائیل سرچڑھ کر بول رہاہے، اب امریکہ کی بھی نہیں
سنتا، بس اب قصہ تمام۔حزب اللہ کے دن گنے جاچکے ہیں۔یہ ہے دنیا کے اسرائیل نواز
میڈیا کی رپورٹ جن میں ہمارے ملک کے کچھ گودی چینل بھی شا مل ہیں وہ گھما پھرا کر
جو خبریں پیش کررہے ہیں ان میں اسرائیل نوازی کی بھونڈی تصویر صاف نظر آجاتی ہے۔
اگر مذکورہ پروپگنڈہ کو ایک لمحہ کیلئے صحیح مان لیا جائے تو پھر اسرائیل کو مزید
افواج کی کیوں ضرورت ہے؟ وہ مذہبی ربیوں پر شکنجہ کیوں کس رہاہے کہ وہ بھی فوج میں
بھرتی ہوجائیں۔ امریکہ سے اسلحہ کی سپلائی عارضی طور پر بندہوجانے کے بعد وہ چپکے
چپکے دنیا کے کئی ممالک سے ہتھیار او رگولہ بارود کیوں حاصل کررہاہے؟ حماس اور
فلسطینیوں کے ایک گروپ میں شدید اختلافات کی خبرسب سے پہلے بی بی سی نے پھیلانی
شروع کی تھی۔ جس کے حوالے سے اسرائیل کی پروپگنڈہ مشینری حرکت میں آئی۔ حقیقت تو
یہ ہے کہ فلسطینیوں کے مزاحمتی گروپوں او ر عوام میں کسی قسم کانہ تو کوئی اختلاف
ہے او رنا ہی وہ کوئی اپنی رائے الگ رکھتے ہیں وہ حماس کے ساتھ پہلے دن سے ہیں اور
آج بھی اسی نظریہ پر قائم ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ آج
اسرائیل میں حالات بہت خراب ہوچلے ہیں وہاں کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے جس
میں مغربی ممالک کے علاوہ ملت اسلامیہ کے کئی ملک ان کی چوری چھپے مدد رکررہے ہیں
وہ اپنے فلسطینی بھائیوں، بچوں اور عورتوں کی بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرجانے کا
دور سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔مصر اور جنوبی غزہ کے مابین گیارہ کلو میٹر کا رفح باڈر
اسرائیل نے کیسے مقفل کررکھا ہے؟ حالانکہ ابراہمی معاہدے کے تحت اسے کھلے رکھنے پر
مصر اور اسرائیل نے رضا مندی کامعاہدہ کررکھا ہے۔ اس سلسلے میں مصری صدر السیسی
اور عرب دنیا کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں۔
حماس نے جنگ بندی کے
سلسلہ میں حال میں جو لوگ لچک دکھائی ہے اس سے ایک بار پھر امید کی کرن نظر آئی ہے
کہ شاید خطے میں امن قائم ہوجائے۔ امریکی صدر جونائیڈن نے 6جولائی،2024 کو نیتن
یاہو کو فون کرکے مشورہ دینے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی کہ اس موقع کو ہاتھ سے نہ
جانے دو ورنہ بہت پچھتاؤ گے۔ اس میں تمہاری کرسی بھی بچی رہے گی او رملکی عوام میں
عزت بھی۔ اس کے بعد اسرائیل نے 6/7جولائی کی شب میں ہی موساعد کے سربراہ کے ساتھ
اپناایک وفد قطرکی راجدھانی دوحہ بھیج دیاہے۔اس میٹنگ میں مصر، اسرائیل، قطر او
رعالمی امن پسند تنظیم کے ممبران بھی شامل ہیں۔اس کے نتائج کیا ہوں گے ابھی کچھ
کہا نہیں جاسکتا ہے۔
اس دوران مزاحمتی گروپوں
کی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، وہ حزب اللہ ہویا حماس، حوثی انصار اللہ یا
جہاد اسلامی تنظیم عراق۔ سب نے اپنے حملوں کے اہداف میں توسیع کردی ہے۔ اب حزب
اللہ کے گائڈ ڈمیزائل اور راکٹوں کی مسافت دوسو کیلو میٹر سے آگے نکل چکی ہے تو
اسی طرح حوثی مجاہدین نے بحر احمر اور بحر ہند سے آگے نکل کو بحر متوسط تک حملے
کرنے لگے ہیں۔ ان ہی حملوں میں یہ پتہ چلا کہ امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ مسلم
ممالک بھی اسرائیل کو مدد پہنچا رہے ہیں جو خودکو فلسطینیوں کادوست کہتے ہیں۔
حماس کو ایک طرح سے
دوطرفہ لڑائی لڑنی پڑرہی ہے،اسے ایک طرف اگر اپنے ازلی دشمن صیہونیوں سے مقالہ
کرناپڑرہا ہے تو دوسری جانب وہ ان دوست نما دشمنوں سے بھی نبرد آزما ہے جو اسے کئی
طرف سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو گزشتہ ہفتہ اسرائیلی وزیر اعظم
نیتن یاہو نے یہ دعویٰ کیوں کیا کہ اُردن اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ مصر اور
سعودی عرب بھی اس کے اچھے دوست ہیں۔ حالانکہ مؤخرالذ کرکے سربراہ شہزادہ محمد بن
سلمان نے اس کی سختی کے ساتھ تردید کردی لیکن دوسرے ممالک اب تک خاموشی اختیار کئے
بیٹھے ہیں۔
حال میں حوثیوں نے بحر
احمر میں دومزید بحری جہاز وں کوو نشانہ بنایا جس کے مالک امریکہ او ربرطانیہ ہیں۔
اس کے جواب میں یمن کے حدیدہ پر جوابی
حملہ کیا گیا، جہاں یمن کا کوئی فوجی متاثر تو نہیں ہوا البتہ بندرگاہ کو زبردست
نقصان پہنچا ہے۔ انصار اللہ کو روز بروز مضبوط ہوتا دیکھ کر گزشتہ ہفتہ سعودی عرب
کو روس سے یہ اپیل کرنی پڑی کہ وہ اپنے بیلسٹک میزائل حوثیوں کو دینا بند کردے
کیونکہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے۔ روس نے اس کا کوئی خاطر خواہ جواب
تو نہیں دیا البتہ حوثی لیڈر عبدالمالک نے یہ ضرور کہا کہ ہم غزہ کی حمایت میں
حملے کرتے رہیں گے یمن کی بحریہ نے اس کے فوراً بعد بحر متوسط میں مزید چار آپریشن کر ڈالے او
راسرائیلی جہاز یونیک اور امریکی تیل بردار جہازوں کو نشانہ بنایا جو اسرائیل کی
جانب رواں دواں تھے ان کے نام ہیں ’لگی سیلر‘ اور ’این وی لینڈنگ‘۔
سعودی عرب کے رویہ سے
ناراض 3جولائی 2024 کواسماعیل ہانیہ کو یہ بیان دینا پڑا کہ ہمارے ارب دوست ہمیں
کیوں پریشان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی جانب سے ہمیں مدد کے
طور پر ایک درہم نہیں ملا ہے۔ اسی اثنا اسرائیل نے ایک با ر پھر خان یونس اور
قلقیلیہ پر سخت حملہ کردیا ہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ شاید فلسطینیوں کی وہاں سے
تیسری ہجرت شروع ہوجائے گی ۔نتین یاہو نے مذکورہ دونوں شہروں پر حملے کی وارننگ د
ے دی تھی، بہانہ وہی ہے کہ حماس سرنگوں کاجال یہیں بچھا یا گیاہے۔اس سرنگوں کی
تلاش کرتے کرتے صیہونی افواج پاگل ہوگئی ہے،لیکن اسے کوئی کامیابی اب تک نہیں ملی
ہے بلکہ نقلی سرنگوں میں حماس نے انہیں پھنسا کر کثیر تعداد میں آئی ڈی ایف کے
جوانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔
اس وقت جنوبی غزہ بارود
میں نہا چکا ہے جب سے نیتن یاہو کو عالمی عدالت سے اپنی گرفتاری کا وارنٹ جاری
ہونے کا خطرہ ستانے لگا ہے اس نے جنوبی علاقے پر بمباری تیز کردی ہے۔ اس کے جوا ب
میں حزب اللہ نے بھی ’قریات سمونہ‘ اورالقسام بریگیڈ نے مغربی کنارے میں آباد
صیہونی آباد کاروں کو فرار ہونے پر مجبور کردیاہے۔حال میں نتین یاہو نے مغربی
کنارے میں ایک وسیع علاقے پر اپنے آباد کاروں کو بسانے کامنصوبہ تیار کرکے ایک
علاحدہ صیہونی علاقہ کااعلان کیاہے۔ حزب اللہ نے وہاں سے پہلے موجود صیہونی بستیوں
کو غیر آباد کرنا شروع کردیاہے۔ یہود وہاں سے بھاگ رہے ہیں، اب سوال یہ پیدا
ہوتاہے کہ اس نئے علاقے میں کس کی ہمت ہے کہ وہ آباد ہونے کے لئے آئے۔ اس علاقے
میں حزب اللہ کی میزائلوں کامقابلہ کرنے میں اسرائیلی آئرن ڈوم ناکام ہوچکا ہے،
پانچ جولائی کی شب میں حزب اللہ نے وہاں پر بارہ راکٹوں سے بیک وقت حملہ کرکے
زبردست تباہی مچائی تھی۔ جس میں سے صرف ایک راکٹ کو آئرن ڈوم ناکام بنانے میں
کامیاب ہوا تھا جب کہ گیارہ راکٹ اپنے صحیح اہداف پر لگے جس میں صیہونی فوجیوں کی
زبردست ہلاکت کی خبروں کے ساتھ عمارتوں اور فوجی اڈوں کی تباہی کاپتہ چلاتھا، اس
کے ساتھ دو امریکی مرکاوا ٹینک اور دیگر فوجی گاڑیاں بھی تباہ ہوئی ہیں۔
چلتے چلتے سعودی عرب میں
کثیر تعداد میں حجاج کی اموات کاذکر ضروری ہوگیا ہے،اس کے لئے سخت موسم کابہانا
اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ اصل میں بدانتظامی اور حفاظتی عملہ کی
زبردست کمی سامنے آئی ہے، پچیس لاکھ اللہ کے مہمانوں سے سعودی عرب بارہ سے پندرہ
ارب ڈالر کما ئی کرتاہے جب کہ ان حجاج کے ذریعہ وہاں سے کھجوروں اور دیگر اشیاء کی
خریداری سے اسے 23ارب ڈالر کا منافع حاصل ہوتاہے۔ ایسے میں یہ رقم اپنے خوش آمدیوں
کو شاہی خرچہ پر بلا کر پذیرائی کی جاتی ہے، اگر اس کا کچھ حصہ مستحق حجاج کو
سہولت دینے پر خرچ کردیا جاتا تو اس قسم کی جانی اتلاف سے بچا جاسکتاتھا۔
8جولائی،2024، بشکریہ: روزنامہ آگ، لکھنؤ
--------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism